دیسی گالیاں اور فرنگی سیاح


میں ہمیشہ سے کہانیاں پڑھنے کا شوقین رہا ہوں۔ شاید اسی لئے کہانیاں لکھنے میں بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔ میری ناقص رائے میں افسانہ چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، چند ایک کو چھوڑ کر، اس میں سے افسانے کی بو آ ہی جاتی ہے۔ دوسری جانب اچھی کہانیوں میں سے حقیقت کا پتہ ملتا ہے۔ افسانہ انسانی تخیل ہے اور انسانی تخیل کی پیشنگوئی ممکن ہے۔ حقیقت قدرت کا افسانہ ہے جو انسانی تخیل سے بالا تر ہے۔ ایسی ہی ایک چھوٹی سی کہانی پیشِ خدمت ہے۔ فیصلہ آپ کیجیئے۔ حقیقت یا افسانہ۔

کے ٹو کے سفر کے دوران میری ایک جرمن جوڑے سے آشنائی ہوئی۔ ماریو اور انیتا۔ اس سفر میں ہماری اچھی دوستی ہو گئی۔ راستے میں ہم نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی زبانیں بھی سکھائیں۔ انہوں نے مجھے جرمن میں چند گالیاں سکھائیں اور میں نے انہیں پنجابی کی تمام مقبول ترین گالیاں سکھائیں۔ ظاہر ہے ان کا حافظہ مجھ سے کہیں بہتر تھا۔ ہم اس بات پر متفق تھے کہ کوئی بھی زبان سیکھنے کا یہ سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ لاہور پہنچتے پہنچتے ان لہجہ بھی درست ہو گیا تھا۔

لاہور میں انہیں میں اور میرا ایک دوست حُر واہگہ باڈر تک اپنی موٹر سائیکلوں پر لے گئے۔ انیتا جیسی سنہرے بالوں والی گوری کا مجھ ایسے کالے لاہوری کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھے ہونا ہی لاہوریوں کے لئے از حد تفریح کا باعث تھا۔ راستے میں کئی لوگوں نے ہماری تصاویر بھی لیں کہ شاید ان کی کہانی پر گھر والے یقین نہ کریں۔ ماریو حُر کے ساتھ دوسری موٹرسائیکل پر تھا۔ جب تک ہم واہگہ پہنچے تو تقریب ختم ہو چکی تھی۔ پولیس والوں نے ہمیں روک کر پوچھا کہ بھئی کہاں جا رہے ہو؟ تقریب ختم شُد۔ ہم نے کہا ”بھائی جان وہ ذرا باہر سے مہمان آئے ہیں تو انہیں ذرا باڈر دکھانا ہے“۔ اس نے کہا ”یہ گورے ہیں۔ اچھا ان سے کہو کہ اپنا پاسپورٹ دکھائیں“۔ ہم نے کہا کہ پاسپورٹ تو نہیں ہیں۔ اس نے گورے جوڑے پر ایک نگاہ ڈالی اور کچھ سوچ کر بولا ”اچھا جلدی سے ذرا آگے سے جا کر تصویریں لے آئیں۔ ذرا جلدی ہاں“۔ مجھے اس وقت اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہوا اور ماریو کو تعجب۔

جب ہم واپس ہوئے تو سورج ڈھل چکا تھا۔ ہماری دونوں موٹرسائیکلیں درمیانی رفتار پر ساتھ ساتھ چل رہیں تھیں۔ اتنے میں دو موٹرسائیکلیں، جن پر چار مشٹنڈے سوار تھے، ایک دائیں جانب اور دوسری بائیں جانب ہمارے ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔ میں ان دنوں کراچی رہا کرتا تھا جہاں اسٹریٹ کرائم بہت زیادہ تھا۔ اور  واہگہ سے باٹا پور تک کی سڑک بھی کچھ سنسان تھی۔ تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ اب ہم لٹنے والے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ماریو سے بات شروع کی۔ ”آپ کہاں سے ہیں؟ “ ماریو نے کہا ”میں پاکستان سے ہوں۔ تم کہاں سے ہو؟ “ وہ شخص تھوڑا بوکھلایا اور اب میرا شک یقین میں بدل رہا تھا۔ وہ اجنبی دوبارہ گویا ہوا ”تم پاکستان سے نہیں ہو۔ سہی بتاؤ کہاں سے ہو تم؟ “ ماریو نے کہا ”میں پاکستانی ہوں اور میں یہ ثابت کر سکتا ہوں۔ “ اس نے کہا کرو ثابت!

پھر ماریو نے اسے پنجابی زبان میں اسے وہ تمام گالیاں دے ڈالیں جو میں نے اسے سکھائی تھیں۔ جسے گالیاں پڑیں وہ شرمندہ ہنسی ہنستا رہا اور باقی تین تو ایسے لوٹ پوٹ قہقہے مار رہے تھے کہ ابھی موٹرسائیکل سے گر پڑیں گے۔ بار بار اس کی جانب ہاتھ بڑھا کر کہتے ”اوئے گورے سے گالیاں کھا لیں۔“

اگلے روز انہوں نے کہا کہ ہمیں شاپنگ پر لے چلو تو میں انہیں چنگچی میں بٹھا کر ”میٹرو“ لے گیا۔ وہاں مجھے اپنا ایک پرانا دوست فرید مل گیا جو وہاں ان دنوں نوکری کر رہا تھا۔ فرید نے مجھ سے سلام دعا کے بعد پوچھا کہ یہ گوری کون ہے؟ میں نے انیتا کو بلایا اور کہا کہ میرے دوست سے ملئے اور ان الفاظ میں ملئے جو میں نے آپ کو سکھائے ہیں۔ انیتا نے اسے ہیلو کے بعد ایک موٹی سی گالی دی جس پر فرید کا قہقہ چھوٹ گیا۔ مجھ سے کہنے لگا ”یہیں رک۔ میں اپنے باس کو بلاتا ہوں۔ گوری کو کہ اسے گالیاں دے۔ “ کچھ دیر بعد اس کا باس اور کچھ ماتحت لڑکے نمودار ہوئے۔ معلوم نہیں کہ وہ اپنے باس کو کیا کہ کر لایا تھا۔ انیتا نے اس سے ہاتھ ملایا تو باس کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی کہ اس کہ گندے دانت ہونٹوں سے جھانک رہے تھے۔ اس نے گوری کو ہیلو کہا اور انیتا نے ہیلو کے بعد دو تین موٹی موٹی گالیاں دے ڈالیں۔ اب کی بار باس کے علاوہ تمام لڑکے کھلکھلا کر قہقہے لگا رہے تھے۔ باس کے چہرے پر اب بھی ایک شرمیلی مسکراہٹ تھی لیکن اب کہ اس میں شرمندگی کا عنصر واضح تھا کہ اب ان کے ہونٹوں نے گندے دانتوں کو چھپا لیا تھا۔

اب تک انہیں یہ شکایت شروع ہو گئی تھی کہ ہم جس کو بھی گالیاں دیتے ہیں اس کےجذبات کو ٹھیس کیوں نہیں پہنچتی؟ یہ سب ایسے ہنسنا کیوں شروع کر دیتے ہیں؟ میرے پاس اس کا کوئی معقول جواب نہ تھا۔ ایک شام ہم پرانے لاہور میں کچھ کھانے کو بازار ٹٹول رہے تھے۔ بہت سے ریستوران والوں نے ہمیں آوازیں دے کر ہمیں اپنے ریستوران میں آنے کی دعوت دی۔ چونکہ ہم ابھی تازہ تازہ کے ٹو سے لوٹے تھے اس لئے میری بھی رنگت کافی پکی ہوئی تھی۔ ایک بیرا جو مجھے بھی غالباً ویسٹ انڈیز کا سمجھ بیٹھا ہو گا، میرے قریب آیا اور بولا
“Sir please come here eat dinner“

میں نے جب اسے بتایا کہ میان لاہور کا ہی باسی ہوں تو اس نے مایوسی سے اچھا کہا اور ماریو کی طرف بڑھ گیا۔ میں کچھ آگے بڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ ماریو میرے ساتھ نہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو بیرا ماریو کو تقریباً کھینچتے ہوئے اپنے ریستوران کی جانب لے جا رہا تھا۔ جب میں ماریو کے قریب پہنچا تو وہ ماریو کے گلے میں بازو ڈالے اسے اپنے ریستوران کا کھانا کھانے کے لئے قائل کر رہا تھا۔ ماریو نے میری طرف مڑ کر پوچھا ”کیا میں اسے وہ سب کہ سکتا ہوں جو تم نے مجھے سکھایا ہے؟ “ میں نے کہا ”شوق سے“۔ ماریو نے اسے چند گالیاں دے ڈالیں جس پر اس نے شدید غصے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ماریو کو اپنے وطن واپس لوٹ جانے کو کہا۔ ارد گرد کے ریستوران والوں نے اسے سمجھایا اور لعن طعن بھی کی کہ مہمان کو ایسے نہیں بولتے۔ اس واقعہ سے ماریو بہت لطف اندوز ہوا کہ اس نے اپنی گالیوں سے کم از کم ایک شخص کو تو ناراض کیا۔ اب کے اسے تسلی ہوئی کہ یہ واقعی اصلی گالیاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).