پاکستان میں خواتین کی حالت زار


\"shazia-anwar\"مجھے اس بات سے کبھی بھی انکار نہیں رہا ہے کہ عورتوں کو اسلامی شعار کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے لیکن میں اس بات کی انتہائی شدت سے مخالف ہوں کہ عورتوں کو مرد اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرے۔ وہ کپڑے پہنے تو مرد کی پسند کے، فیشن کرے تو مرد کی پسند کے مطابق یہاں تک کہ اس کے بیٹھنے اور اٹھنے کا انداز بھی مردوں کی نظروں کا محتاج ہو۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی پرندے کے پر باندھ دیئے جائیں اور پھر یہ فراموش کردیا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے بھی سوچ، سمجھ، صلاحیت، جذبات اور احساسات عطا کئے ہیں ۔ وہ بھی انسان ہے، اس کی اپنی بھی کوئی ہستی ہے اور اسے بھرپور زندگی گزارنے کا اسی طرح حق حاصل ہے جس طرح مردوں کو ۔

کہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں شہری علاقوں میں عورتوں کی صورتحال بہتر ہے جب کہ دیہی علاقوں میں خواتین کو جانوروں سے بدتر سمجھا جاتا ہے ۔ افسوس کہ پاکستان میں صرف چند فیصد خواتین ایسی ہیں جو آزاد فضا میں اپنی مرضی سے سانس لے رہی ہیں ۔ جو خود کو انسان گردان سکتی ہیں بصورت دیگر شہر ہو یا گاؤں خواتین کی حالت کم و بیش ایک ہی جیسی ہے ۔

گزشتہ دنوں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنہیں میں اپنے طور پر نہایت آزاد اور روشن خیال تصور کیا کرتی تھی۔ ان کے ماتھے پر چوٹ کا ایک نشان دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی ، پوچھنے پر کہنے لگیں کہ دیوار سے ٹکرا گئی۔ یہ محض اتفاق ہی ہے کہ ان کی میڈ میرے گھر بھی کام کرتی ہے، اس نے دبے لفظوں میں مجھے بتایا کہ ان کے شوہر آئے دن ان کے چہرے اور جسم کو ایسے ’تحائف‘ دیتے رہتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے جیسے میری قوت گویئی سلب ہوکر رہ گئی ۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی خواتین دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں حقوق نسواں کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد عام اور سنگین مسئلہ ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں کا اندازہ ہے کہ 70 سے 90 فیصد خواتین شوہروں ، سسرالی یا دیگر رشتے داروں کے گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں ہر سال 300 نوجوان لڑکیوں کو ان کے سسرال والے زندہ جلا دیتے ہیں ،جو یقینا افسوس کی بات ہے لیکن اس سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم واقعات کی پولیس تحقیقات کرتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر 24 گھنٹے میں 8 خواتین کی عزت لوٹی جاتی ہے اور 70 تا 75 فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر روز 10خواتین پر جنسی حملہ کیا جاتا ہے،اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں 82 فیصد خواتین معمولی باتوں پر شوہروں کی ناراضگی کے نتیجے میں تشدد کا شکار بنتی ہیں، شہری علاقوں میں 52 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر انہیں زدوکوب کرتے ہیں۔

کراچی میں ملک بھر میں عورتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ کم و بیش ایک جیسی ہے البتہ تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ آئے دن ہونے والے واقعات کو غیرت کے نام پر قتل، خودسوزی یا خود کشی کا رنگ دیا جاتا ہے جب کہ تیزاب پھینکنے اور جلا دینے کے واقعات کی تعداد علیحدہ ہے۔ آئے دن اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ایک ایسا معاشرہ بستا ہے جہاں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔ یہاں کھلے عام آئین کی اور اسلامی قوانین کی مردانگی کے نام پر دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور اس میں ملوث افراد کو محض اس لئے چھوٹ مل جاتی ہے کیونکہ ان کی پشت پناہی قبائل اور جرگے کرتے ہیں جہاں عورت کو بالکل ہی کمتر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں پرہونے والے تشدد اور بے حرمتی کے واقعات کسی ایک مخصوص خطے یا علاقے میں نہیں ہورہے ہیں بلکہ پورے ملک میں اس قسم کے واقعات کی اطلاعات آئے دن اخبارات کے ذریعے ملتی رہتی ہے۔ موجودہ حکومت نے ملک میں خواتین کو ہر شعبے میں مساویانہ حقوق دلانے کے لیے ان کو 33 فیصد نمائندگی دی ہے لیکن اسکے باوجود ان کے استحصال کا سلسلہ تھما نہیں ہے ۔

سندھ میں عورتوں کو کاروکاری کے نام پر اس لئے قتل کردیا جاتا ہے کہ کہیں ان کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے اسی لئے یا تو ان کی شادیاں قرآن پاک سے کرادی جاتی ہیں یا غیرت کے نام پر قتل کرکے دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کر کے اس کا حصہ ہڑپ کرلیا جاتا ہے۔ گھروں میں ہونے والے ان تشدد کے باعث کئی خواتین ذہنی طور پر بیمار ہوجاتی ہیں لیکن ایسے واقعات کو دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا جاتا، اس لئے ان کے بارے میں اب تک درست اعداد و شمار نہیں مل سکے ہیں۔

جامعہ کراچی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر 5 میں سے 4 خواتین کو ملازمت کی جگہوں پر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتاہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویسے تو ہمارے معاشرے میں ہر طبقے کی عورت ہی جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہے لیکن کم آمدنی والے اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی شرح زیادہ ہے۔

آج عورت کی چیخ و پکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پر سنی جارہی ہیں۔ دنیا بھر میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تدارک کے لیے عالمی برادری نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خواتین پرتشدد کے خاتمے کو ممکن بنا کر صنف نازک کے وجود کو بکھرنے سے بچایاجاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کے علاوہ قلمکاروں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جب قلم اٹھائیں تو انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ ان کے لکھے ہوئے الفاظ کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی کے دل میں اتر کر کسی ایک خاتون کو ظلم کے شکنجے سے نجات دلانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔

میں یہاں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ بعض مسائل ہمیں چبھتے ہیں، تکلیف دیتے ہیں، اذیت پہنچاتے ہیں اور حساس دماغوں کو جب یہ اذیت برداشت نہیں ہوتی تو اس اسے بانٹنے کے لیے قلم اٹھالیتے ہیں ، ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس درد سے واقف ہی نہیں اس کے باوجود وہ قلم سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تحریریں دلوں پر اثر انداز نہیں ہوا کرتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments