شہنشاہ غزل کی یاد میں


غزل کی اہمیت ایک مقبول شعری صنف کے طور پر تو مسلّمہ ہے۔ غالباً یہ واحد شعری صنف ہے، جو گائیکی کی صنف کے طور پر بھی یک ساں مقبول و معروف ہے۔ اسے اردو زبان کا اعجاز ہی کہا جائے گا کہ ہر دور میں اسے ایسی آوازیں میّسر آتی رہی ہیں، جنھوں نے نہ صرف اردو شاعری کو عوامی سطح مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کیا، بلکہ اس کی سج دھج میں بھی گراں قدر اضافہ کیا۔

شہنشاہ غزل مہدی حسن بھی ایسے ہی ایک بے مثل و بے نظیر گائیک تھے، جنھوں نے اردو شاعری کے تاثر اور تاثیر کو اپنی خوش لحن اور بے مثل گائیکی سے ثروت مند کیا۔

ہر زبان کا ایک سبھاؤ ہوتا ہے۔ اردو زبان و شعر میں جو تمکنت، تکلّف، حفظ مراتب اور وقار پایا جاتا ہے، اس کی ادائی اور بیان کے لیے ٹھیک ٹھیک ایسی ہی آواز و انداز کی ضرورت تھی، جیسی مہدی حسن خاں نے پائی تھی۔ جب انھوں نے گائیکی کا آغاز کیا، اس وقت کے ایل سہگل سے طلعت محمود تک اور کملا جھریا سے بیگم اختر تک، کتنے ہی نام غزل گائیکی کے حوالے سے معروف تھے۔ غزل صرف محفلوں ہی کی گائیکی نہ تھی، بلکہ برصغیر پاک و ہند کی فلمی دنیا کے موسیقار بھی، اس طرزِ گائیکی سے خوب خوب کام لے رہے تھے۔ ایسے میں مہدی حسن کی گائیکی کی ابتدا کلاسیکی سنگیت سے ہوئی، جس کی تربیت انھوں نے بچپن ہی سے شروع کردی تھی۔

جب وہ سات برس کے تھے تو ان کے گائک باپ استاد عظیم خاں نے ایک خوب سر کیا ہوا تان پورہ انھیں دیا تھا، اور ہدایت کی تھی کہ اب اس کے تاروں کی جھنکار کو تمھیں سمجھنا ہوگا۔ ’’یہ میرے سنگیت جیون کا آغاز تھا‘‘، مہدی حسن نے ایک ملاقات میں بتایا تھا۔ ’’اس دن کے بعد وہ تان پورہ ہی میرا کھلونا بن گیا اور وہی میری تعلیم تھا، سر کے ساتھ ایسا عشق ہوا کہ میں باقی سب بھول گیا‘‘۔

سر کے ساتھ مہدی حسن کی یہ لگن، ان کی والدہ کو خبط محسوس ہونے لگا اور وہ اپنے بیٹے کی صحت کے لیے فکرمند ہوگئیں۔ ’’انھوں نے میرا تان پورہ چھپا دیا‘‘ مہدی حسن نے ایک صحافی کو بتایا تھا۔ ’’جب میرے ابّا کو پتا چلا تو وہ میری ماں پر خفا ہوئے، کہ یہ جو کررہا ہے، اسے کرنے دو۔ یوں مجھے میرا تان پورہ واپس مل گیا اور اس کے بعد میری ماں نے مجھے کبھی نہیں ٹوکا‘‘۔

مہدی حسن راجستھان کے تھے اور ان کا تعلق مشہور ’’کلاونت‘‘ گھرانے سے تھا۔ ان کے پردادا اور دادا، امام خاں جے پور کے درباری گوّیے تھے۔ یہ گھرانہ دھرپد انگ کی گائیکی کے لیے جانا جاتا ہے۔میاں تان سین بھی دھرپد گاتے تھے۔ مہدی حسن کی تعلیم بھی دھرپد ہی سے شروع ہوئی۔ دھرپد کی گائیکی بنیادی طورپر الاپ اور لے پر مشتمل ہے۔
مہدی حسن کا جنم جے پور ریاست کے گاؤں لُونا میں ہوا تھا۔ ’’شاید 1926ء کے آس پاس میرا جنم ہوا‘‘ انھوں نے ایک بار بتایا تھا۔ ’’میری تاریخ پیدائش کاغذوں میں 13 اپریل لکھی ہے لیکن میری ماں بتاتی تھیں میرا جنم دسہرے کے دن ہوا‘‘۔
مہدی حسن کے والد انھیں سنگیت کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا پورا خیال رکھتے تھے کہ ان کا بیٹا جسمانی طور پر کم زور نہ رہ جائے۔ ’’میں پہلوانی کیا کرتا تھا اور پندرہ پندرہ سو ڈنڈ پیلنے اور پانچ چھ میل کی دوڑ کا عادی تھا‘‘۔

مہدی حسن کے والد کے علاوہ ان کے دو چچا، اسماعیل خاں اور عبد الکریم خاں، بھی اچھے گائیک تھے؛ لیکن مہدی حسن کے اصل استاد ان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر تھے۔ وہ مہدی حسن سے پانچ سال بڑے تھے۔ غلام قادر لکھنو کی ممتاز موسیقی کی درس گاہ سے گریجوایٹ تھے اور موسیقی پر قابل رشک دست رس رکھتے تھے؛ اس باعث پنڈت کہلاتے تھے۔ مہدی حسن کے اپنے بیان کے مطابق ان کے بھائی کو تقریباً تمام راگوں پر مکمل دست رس حاصل تھی۔ اس کے علاوہ سنسکرت، ہندی اور اردو پر بھی انھیں ماہرانہ عبور تھا۔ پنڈت غلام قادر پہلے آزاد کشمیر اور بعد ازاں لاہور اور کراچی کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بطور موسیقار ملازم رہے۔ مہدی حسن کی متعدد مشہور غزلوں کی دھنیں بھی انھیں کی مرتب کردہ ہیں۔ مثلاً ’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ یا پھر ’بھولی بسری چند امیدیں‘۔ مہدی حسن کہا کرتے تھے کہ میری فنّی زندگی میں میرے بڑے بھائی کا بہت بڑا حصّہ ہے۔

ریڈیو پر لگ بھگ چھہ ماہ کلاسیکی سنگیت گانے کے بعد، مہدی حسن جب غزل کی طرف متوجہ ہوئے، تو اس کی ابتدا چھوٹی چھوٹی محفلوں سے ہوئی۔ جلد ہی ان کی آواز کی شہرت پھیلنے لگی اور انھیں 1956ء میں فلموں کے لیے پس پردہ گلوکاری کا موقع ملا۔ ’شکار‘ اور ’کنواری بیوہ‘ وہ ابتدائی فلمیں تھیں، جن میں مہدی حسن نے گیت گائے لیکن بطور پس پردہ گلوکار ان کی شہرت اور مانگ میں اس وقت اضافہ ہوا، جب انھوں نے 1964ء میں بننے والی فلم ’سسرال‘ میں منیر نیازی کا لکھا ہوا گیت ’جس نے میرے دل کو درد دیا‘ رِکارڈ کروایا۔ اس گیت کے ساتھ ہی انھوں نے چوٹی کے پس پردہ گلوکاروں میں جگہ بنالی۔ 60 اور 70 کی دہائی میں فلم کے لیے گائے ہوئے ان کے نغمے آج بھی شاہ کاروں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ۱1964ء کی ایک فلم ’فرنگی‘ کے لیے جب انھوں نے فیض صاحب کی مشہور غزل ’گلوں میں رنگ بھرے بارِ نو بہار چلے‘ گائی تو گویا یہ فیصلہ ہو گیا، کہ ان کا اصل میدان غزل گائیکی ہے۔ یہ غزل ان کے فنّی سفر میں سنگ میل ثابت ہوئی اور آنے والے برسوں میں مہدی حسن نے شہنشاہ غزل کا خطاب پایا۔

مہدی حسن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے، کہ انھوں نے غزل کو چھوٹا خیال بنادیا۔ جو غزل وہ ساڑھے تین منٹ کے دورانیے میں، کسی فلم کے منظر اور اس کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے رِکارڈ کرواتے تھے، اسی کو ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر پھیلا کر، راگ داری کی تمام باریکیوں اور جزیات کے ساتھ ادا کرکے محفل میں گاتے تھے۔ یہ مہدی حسن ہی تھے، جنھوں نے فلمی گیتوں کو خیال کے برابر لا کھڑا کیا۔ کیا کسی اور فلمی گائیک نے اپنے گیت کو کبھی یوں خیال کے انداز میں پھیلا کر گایا؟ یا کسی اور غزل گائیک، مثلاً جگجیت سنگھ ہی کی غزل، چار منٹ سے زیادہ گائی جاسکتی ہے؟ یہ ہنر صرف مہدی حسن سے خاص تھا۔

ان کی گائیکی کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ انھوں نے لفظ کو کبھی سر پر قربان نہیں کیا۔ کلاسیکی گائک عموماً لفظوں کی بلی چڑھا کر سر کی دیوی کو رام کرتے ہیں، لیکن مہدی صاحب اپنی گائیکی میں لفظ پر پوری توجہ دیا کرتے تھے اور شعر کے کلیدی لفظ کو یوں ادا کیا کرتے تھے، جیسے کلاسیکی گانے والے وادی یا سموادی سر کو نمایاں کرتے ہیں۔ مثلاً فراز کی مشہور غزل ’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ (جو درحقیت ایک فلمی نغمہ ہے، جس کی دھن نثار بزمی نے بنائی تھی)، اس غزل میں لفظ رنجش کی ادائی بہت بامعنی ہے۔ اسی طرح حفیظ ہوشیارپوری کی غزل ’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ میں لفظ ’محبت‘ کی ادئی بہت خاص ہے۔

مہدی حسن کا تلفظ، لہجہ اور شین قاف اردو غزل کے لیے نہایت موزوں و مناسب تھا۔ یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ اس کے لیے انھیں بہت محنت کرنا پڑی ہوگی۔ وہ خوش نصیب تھے کہ انھیں ایسے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، زبان دانوں اور فن کاروں کی صحبت میّسر رہی، جو اپنے فن میں کامل تھے۔ مہدی حسن نے ان صحبتوں سے بہت کچھ حاصل کیا اور اپنی بے مثال گائیکی کی صورت میں دنیا کو لوٹایا بھی۔

ایک دنیا ان کے فن کی قدردان ہے۔ بڑے بڑے گانے والوں نے انھیں خراج تحسین ادا کیا ہے۔ نورجہاں نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا، ’’میں نے تان سین کا صرف نام سنا تھا، ان کو دیکھا مہدی حسن کے رُوپ میں ہے‘‘، اور جب تان سین کا انتقال ہوا تھا تو ابو الفضل نے لکھا، ’’آج نغمے کی موت ہو گئی‘‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).