ہمارے اجتماعی مکالمے کے خدوخال



فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع سے اگر آپ آشنا ہیں، تو سب سے پہلی بات جو آپ وہاں محسوس کر سکتے ہیں، وہ ہے نام نہاد ”تبدیلی“ کے حامیوں کی بکثرت ’موجودگی‘۔ پاکستانی سیاست میں اس پارٹی کی طرف سے، ورچوئل ورلڈ کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ اور گلی محلہ ایلڈرز ٹائپ سیاست کے خلاف، یہ کافی حد تک موثر ہوتا جا رہا ہے۔ آپ متاثر ہوتے ہیں کہ یہ کم از کم حرف شناس ہیں، نوجوان ہیں نئے عہد کے لوگ ہیں۔ شاید کچھ معقول بات کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ گہرائی میں اتر کر دیکھتے ہیں، تو آپ کا جرم اور غلط بیانی کی ایک بھیانک دنیا سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک ایک فرد نے دس دس، پندرہ پندرہ فیک اکاونٹس بنا رکھے ہیں۔ جس سے وہ اپنی موجودگی، دس سے پندرہ گنا ظاہر کر رہا ہے۔ کہیں بھی سیاست پر مکالمہ شروع ہو، کوئی بھلا آدمی کسی دوسری پارٹی کے حق میں بات کرے، اسے سب سے پہلے ’نیم کالِنگ‘ جیسے؛ ’پٹواری‘، ’جاہل‘، وغیرہ؛ کہہ کے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

خاصی مدت پہلے ایک شعر کہا تھا، علم القوافی کی رُو سے یہ مطلع کتنا درست ہے، علم نہیں؛ لیکن کل عالم کی تحریروں کے حوالے سے اس میں دل کا درد سمویا ہے۔
چتون کی شکن بھی کبھی کھولا نہیں کرتے
ہم لفظ کی حرمت کا حلالہ نہیں کرتے
سوال یہ ہے کہ لفظ کی ’حرمت‘ کا آج کی صورت احوال سے تعلق کیا ہے؟ یہ تو کچھ ادبی تنقیدی قسم کا موضوع نہیں؟ جب کہ عنوان تجویز کر رہا ہے کہ یہ سماجی و سیاسی مضمون ہے۔ ٹھیریے! کسی ادیب کا درد کیا ہوتا ہے، پہلے میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

’بلئینگ‘  (دھونس) بہت موثر طریقہ ہے، کسی کی سوچ اور سیاسی رائے کو دبانے کا؛ لوگ دب بھی جاتے ہیں۔ دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ ایک علاقائی فیس بک فورم میں میں نے ایک ’پوسٹ‘ کی؛ حسبِ رواج اس پوسٹ پر طوفان بدتمیزی کا آغاز ہو گیا۔ سب سے پہلے ایک صاحب ’ابنِ انسان‘ نام سے ظاہر ہوئے، جو مدعا پر بات کی بجائے ’کٹ، کاپی، پیسٹ‘ کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے انھیں آگاہ کیا کہ ایسے نہیں چلے گا۔ جوابا انھوں نے مجھے توہین آمیز القاب سے مخاطب کیا۔ میں نے انھیں خبردار کیا، اب ایسا مت کرنا، ورنہ میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ انھوں نے پھر سابق رویہ دکھایا، تو میں نے انھیں اپنے دوسرے رُخ کی جھلک دکھلا دی۔ حضرت پڑھے لکھے غائب ہو گئے۔ کیوں کہ انھیں غائب ہو کے نئے نام سے ظہور کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا۔

اب کے ایک نئی آئی ڈی سے ’ظاہر‘ ہوئے۔ جس پر ان کے نئے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ موجود تھا۔ ان کے ڈسکورس کے باعث مجھے معلوم تھا کہ موصوف وہی ہیں۔ میں نے ان کی میڈیکل ڈگری تیز آنچ پر رکھ دی۔ چار پانچ کامنٹس میں تو انھیں ہوش ہی نہ آیا، کہ کیا ہو رہا ہے۔ بعدہ بولے کہ میں میڈیکل نہیں ’پی ایچ ڈی ڈاکٹر‘ ہوں۔ میں نے کہا ست بسم اللہ! ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ آپ کی پی ایچ ڈی کو بھی چیک کر لیتے ہیں۔ سو ان سے ان کا تھیسز پوچھا، نگران کا نام پوچھا تو سارے پڑھاوت لکھاوٹ غائب ہو گئی۔ جلدی سے دونوں آئی ڈیز سے بلاک کر کے ’ظاہر‘ سے غائب ہو گئے۔

ان مجرمین کی اعانت کے لیے باقاعدہ ایک شعبہ قائم ہے، جو جعلی ویب سائیٹس بنا کر انھیں پروموٹ کر کے گوگل سرچ کی ٹاپ پر لانے کے دھندے میں ملوث ہے۔ ایسی ہی کسی ویب سائٹ پر اپنے مہاتما خان صاحب آپ کو کسی غیر ملکی یونیورسٹی کے چانسلر وغیرہ کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں۔ اب آپ ایک سادہ لوح یا عام فرد پر اس دھوکا دہی کے اثرات کا سوچیں۔ جب آپ کے مقابل ایک پی ایچ ڈی یا میڈیکل ڈاکٹر آپ کو جاہل، خر خور، پٹواری وغیرہ کہہ رہا ہو، تو آپ کی سیلف اسٹیم کس درجہ بلند ہو گی؟

دھوکا دہی کے علاوہ ’بلیئنگ‘ کا مجرمانہ رویہ جو اس پارٹی نے دانستہ عام کیا ہے، وہ اس سے بھی بڑا سوال ہے۔ بلیئنگ ترقی یافتہ ممالک کے قومی ایجنڈوں کی ٹاپ ترجیحات میں شامل ہے، تا کہ ان کے بچے اپنے پورے پوٹینشل کے مطابق پھل پھول سکیں اور یہاں سیاسی رائے کے اظہار پر اسے قدغن کی صورت استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ ’بلیئنگ‘ سے یاد آئے، تو اپنے خواجہ سعد رفیق۔ انھیں بھی ایسی ہی صورت احوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا نام پکارا گیا اور ان کے ایک سیاسی بیان کا حوالہ معزز ایوان عدل میں دیا گیا۔ انساف کو ذاتیات پر نہیں اترنا چاہیے۔

ایک موازنہ کیے لیتے ہیں۔ خواجہ صاحب کے زیر انتظام آنے سے پہلے پاکستان ریلویز کے جو حالات تھے، سبھی کو یاد ہوگا۔ یہ ادارہ قریبا ناکام ہو چکا تھا۔ مالی نقصان بے حد و بے حساب تھا۔ آج پانچ سال بعد نئے اسٹیشن، ویٹنگ روم، زبردست گاڑیاں، نئے ٹریکس کے علاوہ یہ ادارہ اپنا پچہتر فی صد خسارے پر قابو پا چکا ہے۔ بجائے خواجہ صاحب اپنے اس کارہائے نمایاں کی داد پاتے۔ اپنے سیاسی بیانات پر جھاڑ کھارہے ہیں۔

جب نئی نئی آئینی جمہوریتوں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا، تو قوانین جن کے تحت آپ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے الفاظ کی اہمیت دو چند ہو گئی۔ الفاظ کے معنی اور ان کی اہمیت کے تعین کے لیے ایک پرانے علم، علم الترجمہ کی ضرورت پڑی۔ اس ضمن میں ہمیں ارسطو کا ’ڈے انٹر پٹاسے اونے‘ نامی مضمون اولین کاوش کے طور پر ملتا ہے۔ ازاں بعد یہودی تالمود اور مسیحت میں پروٹسٹنٹ رِفارمیشن کے بعد، اس علم نے اپنی ایک باقاعدہ شکل کا تعین، ہرمانیوٹکس یعنی علم التشریح کی صورت میں کر لیا۔ اس علم کے بنیادی خدوخال کے تحت آئین کی تشریح کا حق عدالتوں کو مل گیا۔

خیر! ہمارے یہاں تو سب کچھ ’جھونگے‘ میں ملنے کے باعث قانون سازوں کو ایسی کسی ”پخ“ سے واقفیت ہی نہ تھی۔ سیدھا سادا کامن لا اٹھا کر ملک کے نظم و نسق چلانا شروع کردیا۔ بہت ہوا تو اس کے خدوخال تھوڑے بدل لیے۔ لیکن مغرب میں یہ شعبہ اپنی اہمیت کے باعث مذہبی تشریحات سے لے کر کے ملکی معاملات تک ہر جگہ اثر انداز ہوتا ہے۔

آپ کسی فعل یا مظہر کی تعریف کہاں سے لے سکتے ہیں، کہاں سے نہیں اور اسے قانون سے کیسے ملا کر پڑھ سکتے ہیں، اس کے قوانین ابتدائی صورت گروں نے سیکڑوں کی تعداد میں طے کر دیے۔ ہائیڈیگر، گاڈیمز، ای ڈی ہرش، اور وولف گانگ ایزر نے ہرمانیوٹکس کی بنیادوں میں طے کر دیا تھا، کہ کسی قانونی، مذہبی، یا ادبی متن کی کنفگریشن کیسے کی جائے گی۔ مجھے قانون کے اس اہم ترین فیچر پر اس حوالے سے ہنسی آتی ہے، کہ جیسے من مانی تشریح و تعبیر  ہمارے ہاں کی جا رہی ہے، ویسی کسی اور ملک کسی اور نظام میں تو ممکن ہی نہیں۔

اب جب کل میں نے ملک کے سابق منتخب وزیر اعظم کو گڑ گڑاتے ہوئے سنا، کہ خدارا مجھے جیل بھیج دیں۔ کیس سپریم کورٹ میں لگا کر کچھ سماعتوں کے بعد پھانسی پر لٹکا دیں، تو احساس ہوا کہ ہم عوام سے کیا غفلت ہو چکی۔ نہ صرف یہ کہ ہمارے تین دفعہ کے منتخب اور دو بار دو تہائی کے ساتھ منتخب وزیر اعظم کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیے گئے ہیں؛ اس نئے کردار کے ساتھ جو اب نظام عدل کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہمارے مستقبل کی تصویر خوشگوار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).