منتخب حکومت کی میعاد پوری ہونے سے قبل خاموش بغاوت ہو چکی تھی، حکومت قطعی بے اختیار تھی: فرحت اللہ بابر


پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ 31 مئی 2018ء کو منتخب حکومت کی میعاد پوری ہونے سے قبل بظاہر وزیر اعظم اپنے منصب پر فائز تھے لیکن ان کے خلاف خاموشی کے ساتھ بغاوت ہوچکی تھی۔ سویلین حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ وزیر اعظم کے احکامات کو ٹویٹ کے ذریعہ رد کیا جا رہا تھا۔ خارجہ امور پر بھی ٹویٹ کی گئی، کچھ بڑے چینلز کو آف ائیر کیا گیا، کچھ اخبارات کو راتوں رات ٹھیلوں سے غائب کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگائی جارہی ہے۔ ڈان لیکس میں سول حکومت نے اسٹیبلشمنٹ سے کچھ معاملات پر صرف تحفظات کا اظہار ہی کیا تھا، تحفظات سے قومی سلامتی کیسے متاثر ہو گئی؟

منگل کو اسلام آباد میں آزادی اظہار رائے کو درپیش خطرات اور آئندہ انتخابات کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عام انتخابات سے پہلے بڑی خاموشی کے ساتھ عملی طور پر بغاوت ہو چکی تھی۔ یہ گزشتہ تمام بغاوتوں سے مختلف ہے۔ بظاہر سویلین حکومت موجود ہے، لیکن اس سے تمام اختیار چھن چکا ہے۔ بظاہر صحافت آزاد ہے لیکن صحافی آزاد نہیں ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سول اور ملٹری میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی سول اور ملٹری تعلقات میں پل کا کردار ادا کرے۔ میں اگر سوال کرتا ہوں کہ ایک سابق فوجی سربراہ کو نوے ایکڑ زمین کیسے الاٹ کی گئی تو ایک تویٹ نمودار ہوتی ہے کہ میں نے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے تجویز دی کہ توہین عدالت اور سائبر کرائم ایکٹ میں ترامیم ہونی چاہیے، آرٹیکل 184 تین سے متعلق پارلیمان کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ادارے جو صحافیوں پر بغیر ثبوت کے الزامات لگاتے ہیں، ان کے خلاف  بھرپور احتجاج کیا جانا چاہیے۔ فرحت اللہ بابر نے آزاد اظہار رائے پر بین الاقوامی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں یہ معاملہ اٹھایا جائے۔  پارلیمنٹ ان افراد کو بھی بلائے جن پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).