ایک خاتون ڈاکٹر کا حالِ دل


فی زمانہ خواتین جن مسائل اور مشکلات کا شکارہیں، اس کا ادراک خود خواتین کو آہستہ آہستہ ہو رہا ہے وہ شائد اس لیے کہ کچھ تعلیم بڑھی ہے اور کچھ گھر سے باہر کام کرنے کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں‌ سے مل جل سکتی ہیں، بات کرسکتی ہیں۔ اس طرح‌ ان کو معلوم ہوا کہ وہ اکیلی نہیں‌ تھیں‌ بلکہ تمام دنیا کی تمام خواتین ایک ہی طرح‌ کے حالات سے گذر رہی ہیں۔ انسانی عزت نفس اور زندگی میں‌ برابری کی جدوجہد میں‌ کچھ آگے ہیں‌ اور کچھ تھوڑا پیچھے۔ ان خواتین اور مرد کالم نگاروں کے کالم پڑھ پڑھ کرایک بڑی تعداد ان حقائق سے باخبر ہو چلی ہے۔ یہ افراد یہ سمجھ چکے ہیں‌ کہ خواتین کی بھلائی میں‌ ہی تمام معاشرے کی بھلائی ہے اور اس سے سب کا فائدہ ہوگا۔ خواتین کالم نگاروں اور بلاگرز کی تحاریر کا زیدہ ترمواد ان کے مسائل اور زندگی کے اردگرد گھومتا ہے، جس میں زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک کے جدید دور کی خواتین کے مسائل کا زکر ہوتا ہے۔

یہ ایک کامن سینس بات ہے کہ جو بھی لکھتا ہے وہ اپنے خوف اوراپنے خواب ہی بیان کرتا ہے۔ اگر کہیں‌ہم پڑھیں‌ کہ ’بستر کے نیچے سے بھوت نکل کر مجھے کھائے گا اور اگر میں‌ اچھا بنا تو کینڈی کے درخت ہوں‌ گے اور چاکلیٹ کے دھارے‘ تو ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ‌کہ وہ ایک بچے نے لکھا ہے اس میں‌ کچھ حیرانی کی بات نہیں‌۔

نئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے کسانوں‌ کا قریب آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے، وہ کم سپورٹ ہونے کے باوجود تھوڑی زمین پر مردوں‌ کی بنسبت زیادہ فصل اگاتی ہیں۔ خواتین اپنی آمدن کا نوے فیصد حصہ اپنی فیملی پر خرچ کرتی ہیں اور مرد اپنی آمدن کا صرف تیسرا حصہ۔ اس لیے جن خواتین کے پاس اپنے پیسے ہوں‌ان کے بچوں‌ میں‌ تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ ایک اسٹڈی میں‌یہ حساب لگایا گیا کہ اگر خواتین کو معاشی طور پر مضبوط کیا جائے تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ممکن ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں‌ خواتین میں‌ خواندگی کی شرح‌ نہایت کم ہے اس لیے یہ خواتین لکھاری لوگوں‌ کی معلومات ان موضوعات کو بڑھانے کے لیے نہایت اہم ہیں۔

آئیے ایک خاتون مصنف کے ایک دن کا حال ان کی تحریر کے ذریعے جانتے ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ

آج بدھ کا دن ہے۔ کل ہمارے شہر میں‌ خطرناک بگولے آنے کی وارننگ تھی۔ دو سال پہلے ایک بگولہ یہاں ‌سے 3 میل کے فاصلے سے گذرا اور اس میں‌ اسکول کے 19 بچے مر گئے تھےاور اس لیے مجھے بگولوں‌ سے شدید خوف آتا ہے۔ میں‌ نے دونوں‌ بچوں‌ کو اسکول جانے سے منع کیا اور گھر آگر ریڈار دیکھتی رہی۔ جب ہمارے قریب طوفان پہنچا تو میں‌ نے اپنے شوہر اور بچوں‌ کو کہنا شروع کیا کہ شیلٹر میں‌ چلو۔ وہ سارے بے پرواہ ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ میرے شوہر نے لاپرواہی سے کہا کہ میں‌ کیوں‌ جاؤں‌ تو میں‌ نے ان سے کہا تاکہ آپ کی زندگی بچ جائے۔ میری زندگی کیوں‌ بچ جائے؟ تو میں‌ نے بولا کہ ابھی مورگیج جو پوری نہیں‌ دی ہے اس لیے۔

مجھے پیسوں‌ کی ضرورت نہیں‌ ہے مورگیج میں اپنی تنخواہ سے دے سکتی ہوں لیکن پھر بھی میں‌ چاہتی ہوں‌ کہ میرے کالج کے سوئیٹ ہارٹ ٹھیک رہیں‌ اور زندہ رہیں۔

