دنیا کے دس تاریخی مصافحے


مسکرہٹیں

مسکرہٹیں

کم جونگ ان اور ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا اور امریکہ کے پہلے رہنما بن گئے جنھوں نے ملاقات کی اور سنگاپور میں کیمروں کے سامنے ہاتھ ملایا۔

یہ ایک تاریخی لمحہ تھا لیکن دوستی کا یہ عام سا منظر یعنی مختصر سے وقت کے لیے ہاتھ ملانا اتنا اہم کیوں تھا؟

ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسے تمام تاریخی مصافحوں کا انجام خوشگوار ہو لیکن یہ تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ .

1: چیمبرلین اور ہٹلر

کچھ مصافحوں کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے

کچھ مصافحوں کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے

22 ستمبر 1938 کو جرمن آمر اڈولف ہٹلر نے برطانوی وزیراعظم چیمبرلین سے جرمنی میں بون کے قریب گوڈسبرگ میں ہوٹل ڈریسن میں مصافحہ کیا تھا۔

دونوں کی ملاقات کا مقصد اس وقت کے چیکوسلواکیہ کے علاقے سڈیٹنلینڈ میں جرمن قبضے کے حوالے سے بات چیت کرتا تھی۔ چیمبرلین پراعتماد برطانیہ واپس لوٹے تھے کہ انھوں نے امن قائم کر دیا ہے۔ ایک سال کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی تھی۔

2: چرچل، ٹرومین اور سٹالن

تین رہنماؤں کا ایک ساتھ مصافحہ

تین رہنماؤں کا ایک ساتھ مصافحہ

23 جولائی 1945 کو امریکی صدر ہیری ٹرومین (درمیان میں) نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (بائیں) اور سوویت رہنما جوزف سٹالین (دائیں) پوٹسڈیم کانفرنس میں موجود ہیں۔

یہ تینوں رہنما یہ فیصلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یورپ اور بالخصوص جرمنی کا کیا ہوگا۔ فرانس کے چارلس ڈی گوال کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

3: جانسن اور لوتھر کنگ جونیئر

شہری حقوق کی تحریک میں ایک اہم لمحہ

شہری حقوق کی تحریک میں ایک اہم لمحہ

دو جولائی 1964 کو وائٹ ہاؤس، واشنگٹن ڈی سی میں سول رائیٹس ایکٹ پر دستخط کرنے کے موقع پر امریکہ صدر لینڈن بی جانسن نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے ہاتھ ملایا تھا۔

اس ایکٹ کے تحت عوامی مقامات اور ملامتوں میں رنگ، نسل، مذہب، جنس اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا۔

4: ماؤ اور نکسن

نکسن کے دورہ چین کو اس کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاتا ہے

نکسن کے دورہ چین کو اس کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاتا ہے

21 فروری 1972 کو چین کے کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ نے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ساتھ ہاتھ ملایا۔

یہ مصافحہ دونوں ممالک کے درمیان 23 سال سے سرد تعلقات کے بعد نکسن کے دورہ چین کے موقع پر ہوا جس سے ایک نئے تعلق کا آغاز ہوا جس سے برسوں سے جاری عدم اعتماد کی فضا کا خاتمہ ہوا، اور نئی تجارتی راہیں کھلیں۔

5: گورباچوف اور ریگن

سرد جنگ کے خاتمے پر پرجوش انداز

سرد جنگ کے خاتمے پر پرجوش انداز

نومبر 1985 میں سویت رہنما میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونلڈ ریگن سوئٹرزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پہلی بار آمنے سامنے آئے۔

یہ وہ دور تھا جب سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔

6: تھیچر اور منڈیلا

منڈیلا کی تھیچر سے ملاقات

منڈیلا کی تھیچر سے ملاقات

چار جولائی 1990 کو برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے اے این سی رہنما نیلسن منڈیلا سے لندن میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کی دہلیز پر مصافحہ کیا تھا۔

تھیچر نے ایک بار منڈیلا کی اے این سی کو ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ قرار دیا تھا۔

نیلسن منڈیا سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر بنے تھے۔

7: رابن اور عرفات

اوسلو معاہدے کے بعد امیدیں دیرپا ثابت نہ سکیں

اوسلو معاہدے کے بعد امیدیں دیرپا ثابت نہ سکیں

13 ستمبر 1993 کو فلسطینی رہنما یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم رابن نے واشنگٹن ڈی سی میں ہاتھ ملایا تھا۔

دونوں رہنماؤں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی میزبانی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان مشرق وسطی میں قیام امن کا معاہدہ اوسلو اکورڈز پر دستخط کیے تھے۔

8: مک گوئنس اور ملکہ برطانیہ

سابق آئی آر اے کمانڈر اور ملکہ الزبیتھ

سابق آئی آر اے کمانڈر اور ملکہ الزبیتھ

227 جون 2012 کو ملکہ الزبیتھ دوئم نے شمالی ائرلینڈ کے دورے کے دوران پہلے علاقائی ڈپٹی وزیر مارٹن مک گوئنس سے مصافحہ کیا۔

بیلفاسٹ میں انھوں نے سابق آئی آر اے کمانڈر سے ملاقات کی۔ یہ مصافحہ چند لمحے کا تھا لیکن تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ بعدازاں مک گوئنس نے کہا تھا اس ملاقات نے ‘برطانیہ اور آئرلینڈ اور آئرش عوام کے ساتھ ایک نئے تعلق’ کا قیام تھا۔

9: اوباما اور کاسترو

کیوبا اور امریکہ کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز

کیوبا اور امریکہ کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز

21 مارچ 2016 کو امریکی صدر براک اوباما اور کیوبن صدر راؤل کاسترو نے ہوانا، کیوبا میں ریولوشن پیلس میں ملاقات کے دوران ہاتھ ملایا۔

براک اوباما تقریبا ایک صدی کے بعد کیوبا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر تھے۔

یہ ملاقات گرم جوشی سے ہوئی لیکن صدر کاسترو نے کیوبا کے خلاف امرکہ کی طویل تجارتی پابندیوں پر زور دیا تھا کہ تعلقات مکمل طور پر معمول پر لانے کے لیے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ .

10: سانتوس اور تموچینکو

لاطینی امریکہ میں طویل ترین خانہ جنگی کا اختتام

لاطینی امریکہ میں طویل ترین خانہ جنگی کا اختتام

23 جون 2016 کو کولمبیا کے صدر یاں مینوئل سانتون اور گوریلا تنظیم فارک کے رہنما تمولیون جمینیز المعروف تموچینکو نے ہوانا میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد مصافحہ کیا، اس کی میزبانی کیوبن صدر راؤل کاسترو نے کی تھی۔

جنگ بندی کے اس معاہدے سے 52 سالہ مسلح تنازع کا اختتام ہوا جسے عموما لاطینی امریکہ کی طویل ترین خانہ جنگی قرار دیا جاتا ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32286 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp