لبرل ازم کی ناکامی کے اسباب


\"mujahid

12 ستمبر 1683 کی تاریخ نسل انسانی کی تہذیبی داستان میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس روز کاتب تقدیر نے مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ سیادت کا باب بند کر دیا اور ایک نئی کہانی تحریر کرنا شروع کی جس کی ہر سطر مغرب کی بالادستی اور مسلمانوں کے زوال سے عبارت تھی۔ ترکوں نے پچھلے دو ماہ سے ویانا کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور قریب تھا کہ کامیابی ان کے قدم چومتی مگر محصورین کو باہر سے کمک مل گئی جس کے نتیجے میں 12 ستمبر کا سورج ترکوں کی شکست فاش کا نظارہ کر تے ہوئے غروب ہوا۔ اس دن کے بعد پوری امت مسلمہ کے لئے ہزیمتوں ، ناکامیوں اور مایوسیوں کا ایک ایسا طویل سلسلہ جاری ہوا جو آج تک تھم نہیں سکا۔ مسلمانوں کو جب یہ ادراک ہوا کہ اب ان پر کامرانیوں کے در بند ہوچکے ہیں تو ان کے بہترین دماغ اس جستجو میں مصروف ہو گئے کہ آخر اس زوال مسلسل کی وجوہات کیا ہیں۔

سچائی کی تلاش میں سرگرداں ان دانشوروں نے دو مختلف راستے اختیار کئے۔ ایک گروہ نے مغربی تہذیب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا تاکہ ان کی برتری کا راز معلوم کیا جا سکے تو دوسرے گروہ نے اپنے اندر نگاہ ڈالی اور اس امر پر غور کرنا شروع کر دیا کہ ہماری کس کوتاہی کی وجہ سے پستی کا یہ سفر شروع ہوا۔ یہ دونوں طبقات کئی صدیوں سے مختلف فکری تحریکوں کی صورت اپنی اپنی کاوشوں کا نچوڑ مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے آئے ہیں ۔ کئی سو سال پر پھیلا یہ طویل فکری مناقشہ آج پاکستانی معاشرے میں لبرل اور اسلامسٹ کی شکل میں موجود ہے۔

ایک سوال فطری طور پر ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر لبرل اور سیکولر سوچ اسلامی دنیا میں مقبولیت حاصل کیوں نہیں کر سکی؟ اسلامسٹ طبقے کی فکر میں بیشمار کوتاہیاں بیان کی جا سکتی ہیں مگر ان کا بیانیہ ہمیشہ جمہور میں مقبول رہا ہے۔ اس کے برعکس جدیدیت کی پوٹلی سے جتنے بھی فلسفے برآمد ہوئے ہیں وہ معاشرے میں فکری خلجان تو پیدا کر سکے ہیں مگر قبول عام کی نعمت سے محروم ہی رہے ہیں۔

ایک دعوی ہم نے بارہا سنا ہے کہ لبرل ازم ایک طرز زندگی ہے جسے ایک مسلمان بھی اپنا سکتا ہے اور ایک ملحد بھی۔ اسی سے منسلک یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ سیکولر ازم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں لبرل ازم کی ناکامی کی وجوہات انہی دو غلط فہمیوں میں پوشیدہ ہیں۔ لبرل ازم اور سیکولر ازم اپنی نظریاتی اور تہذیبی اساس میں اسلامی فکر سے اسقدر مختلف ہیں کہ ایک ہی معاشرے میں بیک وقت دونوں رائج نہیں ہو سکتے۔