آج صبح صبح سنیتا کا ٹیکسٹ آگیا اور اس نے مجھے ایک گھنٹہ پہلے جگا دیا۔ بائیو بھیج دیں‌ اس نے لکھا۔ وہ تو میں‌ نے کل رات ہی بھیجی تھی لیکن اس کو نہیں‌ ملی طوفان جو آیا ہوا تھا۔ میں‌ نے اس لمحے کو دل میں‌ ایک لمحے کے لیے کوسا جب میں‌ نے نرسنگ اسٹوڈنٹس کو چلتے کلینک کے بیچ میں‌ آن لائن لیکچر دینے کی ہامی بھری تھی۔ بہرحال اب نیند تو دوبارہ نہیں آنی تھی تیار ہوکر سامان گاڑی میں‌ رکھا۔ کئی چیزیں‌ ایک ساتھ اٹھانی تھیں۔ پھر اولے گرنے کی وجہ سے گاڑیاں، گملے وغیرہ سب گیراج میں‌ تھے تو اس لئے مشکل سے گاڑی میں‌ سامان رکھا اور جب میں‌ کلینک پہنچی تو نوٹ کیا کہ کافی کا کپ نہیں ‌ہے۔ اوہ وہ تو گاڑی کے اوپر رکھا تھا۔ راستے میں‌ کہیں‌ گر گیا ہوگا۔ امید ہے کسی کے اوپر کافی نہیں‌ گری ہوگی۔

اس دن کے مریضوں ‌کو میں‌ نے ایک ہفتہ پہلے فون کرکے کہہ دیا تھا کہ آپ لوگ صبح ذرا جلدی آجائیے گا کیونکہ میری 45 منٹ کی میٹنگ ہے۔ جب یہ خاتون آئیں‌ تو بولیں‌ میں‌ متاثر ہوئی ہوں‌ کہ آپ نے مجھے فون کیا ورنہ ڈاکٹر تو فون نہیں ‌کرتے اور ویٹنگ روم میں‌ انتظار کراتے ہیں۔

سنیتا ہماری پرانی خاندانی دوست ہے۔ اس نے کافی مشکل وقت دیکھا۔ تفصیل زیادہ نہیں‌ معلوم لیکن گھریلو تشدد سے تنگ آکر اس نے طلاق لے لی اور گورنمنٹ گرانٹ لے کر اب نرسنگ اسکول میں‌ ہے۔ اس کا بیٹا اور میرے بچے برابر عمر کے ہیں۔ اس نے اگر اپنی ڈین سے بات کی کہ میری ڈاکٹر دوست لیکچر دے گی تو میں‌ منع نہیں‌ کرنا چاہتی تھی۔ اس سے اس کے کیریر پر مثبت اثر پڑے گا اور جو ساری اسٹوڈنٹس آئیں‌ گی وہ بھی کچھ ذیابیطس کے بارے میں‌ سیکھ لیں گی۔ اور یہی میں‌ نے ان کو لیکچر میں‌ بتایا بھی کہ آپ لوگ جہاں‌ بھی جائیں گے وہاں‌ آپ کے ذیابیطس کے مریض ضرور ہوں‌ گے اس لیے آپ لوگ اس ٹاپک پر اچھی طرح‌ معلومات حاصل کریں تاکہ ان کا اچھی طرح‌ خیال کرسکیں۔

شام کو گھنٹی بجی! اس وقت ہمارے گھر کون آگیا؟ دروازہ کھولا تو میرے بیٹے کا دوست تھا۔ برمی بدھ فیملی۔ وہ دونوں‌ چھوٹے سے تھے تب سے دوست ہیں۔ میرا فون اس کی گاڑی میں‌ رہ گیا تھا تو وہ لینے آیا ہوں۔ تمھارا کام ہوگیا؟ میں‌ نے اس سے پوچھا۔ دو مہینے پہلے جب اوکلاہوما میڈیکل اسوسی ایشن کی میٹنگ ہورہی تھی تو اس نے میسج بھیجا تھا کہ لیٹر آف ریکمنڈیشن لکھ دیں‌ وہ چار بجے سے پہلے جمع کرانا ہے۔ تو میں‌ نے اسی وقت لکھ کر ای میل کردیا تھا۔ فون سے ای میل کرتے ہوئے میں‌ احتیاط برت رہی تھی کہ ڈاکٹر ہیرس (اینڈوکرنالوجسٹ ایم ڈی، پی ایچ ڈی اور جے ڈی ) نہ دیکھ لیں‌ وہ میرے مینٹور ہیں‌ اور میں‌ نہیں‌ چاہتی تھی کہ وہ سمجھیں‌ کہ مجھے ان کے لیکچر میں‌ دلچسپی نہیں ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments