بوم بوم آفریدی کے سامنے بندھا بے بس شیر


میرا بھتیجا بہت شرارتی اور نٹ کھٹ سا ہے، ٹک کر بیٹھنا تو گویا اس کو آتا ہی نہیں۔ دنیا جہاں کے وہ کون کون سے کھلونے ہیں جو میرا بھائی اس کے لیے لے کر نہیں آتا، اور وہ کچھ ہی دنوں میں ان کا ستیاناس کرکے مزید کی طلب میں ہُمکنے لگتا ہے۔ بہت سارے والدین کی طرح میرے بھائی کا بھی بس نہیں چلتا کہ دنیا کی ہر نعمت اپنے بچے کے قدموں میں ڈھیر کردے۔ بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے اسی جنون میں ایک دن بھائی نے خوب صورت طوطوں کی ایک منہگی جوڑی کو، سجے ہوئے پنجرے میں قید کرکے، گھر کے ایک کونے کی زینت بنا ڈالا۔

میرے بھتیجے کو یہ نئے کھلونے بہت پسند آئے، اکثر اوقات وہ طوطوں کو دیکھ کر اتنا نہال ہو جاتا کہ مارے خوشی کے پنجرے کو کئی پٹخیاں ایک ساتھ دے دیتا۔ طوطے پنجرے کی دیواروں سے ٹکراتے، کبھی گرتے اور کبھی سنبھلتے۔ لیکن بچے کی خوشی اگر اسی میں تھی تو ماں باپ بھی خوش اور دادی جان بھی صدقے واری تھیں۔ البتہ بھتیجے کو اس فعل سے باز رہنے کی تلقین ضرور کرتے جو اس کی ناسمجھی کے آگے بے سود ٹھہرتی۔ آخر ایک دن ان طوطوں کو آزادی مل ہی گئی، بس اس کے عوض انہیں اپنی سانسوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ اب وہ پنجرہ گھر کے ایک کونے کی ویرانی مزید بڑھا رہا ہے، اور میرا بھتیجا نئے کھلونوں میں مگن ہوچکا ہے۔

اپنی خوشی کے لیے دوسروں کی آزادی گروی رکھنے کا چلن تو انسانی معاشرے میں بہت پرانا ہے، لیکن یہ قومی رواج اس وقت بین الاقوامی بن جاتا ہے جب اس کی پیروی وہ لوگ کرنے لگیں جنھیں ریاستیں سفیر کا درجہ عطا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تصویر کچھ دن قبل انسٹاگرام پر میری نظروں سے گزری، جس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی اور ان کے بچے اپنے گھر کے احاطے میں زنجیروں سے بندھے ایک شیر کے پاس سر فخر سے بلند کیے بیٹھے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ شیر پالنا شاہد آفریدی کا اپنا شوق ہے یا ان کا کوئی چاہنے والا جنگل کے شیر کو آئینہ دکھانے اسے آفریدی ہاؤس لے آیا، حقیقت تو یہ ہے جوں جوں انسان کا دنیاوی مرتبہ بڑھتا جاتاہے اور دولت اس کے گھر بنا دستک دیے وارد ہونے لگتی ہے، ویسے ویسے انسان اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کسی نہ کسی جان دار کے گلے میں زنجیر یا پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اس کو اپنا غلام بنا لینے کے شوق میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔

آفریدی بھائی کے سامنے زنجیروں سے بندھا شیر بکری بنا زمین پر پڑا تھا، اور وہ خود ایک گھٹنا فرش پر ٹکائے اور دوسرا اونچا کرکے اس پر کہنی جمائے، آنکھوں میں غرور لیے شیر کو تک رہے تھے۔ جنگل کا بادشاہ اس وقت طوطوں کی طرح ہی بے بس اور مظلوم لگ رہا تھا۔ یہ تصویریں دیکھ کر مجھے یقین ہوچلا کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی بساط کے مطابق جان داروں پر غلبہ حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا ہوچکا ہے۔

بچوں کے کھیل تماشوں کے نام پر ان جانوروں کو بے بس کر دینا ہماری نسلوں کو اس کے سوا کوئی پیغام نہیں دیتا کہ اپنی تسکین کے لیے کسی کو بھی پابہ زنجیر کرنا عین حق ہے۔ انسانوں کے اسی حیوانی شوق کی تسکین کی خاطر کتنے ہی بھرے پُرے جنگلات اجاڑ دیے گئے۔ خوب صورت جانوروں کی قیمتی نسلیں معدوم ہوگئیں۔ شکاریوں نے فریب کا جال ڈال کر نہ صرف پرندیوں کو قیدی بنایا بلکہ وہ قدیم درخت بھی کاٹ ڈالے جن پر ان پرندوں نے مہینوں کی ریاضت سے، اپنا آشیانہ بنا کر ننھے سے خاندان کی بنیاد ڈالی تھی۔ اور یوں انسان نے اپنی ہی بھلائی کے لیے خدا کی طرف سے عطاکردہ ایک قدرتی ماحول کو اجاڑ ڈالا، جس کے سنگین نتائج کسی نہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں آئے دن حضرت انسان بری طرح بھگت رہا ہے۔

طاقت کے اظہار کے لیے اگر کسی جان دار کو قید کرلینا جائز ہے تو پھر امریکا سے شکوہ کیسا! جس نے گوانتانامو بے جیل میں کتنے ہی دو پیر والوں کو ایسی ہی موٹی زنجیروں میں جکڑ کر کسی نہ کسی کونے سے باندھ رکھا ہے۔ حیرت کیسی، اگر امریکی سپاہی، کھونٹے سے بندھے ان جان داروں کے ساتھ کھڑے ہو کر فخر سے تصاویر بنواتے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرواتے ہیں کہ امریکا سے زیادہ دم تو کسی میں ہے ہی نہیں اور وہ ہر طاقت ور کو زیر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

ذہن کو لاکھ جھٹکنے کے باوجود بھی مجھے بوم بوم آفریدی کے سامنے بندھے بے بس شیر اور دنیا بھر میں سرحدوں پر لگی باڑوں کے پیچھے قید مہاجرین میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ یہ مہاجرین بھی کبھی اپنے اپنے آشیانوں میں شیروں کی طرح اکڑ کر رہتے ہوں گے۔ اپنی بستی میں تن کر چلتے ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے، دنیا کے کسی ٹھیکے دار کو طاقت کے اظہار کا قدیم شوق چرایا، جس کے نتیجے میں انسانوں کی سیکڑوں بستیاں اجڑیں اور کھیت ویران ہوئے اور وہاں ہنستے، بستے لوگ جانوروں کی طرح قیدی بنا لیے گئے۔

آفریدی بھائی! میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں، میرا مقصد آپ کے کردار پر انگلی اٹھانا نہیں۔ دیکھا جائے تو معاملہ بس اتنا سا ہی تو ہے کہ آپ نے ایک طاقت ور کو لگام ڈالی، اس کو شیر سے بکری بنایا، پھر اس کے اطراف اپنے بچوں کے ساتھ مل کر جشن منایا، آپ کو لگے گا کہ یہ بات اب ایسی بھی نہیں کہ بتنگڑ بنایا جائے، لیکن اس ایک معاملے کی جتنی تہیں چاہیں کھول لیں، اس تصویر کو کتنے ہی زاویوں سے دیکھ لیں، آنے والی نسلوں کو صرف ایک ہی پیغام پہنچ رہا ہے۔ خودغرضی اور بے حسی کا۔ بچوں کے لیے ایک ایسے دیس کی مٹی نرم کی جارہی ہے، جو آدمیت اور انسانیت کے تصور سے یکسر پاک ہے، وہاں بس اپنی خواہشات کی تکمیل ہی اولین فریضہ ہے، پھر چاہے اس کی قیمت کسی جان دار کی آزادی کو غلامی میں بدل دینا ہی کیوں نہ ٹھہرے! ہماری بلا سے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).