لبرل ازم اپنی خالص نظریاتی بنیادوں میں اس اصول پر قائم ہے کہ انسان کو اپنی ذات پر کلی اختیار حاصل ہے ۔ اگر آپ کی ذات کسی دوسرے فرد کو نقصان نہیں پہنچاتی تو آپ اپنی ذات کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اسی لئے مغرب میں شراب نوشی کے نقصانات کے باوجود اس کی اجازت موجود ہے ۔ اسی طرح اگر مرد مرد سے شادی کرنا چاہتا ہے تو کوئی اسے منع نہیں کر سکتا کیونکہ ہر شخص اپنے جسم کا مالک ہے۔ اسی بنیاد پر بہت سے ٹھیٹھ لبرل مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ اگر گاڑی کا ڈرائیور سیٹ بیلٹ نہیں باندھتا تو اس معاملے میں ریاست مداخلت نہیں کر سکتی۔ خود کشی کی کوشش بھی اکثر ممالک میں اسی وجہ سے قابل سزا جرم نہیں سمجھی جاتی۔

اس کے برعکس اسلام اپنے دائرے میں آنے والے ہر شخص سے پہلا مطالبہ ہی یہی کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے تقاضوں سے دستکش ہو کر اسے اللہ کی مرضی کے تابع کر دے ۔ مسلمانوں میں جتنے بھی فقہی گروہ موجود ہیں ان میں سے ہر کسی کا بنیادی طور پر یہی دعوی ہے کہ وہ اللہ کی مرضی واضح کرنے کا ترجمان ہے۔ یہ لبرل ازم اور اسلام کا صریح قسم کا نظریاتی تضاد ہے جس سے لبرل طبقہ آگاہ ہے۔ مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دینے کے پیچھے بھی اسی تضاد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کارفرما ہوتی ہے۔ چونکہ بنیادی تضاد جوں کا توں موجود رہتا ہے اس لئے اس طرز فکر کو آج تک کامرانی نصیب نہیں ہو سکی۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے اسلام کے دائرے کو وسیع کر کے لبرل ازم کو اس میں سمونے کی کوشش کی ہے مگر وہ بھی ایک محدود طبقے کو ہی اپنا ہمنوا بنا پائے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کی سوچ قبولیت حاصل کر سکے کیونکہ وہ ایسے دو نظاموں کو ملانے کی سعی لاحاصل میں مصروف ہیں جو اپنی اساس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اگر ہم تہذیبی سطح پر دیکھیں تو یہاں بھی اسلام اور لبرل ازم ایک دوسرے کی ضد نظر آتے ہیں۔ لبرل ازم میں معاشرے یا تہذیب کی بنیادی اکائی فرد ہے جبکہ اسلام میں یہ اکائی خاندان ہے۔ یہ اتنا بڑا فرق ہے کہ جسے کسی صورت بھی دور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سادہ سی مثال سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

مغربی معاشرے میں جو لڑکی قانونی طور پر بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور اپنے کسی مرد دوست کے ساتھ رہنا چاہے تو اسے اس بات کی آزادی حاصل ہے۔ اس کی وجہ لبرل ازم کا بنیادی فلسفہ ہے جو ہر فرد کو اپنی ذات پر مکمل اختیار دیتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ فرد ہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اس لئے تمام سماجی ادارے اور ریاستی وسائل مل کر اس کی آزادی کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک مسلمان معاشرے میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ چونکہ یہاں خاندان ہی بنیادی اکائی ہے اس لیے شادی کا ادارہ کلیدی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس سماج میں اگر کوئی لڑکی کسی مرد کے ساتھ بغیر شادی کے رہنا چاہتی ہے تو نہ ہی خاندان اس کی اجازت دے گا اور نہ ہی سماج اس حوالے سے فرد کو تحفظ فراہم کرے گا۔ اس کے برعکس پہلے مرحلے پر اس لڑکی کا خاندان اور بعد ازاں معاشرہ رکاوٹ بنے گا۔ اس کی کیا صورت ہونی چاہئے یہ ایک الگ بحث ہے مگر مزاحمت لازماً ہو گی۔ اگر یہ دونوں ناکام ہو جائیں تو پھر ریاست اس معاملے میں مداخلت کرے گی اور اپنے قوانین کے تحت سزا نافذ کرے گی۔ اسلام میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کی حوصلہ شکنی بھی اسی لئے کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے شادی کے بغیر عورت اور مرد کے درمیان تعلق قائم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس سے خاندان کا ادارہ متاثر ہوتا ہے۔

لبرل از م کی بنیاد پر وجود میں آنے والا معاشرہ اس سے یکسر مختلف ہو گا جو اسلامی بنیادوں پر وجود میں آئے گا۔ اسلئے یہ کہنا کہ ایک مسلمان بھی لبرل ہو سکتا ہے، ایک شدید قسم کی غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جو شخص ایسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے گا ، اس کی فکری اور عملی زندگی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔ سیکولر ازم کا معاملہ بھی اسی سے ہی مماثلت رکھتا ہے۔

فرض کریں مغرب میں رہنے والی اس بالغ لڑکی کے والدین اسلام قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ایمان یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انہیں اپنی بیٹی کو غیر مرد کے ساتھ رہنے سے جبراً روک دینا چاہئے تو وہاں کی ریاست مداخلت کر کے اس لڑکی کے حقوق کا تحفظ کرے گی اور اگر ضروری ہوا تو والدین کو اپنے قوانین کے تحت سزا دے گی۔ اور اسے ایسا کرنا بھی چاہئے کیونکہ ایک سیکولر ریاست مذہب کو اپنی قلمرو سے خارج کر کے لبرل ازم کو ایک متبادل نظریہ کے طور پر اختیار کر لیتی ہے جس کے بعد فرد کے بنیادی حقوق کی پاسبانی اس کا فرض بن جاتی ہے۔ تاہم اسی وجہ سے ہی سیکولر ازم کو لادینیت یا مذہب بیزاری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے یہ ایک عمومی تاثر ہے کہ سیکولر ازم کو صرف مذہب سے ہی بیر ہے وگرنہ وہ لبرل ازم سے فکری رہنمائی حاصل کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ آپ سینکڑوں لغات لے آئیں اور من مانی تشریحات کر لیں، اس نظام کو ایک مذہبی معاشرے کا اجتماعی ضمیر ہمیشہ رد کرے گا۔

اس تحریر کا مقصد لبرل اور سیکولر طبقے کی ناکامی کی وجوہات تلاش کرنا تھا۔ اس سے یہ معنی نہیں لینے چاہیئں کہ ہم کسی آئیڈیل معاشرے میں جی رہے ہیں۔ ایسا قطعاً نہیں کیونکہ جس سماج میں غیرت کے نام پر جوان جسموں سے لہو نچوڑ لیا جائے، اس سےزیادہ بیمار معاشرہ اور کون ہو سکتا ہے۔ جہاں مذہبی اختلاف یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر انسانی جانوں سے کھیلا جائے اس سماج کو اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کا علاج خارج سے درآمد کئے ہوئے نظریات سے نہیں ہو سکتا۔ ہر سماج اپنے مسائل کا حل اپنے تہذیبی ورثے کی روشنی میں تلاش کرتا ہے۔ مغرب نے جمہوریت، لبرل ازم اور سیکولرازم کی تثلیث میں اپنے مسائل کا حل تلاش کیا ہے تو یہ تینوں ان کے تہذیبی ورثے میں پہلے سے ہی موجود تھے ۔ یونان کی شہری ریاستوں کی تاریخ پڑھیں یا رومی سلطنت کا جائزہ لیں، ہمیں یہ تصورات مختلف شکلوں میں کارفرما نظر آتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنی تاریخ اور تہذیب سے ہی رہنمائی حاصل کرنا ہوگی ۔ ایک یکسر مختلف تہذیب کے اوزار ہمارے سماجی خدوخال کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ ان سے صرف ہمارا تشخص مسخ ہو سکتا ہے اور چہرے اسقدر داغدار ہو سکتے ہیں کہ ہم اپنی پہچان ہی بھول جائیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments