رفعت عباس کی آنکھ کا خواب اور آنگن میں گڑی بندوق


فرد کی آزادی کے حق پہ کتنی بات کی جا چکی ہے، کتنی بات کی جائے گی، کتنی بار بتایا جائے گا کہ عورت بہن ہو، بیوی یا بیٹی کسی بھی رشتے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ذاتی ملکیت ہے۔اسے بحیثیئت ایک فرد جینے کا، سانس لینے کا، فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ خدارا یہ حق چھیننا بند کریں۔ رشتوں کے نام پہ انسانیت کی اور کتنی تذلیل کریں گے آپ؟

نہیں دیکھ سکی وہ ویڈیو۔ بس سنا ہے، پڑھا ہے، لیکن دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ روز ہسپتال میں لوگوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھتے ہیں، کسی کے گھر والوں کو تسلی دیتے ہیں، کسی کو دعا کا کہتے ہیں، کہیں الفاظ تلاشتے ہیں اور کہیں کبھی کوئی موت ہماری آنکھوں میں آنسو لے آئے تو باقی ذمےداریاں پکارتی ہیں اور اس طرف بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن ایک اطمینان ہوتا ہے کہ جتنا کر سکتے تھے جو ہمارے بس میں تھا سب کر لیا۔ تو پتھر دل ، بےحس مسیحا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کوئی مر رہا ہے تو اسے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے یا ویڈیو بنائی جاتی ہے؟

وہ ایک بھائی ہے، باہر آنا جانا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ علاقے کے بدقماش ہوں یا پاک باز سب سے ملنا ملانا ہے، سب کی خبر رکھتا ہے سب کا درد سمجھتا ہے، نہیں احساس تو اس ماں جائی کا احساس نہیں کر سکتا جس کا دل شہر کے خراب حالات کے باعث بھائی کی سلامتی کے لئے ہی دعاگو رہتا ہے۔ وہ ایک باپ ہے، بیٹی کو پڑھائے لکھائے یا ہاتھ پیلے کرے اور یہ ذمہ داری پوری ہو بس اتنی ہی پریشانی تھی۔ ہاں پہلے تو نہیں لیکن بیٹی کی پیدائش پہ تعزیت نما مبارکباد نے اسے احساس دلایا کہ بیٹی بوجھ ہوتی ہے اور بیٹا بےفکری۔

پھر ایک روز وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، وہی ایک عزت اور غیرت کا تصور ایک انسانی جان کی حرمت سے زیادہ اہم ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا اسی نے ایک اور شکار کیا۔ آج پھر موت رقصاں تھی،انسانیت شرمندہ تھی اورحضرتِ انساں ویڈیو بنانے میں مگن تھا۔ بس خطا وہی تھی کہ وہ لڑکی تھی ، اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اپنی مرضی کرنے کا ، اگر ہمیں ایسا گمان بھی گزرے کہ کہیں ایسا کچھ ہے تو جناب یہ ہماری معاشرتی اقدار کی پامالی ہے اور اسکی سزا ملنا لازم ہے۔ دیکھیئے دیکھیئے یہی وجہ ہے کہ بیٹی پیدا ہونے پہ ہم رنجیدہ ہوتے ہیں۔ سالی بد کار حرافہ ہماری عزت کی دشمن ہے۔

تو یہ ایک کہانی ہے جو بڑی پرانی ہے، روز دہرائی جاتی ہے۔ کتنے ہی بھائی ہیں جن کی غیرت سنبھالے نہیں سنبھلتی، کتنے ہی باپ ہیں جو بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا چاہتے ہیں؟ کیا خواہش ہے؟ آئیے بتاتی ہوں۔ جناب رفعت عباس کا ایک شعر ہے اسے آپ خواہش سمجھیں ، التجا سمجھیں ، میری امید کہیں کہ ایک روز ایسا ہو گا کہ ہم ان قاتل روایات سے بغاوت کریں گے ، عزت اور غیرت کے ایسے جان لیوا تصور کو جسم اور چاہتوں سے الگ ہونا ہی ہو گا۔

ساڈے اپنڑے ویڑھوں عشق ٹرے

اج ہیر ہووے ساڈی دھی دا ناں۔۔۔

(عشق کا قافلہ ہمارے اپنے صحن سے روانہ ہو، اور ہمارئ بیٹی کا نام ہیر رکھا جائے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments