شیدا ہوٹل، استنبول اور بلغاریہ کا مشکوک سیاح


ہوٹل زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ مرلے میں بنایا گیا تھا، چھے سات منزلیں اور ہر منزل میں تین سے چار کمرے۔ استنبول کا یہ علاقہ جرائم کے حوالے سے ترکی سے باہر تک مشہور تھا، اس لیے کہ تمام Backpackers اور ہپی مفت یا سستے ہوٹلوں میں رہنے کے لیے یہاں آتے تھے۔ ان ہپیوں اور سیاحوں سے بڑا خبرنگار بھلا کون ہوسکتا ہے، جو جہان جہان کی خاک چھانتے پھرتے تھے۔ میرے پاس استنبول میں قیام کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی۔ لاہور سے تین سو ڈالر لے کر نکلنے والا جہاں گرد، زمینی راستوں کا راہی، جس روٹ سے جانا تھا، انہیں راہوں سے واپسی بھی کرنا تھی۔ اتنا آسان بھی نہیں زمینی سفر کرنا۔ تھکا دینے کے علاوہ بھانت بھانت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان جانے لوگ ان جانی راہیں اور اَن دیکھے خطے۔ مگر یہی تو جہاں گردی ہے۔ اور اس کم عمری میں جہاں گردی۔

کتاب پڑھنے اور موسیقی سننے کے علاوہ، زندگی بھر میرا جہاں گردی سے بڑا کوئی مشغلہ ہی نہیں۔ اُن دنوں لاہور میں جس کو بھی میں نے بتایا کہ ترکی جا رہا ہوں، کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ لوگ اُن دنوں ترکی سے صرف ’’گزرتے‘‘ تھے، یورپ میں ’’گم‘‘ ہو جانے کے لیے منڈی بہاالدین، گجرات اور دیگر شہروں کے لوگ، جرمنی اور برطانیہ، ان ’’ تارکین وطن‘‘ کی بڑی Destinations ہوتی تھیں۔ یہی تارکین وطن بعد میں ’’محب وطن تارکین وطن‘‘ کہلائے۔ دل چسپ بات ہے کہ تارکِ وطن ہوا وہی محب وطن ٹھہرا۔ اس اصطلاح کو متعارف کروانے والے ہمارے وہ کالم نگار ہیں جو ان تارکین وطن کے اخراجات پر سیر سپاٹے کرتے ہیں۔

لاہور سے استنبول پہنچے۔ وزن اس لیے کم نہیں ہوا تھا کہ یہ سارا سفر پیدل کیا تھا، بلکہ اس لیے کہ ہفتے میں صحیح طرح سے کھانا دو تین بار ہی کھا پاتا تھا۔ بس ڈر تھا کہ تین سو ڈالر لاہور سے یورپ تک کے Road Trip کے لیے پورے ہوجائیں اور کہیں کسی انگوروں کے باغ میں نوکری نہ کرنا پڑے۔ استنبول کے جس علاقے (سرکیجی) میں ٹھہرا، وہاں سے لے کر سلطان احمت تک سارا علاقہ مقامی اور دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں کے لیے بھی مشہور تھا اور تاریخ کے حوالے سے بھی۔ عثمانی دور سے لے کر بازنطینی اور حتیٰ کہ فنیقی تاریخ کے آثار تک۔ یہی تو تجسس تھا اس علاقے میں رہنے کے لیے۔

رات ہوٹل کے کاؤنٹر میں اپنا پاسپورٹ جمع کروا کر دو دن قیام کے لیے پانچ ڈالر ایڈوانس جمع کروائے۔ خوف اور خوشی کا عجیب احساس تھا۔ عمر کے اس حصے میں تھا کہ ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کا حق حاصل نہیں ہوا تھا۔ ایسی صورت میں وطن سے باہر جانا، خوف پر خوشی چھائی ہوئی تھی۔ آیا صوفیہ، نیلی مسجد، توپ کاپی محل، بازنطینی آثارسے لے کر سکندر اعظم کے تابوت تک پھیلے ہزاروں سال کے آثار۔ سارا شہر ہی تاریخ اور حال کا زندہ میوزیم ہے، اگر اس کا شعور ہو۔ وگرنہ تو سیر سپاٹا کرنے والوں کے لیے لذیذ کھانے اور رات کو برپا ہونے والے کلب، اور وطن عزیز سے آنے والے اُن مسافروں کے لیے ’’زیرزمین جنت“ کی حسیناؤں کے قحبہ خانے، جو تاکسیم کی گلیوں میں دن اور رات کو سجتے ہیں۔ یہ وہ پاکستانی تھے جو ’’اِدھرکا مال اُدھر‘‘ اور ’’اُدھر کا مال اِدھر‘‘ کرنے میں کمال کاروباری مہارت رکھتے تھے۔

رات بھر خوف اور خوشی سے سونے کی کوشش کرتا رہا۔ خوش اس لیے بھی تھا کہ اکیلا پاکستانی ہوں کیوں کہ ان دنوں میرے وطن کے لوگوں کو بنکاک کے شعلے دیکھنے کا جنون تھا۔ ترکی تو جیسا کہ کہا، ایک راستہ تھا بس، جہاں سے پھیل کر آپ یورپ میں گم ہوجائیں۔ ہوٹل کے مینیجر نے شیطانی اور متجسس نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھے بھی اسی قبیلے کا فرد جانا۔ وہ میرے اس جواب پر مطمئن نہ ہوا کہ مجھے استنبول سے سرحد پار کرکے سرخ جنت کی آہنی دیوار کے اندر بلغاریہ جانا ہے۔ اس کے سامنے کوئی پاکستان سے آیا پہلا شخص تھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے ترکی کے بعد اشتراکی بلغاریہ چلے جانا ہے۔ اس کو پورا یقین تھا کہ میں ’’اِدھر کا مال اُدھر‘‘ کرنے والا یا پھیل کر ’’محب وطن تارکِ وطن‘‘ ہونے والوں میں سے ہوں۔ بلکہ اس نے مجھے خاصا اناڑی سمجھ کر یہ کہہ رہا تھا، کہ مجھے سوشلسٹ بلغاریہ دیکھنا ہے، مجھے سوشلزم دیکھنا ہے۔ مجھے تو بس سرخ جنت جانا ہے۔

اس کو یقینا تجربے کی بنیا دپر معلوم تھا کہ ترکوں کے پاکستانی روایتی دوست ہیں، مگر جھوٹ بولنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تھکاوٹ پر نیند غالب آگئی۔ تنگ کمرے میں ایک بیڈ میرا تھا اور دو مزید بیڈ تھے۔ شکر ہے کہ دو مزید مسافر نہیں آئے، ورنہ مجھے کہاں نیند آتی۔ گو میں نے پتلون کے اندر خفیہ ’’ٹکٹ پاکٹ‘‘ اپنے ابھی تک بچنے والے 250 ڈالر چھپا رکھے تھے، جیسے پرانے لاہوریے شلوار کے نیفے میں کرنسی نوٹ رکھا کرتے تھے۔ دیگر دو مسافر نہ آنے کے سبب خوب نیند آئی۔ کمرے کی کوئی ایسی کھڑکی نہ تھی کہ جس سے معلوم ہوسکے کہ رات ختم ہوئی ہے کہ نہیں۔ جب نیند پوری ہوجائے تو وجود کی گھڑی خود بخود آپ کے اوقات طے کرتی ہے۔ چھے سات گھنٹے کی نیند کے بعد اس وجودی گھڑی نے مجھے بیداری کا حکم دیا۔ اپنے آپ کو تازہ دم اور وہ بھی دنیا کے اس عظیم شہر استنبول میں پا کر خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ آہ، میں اکیلا پاکستانی۔

ایک غرور سا بھی محسوس ہونے لگا۔ جمائیاں اور انگڑائیاں لیے بستر سے اٹھا، اپنے آپ کو سارے دن کے لیے تیار کرنے کے لیے۔ استنبول کی گلیوں محلوں، عجائب گھروں اور جگہ جگہ پھیلے ہزار سال سے اوپر کے تہذیبی آثار اور آج کے استنبول کو دیکھنے کے لیے بے چین۔ اپنی ڈائری میں اتنے مقامات نشان زدہ تھے کہ بس کئی سال چاہیں اس استنبول کو دیکھنے کے لیے۔ اور اوپر سے یہ غرور کہ میں اکیلا پاکستانی استنبول میں۔ آوارہ پاکستانی۔ جہاں گرد۔ نیند سے ہوش آنے لگا تو یکایک موسیقی نے مجھے چونکا دیا۔ ارے ․․․․ یہ کیا․․․․ میں حیران تھا۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ بے چینی سے دروازہ کھولا تو آواز صاف میرے کانوں میں پڑ رہی تھی۔
سانوں نہر والے پل تے بلا کے․․․

نورجہاں کا مدھ بھرا گیت۔ ساتویں منزل سے تنگ سیڑھیاں اترتے آواز کی طرف نیچے بھاگنے لگا۔ سیڑھیوں میں مشکل سے میں اکیلا ہی اتر سکتا تھا۔ نوجوان چھریرے بدن کا وزن کسی طرح بھی ساٹھ پینسٹھ کلو سے زیادہ نہ تھا۔ اس قدر تنگ سیڑھیاں اور بے چینی۔ گیت کی کشش تو تھی ہی، حیرانی یہ تھی کہ میرے علاوہ اور کون پاکستانی ہے جو یہاں آیا ہے۔ نیچے اترا تو ہوٹل کا مینیجر تبدیل ہوچکا تھا، ایک اور ترک نوجوان میز کے پیچھے پتلی سے کرسی پر براجمان تھا اور چھے فٹی لابی میں تین پاکستانی۔ جینز کے اوپر بغیر استری شدہ چرمر ہوئی شرٹس پہنے ہوئے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر آپس میں کوئی خفیہ لفظ کہا جس پر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ مگر محسوس ہوا کہ انہیں میری آمد کا علم تھا۔ میز پر رکھے ٹیپ رِکارڈر پر نورجہاں کے گیتوں کی کیسٹ اونچی آواز میں بج رہی تھی۔

میں نے ان تینوں پاکستانیوں کو سلام کیا۔ سن رکھا تھا کہ خطرناک لوگ ہوتے ہیں یہ پاکستانی جو استنبول میں پائے جاتے ہیں۔ یہ اِدھر سے اُدھر سگریٹوں کے پیکٹوں، چینز، گھڑیاں، کاریں اور الیکٹرانک کے سامان کے علاوہ انسانوں کو بھی اِدھر اُدھر کرتے ہیں اور ’’پوڈر‘‘ کا کام بھی خوب کرتے ہیں۔ میرے سلام کے جواب کے بعد اُن میں سے ایک نے پھر کہا، ’’پارسل اے؟‘‘ لاہور کا شہری جس کا ملنا جلنا فصیل کے اندر لوگوں سے ہو، اس کے لیے ایسے خفیہ الفاظ سمجھنا کوئی انہونی بات نہیں۔ مقامی جوتے بیچنے والے اور دکان داروں کے اکثر الفاظ خفیہ ہوتے ہیں، جو وہ اپنے گاہکوں کے کانوں کی سماعت کو بائی پاس کروا کر اپنے ملازم، اپنے بیٹے یا اپنے باپ کو خفیہ خبررسانی کرتے ہیں۔ میں نے سر جھٹک کر چرمر ہوئی شرٹ والے اس سانولے سے اپنی ہی عمر کے نوجوان سے کہا، ’’پارسل نہیں ہوں۔‘‘ وہ حیران ہوا کہ میں نے اس کی خفیہ خبر رسانی کے نظام پر گرفت حاصل کرلی ہے۔ اس کو بلکہ یہ یقین ہوا کہ میں تجربہ کار ہوں۔

اُن دنوں استنبول کی گلیوں میں رہنے والے یہ سیکڑوں پاکستانی، پاکستان سے تارکِ وطن ہونے والوں کا انسانی برآمدات کا کاروبار بھی کرتے تھے اور ایک مال میں دوسرے ملک میں لے جا کر بھی بیچتے تھے۔ ان تمام پاکستانیوں کو ’’شیدا‘‘ کہا جاتا تھا اور ’’پارسل‘‘ وہ نوجوان جو تارکِ وطن ہوکر ’’محب وطن‘‘ کہلائے گئے۔ میرے جواب پر تینوں شیدے ندامت کا شکار تھے کہ میں ان کے خفیہ الفاظ تک رسائی رکھتا ہوں۔ اب ان پر میرا رعب پڑ گیا۔ میں ابھی تک حیران تھا کہ یہ پاکستانی یہاں․․․ یعنی میرے علاوہ ․․․بات کھلی تو پتا چلا کہ سارا ہوٹل ہی ان ’’شیدوں‘‘سے اٹا پڑا ہے۔

یہ ہوٹل بھی سرکیجی اور ایمی نونو کے دیگر ہوٹلوں کی طرح ’’شیدا ہوٹل‘‘ نکلا۔ کچھ دیر بعد دروازے کھلنا شروع ہوئے اور ہوٹل میں موجود دس بارہ ’’شیدوں‘‘ کا اکٹھ ہوگیا۔ ہوٹل کا ماحول مکمل طور پر پاکستانی تھا۔ شور، صفائی اور باتوں کے موضوعات تک۔ جب میں اپنے ہم وطنوں میں گھل مل گیا تو صورتِ احوال سمجھنے لگا۔ مگر وہ سب میری آمد پر مشکوک تھے۔ خصوصاً میرے بلغاریہ کے سفر کے حوالے سے۔ ایک تو پاکستانی پاس پورٹ پر اُن دنوں بلغاریہ کی اجازت لینا امریکا کے ویزے سے بھی مشکل تھا اور پھر بلغاریہ کا ویزا اور سب سے بڑھ کر بلغاریہ جانا، پاکستان کے خفیہ اداروں کی نظروں کے چنگل میں آ جانا۔ نہا دھو کر، کیمرا اور اس کا اسٹینڈ لے کر استنبول، قسطنطنیہ، کانسٹنٹینو پل کی گلیوں اور محلوں میں گم ہوگیا۔

شام ڈھلے واپس آیا تو ہوٹل میں خوب میلہ لگا تھا۔ مکمل ’’شیدا میلہ‘‘ اور تمام نوجوانوں میں ایک ادھیڑ عمر ہم وطن۔ سب اس کو استاد استاد کہہ رہے تھے۔ استاد سعید۔ سب کا گرو۔ استاد لاہور کا رہنے والا تھا، پچھلے چوبیس سالوں سے۔ 1983ء تک استاد واپس وطن جانے سے قاصر تھا۔ وطن سے استاد ایسا کٹا کہ بس۔ استاد اور سب کو یقین تھا کہ میں پارسل ہی ہوں۔ استاد نے مجھے یورپ میں ’’پارسل‘‘ کرنے کی متعدد آفرز کیں جن میں ایک بالکل اصلی جیسا کہ مملکت برطانیہ کا پاس پورٹ۔ استاد نے کہا، پھر تمہیں کسی ویزے کی ضرورت نہیں۔ استاد سعید کو میں اپنے بارے میں یقین دلانے کی کوشش کے لیے بلغاریہ تک کا ویزا دکھا دیا۔ اس کے لیے بھی یہ معما تھا۔ مگر وہ مجھے مزید ’’شک‘‘ سے دیکھنے لگا کہ یہ کیسا ’’پارسل‘‘ ہے جو اشتراکی بلغاریہ کا ویزا لے کر وطن عزیز سے آیا ہے۔ میں نے سر بلند کر کے کہا، جہاں گرد ہوں۔

یہ تمام شیدے ان دنوں یورپ کے ایک دوسرے ملک اور ترکی سے مشرقِ وسطیٰ اور قبرص تک چھوٹی چھوٹی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے تھے۔ زیادہ تر وہ ’’پارسل‘‘ بھی ان میں شامل ہو جاتے جو یورپ پھیلنے کے لیے یہاں عارضی قیام کرتے۔ ’’اِدھر سے اُدھر مال‘‘ کرتے ہیں سب سے بڑی کمائی جرمنی سے مرسڈیز کار خرید کر خانہ جنگی کے شکار لبنان بیچ ڈالتے۔ بڑے استاد نے ’’چٹے پاؤڈر‘‘ سے بھی ہاتھ سفید کر لیے۔ سرکیجی، ایمی نونو سے سلطان احمت کی گلیوں میں Backpackers اور ہپیوں کے علاوہ، پرانی جینز اور چرمر بغیراستری شرٹ پہنے یہ شیدے غلیظ ہوٹلوں میں قیام کرتے۔

جس رات میں سرکیجی کے ریلوے اسٹیشن سے یورپ جانے کے لیے چلا۔ یہ شیدے مجھے باقاعدہ الوداع کرنے آئے۔ اب انہیں یقین ہوا کہ میں کوئی خاص آدمی ہوں جو آہنی دیوار کے اُس طرف اشتراکی سرخ جنت کا مسافر ہے۔ استاد سعید کو میں نے کہا کہ دیکھ لینا ٹھیک تین ہفتے بعد میں واپس آؤں گا اور اسی ہوٹل آؤں گا۔ اس کو پھر بھی یقین نہ آیا۔

اور جب ٹھیک تین ہفتے بعدمیں سرخ جنت سے واپس صبح صبح ہوٹل پہنچا تو میلہ لگ گیا۔ سب کو یقین ہی نہیں آرہا تھا، مگر اب میری باتوں پر یقین آنے لگا کہ میں سوشلسٹ دنیا کی تلاش میں نکلا ہوں۔ استاد سعید نے میرے سارے بیان پر یقین کر لیا، اور ایک طرف کونے میں لے جا کر کہا، ’’ایک کام کرو، تم کر سکتے ہو، تمہارے بلغاریہ کی کمیونسٹ حکومت میں یقینا اچھے تعلقات ہیں۔ پانچ ہزار ڈالر دلوا دوں گا۔‘‘ میرے اندر کی جستجو تھی کہ نہ جانے کیا کام ہے۔ سعید نے کہا بس ایک شخص چٹا لے جاتے ہوئے پکڑا گیا ہے اسے رہائی دلوا دو۔ میں نے کہا، اوہ نہیں نہیں میرا ان کاموں سے کیا تعلق! میں تو بس ایک جہاں گرد ہوں۔ مجھے تو دنیا دیکھنی ہے، اور دنیا میں بسنے والی انسانوں کی داستانیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).