صحت کا انصاف یا صحت کا پروپیگنڈا


ہٹلر کے دور میں جرمنی کے ایک وزیر اطلاعات(پروپیگنڈا)ہوتے تھے جن کا نام گوئبلز تھا وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ اپنے جھوٹ اور پروپیگینڈے کے لئے وہ تقریباً 67 سال تک ناقابل شکست تھے دنیا کا کوئی بھی وزیر اطلاعات اُن تک نہ پہنچ سکا۔ حتئی کہ 2013 کا سال آیا اور جرمنی سے 5300 کلو میٹر دور پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی جس کے ہر کارکن کو گوئبلز کا درجہ حاصل تھا۔ گوئبلز نے شاید اپنے اس مشہور زمانہ قول کہ ”جھوٹ کو اتنا بولو کہ وہ سچ نظر آئے“ پر اتنی دل جمعی سے عمل کیا ہو جتنا پی ٹی آئی نے کیا۔ بلکہ اُن کا موٹو گوئبلز سے بھی ایک قدم آگے تھا کہ جہاں سچ بولنے سے کام چلتا ہے وہاں بھی جھوٹ ہی بولوں۔ اسی خیبر پختون خوا  حکومت کے پانچ سال پچھلے ہفتہ مکمل ہوئے۔

ان کی خیالی مرکزی حکومت کے وزیر اطلاعات تعلیم کے لحاظ سے انجنئیر ہے اور شاید اُن کی انجنئیرنگ کی ڈگری جھوٹ گھڑنے میں ہے۔ جی ہاں وہی علی محمد خان جو اکثر دھیمے انداز گفتگو شروع کرتا ہے اور اَس کے بعد لگاتار اور دھڑلے سے بلکہ بے غیرتی کی حد تک مسلسل جھوٹ بولتا بلکہ گھڑتا ہے۔

چلئے ہم اُس کے حالیہ جھوٹ جو اُنھوں  نے کاشف عباسی کے پروگرام میں بولا تھا اُس پر بات کرتے ہے۔ موصوف نے کہا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں 15 ہسپتال بنائے ہے اور 2085 بیڈز کا اضافہ کیا ہےاور 12 مزید ہسپتال بن رہے ہیں۔ جب اس جعلی گوئبلز سے کاشف عباسی نے پوچھا کہ کوئی ایک ہسپتال کا نام تو بتائے تو موصوف آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ پھر ایک روز بعد موصوف نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا اکاونٹ سے پی ٹی آئی کی آفیشل سائٹ سے لی گئی ایک لسٹ تمام بڑے صحافیوں کو بھجوائی۔ یہ لسٹ دیکھ میں نے سوچا کہ کیا کروں اپنا سر پیٹوں یا ہنسوں۔

چلیں اس لسٹ کے بارے میں کچھ آپ کے ساتھ شئیر کروں۔ یہ لسٹ چار کالمز پر مشتمل ہے۔ پہلے کالم میں ہسپتالوں کے نام لکھے گئے ہیں۔  دوسرے میں جس سال یہ ہسپتال شروع کیے گئے۔ تیسرے کالم میں اس کے مکمل کیے جانے کے سال کا ذکر کیا ہے اور آخری کالم میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ایک ہسپتال کتنے بیڈز پر مشتمل ہے۔
یہ ڈیٹا تین ادوار پر مشتمل ہے۔ 2002 سے 2007 تک۔ 2008 سے 2013۔ 2013 سے 2018 تک۔

2002 والے دور میں 5 ایسے ہسپتال شروع کیے گئے تھے جو اب تک زیر تعمیر ہیں۔
1) قاضی حسین احمد میڈیکل کمپلیکس نوشہرہ جو 2005 میں شروع کیا گیا تھا اور حال ہی میں مکمل کیا گیا ہے۔ یہ 140 بیڈز ہسپتال ہی اور پی ٹی آئی دور سے پہلے 70% مکمل ہوا تھا۔ اور اب فنکشنل ہو چکا ہے۔
2) سیدو ہسپتال سوات 2005 میں شروع ہوا تھا۔ 500 بیڈز کا پرجیکٹ ہے اور اب تک 60۔ 70% کام ہی مکمل ہوا ہے تینوں ادوار ملا کے۔
3) کیٹگری سی ہسپتال پٹن 110 بیڈز ہسپتال ہے اور 2004 میں شروع کیا گیا ہے اور اب تک 70۔ 80 فیصد کام ہی ہو سکا ہے۔
4) ڈی ایچ کیو ہسپتال ہنگو 110 بیڈز ہسپتال ہے اور اب تک 90 فیصد کام مکمل ہوا ہے۔
5) کیٹگری ڈی ہسپتال دوآبہ 40 بیڈز۔

تو اس طرح علی محمد خان صاحب کی لسٹ میں ایم ایم اے دور کے 5 ہسپتال  ہیں جن میں صرف ایک ہی کو مکمل کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ ہسپتال سی ایم صاحب کے ضلع میں آتا ہے۔ ان پانچوں ہسپتالوں میں کل 900 بیڈز کی گنجائش ہے۔

اب اس لسٹ میں شامل اے این پی دور کے منصوبوں کی طرف آتے ہے۔
1)کیجولٹی بلاک کے ٹی ایچ 265 بیڈز۔ 2011 میں شروع ہوا تھا۔ 75 % کام اے این پی دور میں ہوا تھا اب بھی 5۔ 10 فیصد کام باقی ہے۔
2)پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی 300 بیڈز۔ 2008 میں شروع ہوا ہے اور 2013 تک 80 فیصد کام ہوا تھا اور اب تک فنکشنل نہیں ہوا۔
3)بینظیر چلڈرن ہسپتال مردان۔ 200 بیڈز، 2011 میں شروع ہوا ہے اور 2013 تک 80% مکمل ہو چکا تھا اب تک فنکشنل نہیں ہوا۔

4) میٹرنٹی اینڈ چلڈرن ہسپتال چارسدہ 200 بیڈز ہسپتال 2012 میں شروع کیا گیا۔ اے این پی دور میں 70% کام مکمل کیا گیا تھا۔ اب تک فنکشنل نہیں ہوا ہے۔
5) ڈی ایچ کیو ہسپتال بٹخیلہ 200 بیڈز پراجیکٹ۔ 2010 میں شروع کیا گیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ہمایون خان کی ذاتی دلچسپی سے 80فیصد کام ہو چکا تھا۔ بلڈنگ آج بھی تقریباً اَسی حالت میں ہے۔
6)ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال المعروف مولوی جی ہسپتال پشاور۔ 228 بیڈز ہسپتال ہے جو سابقہ وزیر صحت ظاہر علی شاہ کی ذاتی دلچسپی سے اَسی دور میں ہی فنکشنل ہو چکا تھا۔

7)ٹی ایچ کیو ہسپتال تخت بھائی۔ 110 بیڈز پراجیکٹ 2011 میں شروع ہوا تھا اور سابقہ وزیر اعلیٰ حیدر ہوتی کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اُسی دور میں مکمل ہو چکا تھا۔
8) ڈی ایچ کیو ہسپتال کوہاٹ کی اپ گریڈیشن 2011 میں شروع کیا گیا ہے جو کہ 140 بیڈز تک ہےاور 2013 مئی تک جتنا کام کیا جا چکا ہے آج بھی اُسی حالت میں ہے۔
9) کیجولٹی بلاک ڈی ایچ کیو کوہاٹ 40 بیڈز پراجیکٹ جو 2011 میں شروع ہوا تھا اور آج بھی اُسی حالت میں ہے۔

10)گائنی اینڈ پیڈز واررڈز ایوب میڈیکل کالج  400 بیڈز پراجیکٹ جو 2009 میں شروع ہوا تھا اور 2013 تک 90% تک مکمل ہو چکا تھا اور اب بھی کچھ کام رہتا ہے مگر موجودہ حکومت نے اپریل 2017 میں افتتاح بھی کر دیا ہے۔
11) ایکسٹنشن آف آئی کے ڈی حیات آباد۔ 120 بیڈز پراجیکٹ جو 2012 میں شروع ہوا تھا اور 70 فیصد کام پچھلی حکومت نے کیا تھا جبکہ باقی کام موجودہ حکومت نے مکمل کیا ہے۔
12) میڈیکل بلاک لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور 800  بیڈز پراجیکٹ، صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا ہیلتھ پراجیکٹ 2011 میں شروع کیا گیا 70۔ 80 فیصد کام مئی 2013 تک ہو چکا ہے جبکہ آج تک مکمل نہیں کیا جا سکا۔
13)کیٹگری سی ہسپتال خوازہ خیلہ  110 بیڈز۔ 2010 میں شروع کیا گیا تھا۔ جو کہ کافی حد تک مکمل کیا جا چکا ہے۔

14)اس لسٹ میں چند ہسپتالوں  کا ذکر نہیں ہے جن میں ڈی ایچ کیو ہسپتال مردان کی ازسر نو تعمیر ہے جو 500 بیڈز منصوبہ ہے جس کا آعاز 2011 میں کیا گیا تھا اور 2013 تک 80 فیصد مکمل ہو چکا تھا اور اللہ کے فضل سے آج بھی اُسی حالت میں ہے۔

یہ تمام منصوبے ملاکر 3523 بیڈز کے بن جاتے ہے اگر ہم اس سے مردان ڈی ایچ کیو نکال دیںکیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جو لسٹ پیش کی گئی ہے اُس میں اس ہسپتال کا ذکر گول کیا گیا ہے،  تو 3023 رہ جاتے ہیں جو اے این پی دور میں شروع ہوئے تھے اور اب تک زیر تکمیل ہے۔

یاد رہے کہ مندرجہ بالا منصوبوں میں وہ منصوبے شامل نہیں جو اے این پی اور ایم ایم اے ادوار میں شروع ہو کر مکمل ہو گئے تھے بلکہ صرف اَن  کا ذکر ہے جو اب تک زیر تعمیر ہیں۔

اب آتے ہیں انصاف حکومت کے زیر تکمیل اور زیر تعمیر منصوبوں کی طرف۔
1)کیجولٹی بلاک ہری پور ہسپتال۔ 40 بیڈز پرجیکٹ جو 2014 میں شروع ہوا ہے۔
2) پرانا ڈی ایچ کیو صوابی میں مزید تعمیر و آرائش 210 بیڈزز اور 2015 میں شروع کیا گیا ہے۔
3) ایک ہی منصوبے میں تین ہسپتالوں کی کیٹگری ڈی میں اپ گریڈیشن مانکی شریف۔ ڈاگ اسماعیل خیل اور زیارت کاکا صاحب نوشہرہ۔ یہ منصوبہ 2015 میں شروع ہوا تھا اور تینوں ہسپتالوں کے بیڈز ملا کر 120بنتے ہے

4) کیٹگری ڈی ہسپتال بوئی ایبٹ آباد۔ 2014 میں شروع کیا گیا ہے۔ کل بیڈز 40۔
5)آر ایچ سی ہسپتال مارتونگ شانگلہ۔ 14 بیڈز
6) آر ایچ سی ہسپتال اضاخیل نوشہرہ۔ 14بیڈز

7) آر ایچ سی ہسپتال شیوہ صوابی۔ 14بیڈز
8) آر ایچ سی ہسپتال چار بانڈہ مردان۔ 14بیڈز
9) ٹی ایچ کیو ہسپتال کلاچی ٹو کیٹگری ڈی ہسپتال 40 بیڈز
10)کیٹگری ڈی ہسپتال یار حسین 40 بیڈز

مذکورہ بالا تمام منصوبے 2014۔ 15 میں شروع کیے گئے ہیں جس میں صرف کیٹگری ڈی ہسپتال مانکی شریف جو کہ سی ایم صاحب کا آبائی گاوُں ہے اور کیٹگری ڈی ہسپتال یارحسین جو کہ ہیلتھ منسٹر صاحب کے چچا کے حلقہ میں آتے ہیں مکمل طور پر بنائے جا چکے ہے۔

11) کیٹگری سی ہسپتال ٹوپی۔ 40 بیڈز کا پراجیکٹ جو 2103 میں شروع کیا گیا ہے جس پر موجودہ اور سابقہ دونوں حکومتوں کی دعویداری ہے۔
12) پیڈز یونٹ ایل آر ایچ میں توسیع 32 بیڈز 2015 میں شروع کیا گیا تھا۔ جو تقریباً فنکشنل ہو چکا ہے۔

اب اگر ہم صرف آن منصوبوں کو شمار کریں جو پوری  طرح فنکشنل ہو چکے ہیں  تو وہ تقریبا ً 120 بیڈز بن جاتے ہے۔ جبکہ کل منصوبے  618 بیڈز کے بنتے ہیں۔

اب پی ٹی آئی کےاس جعلی  گوئبلز سی کوئی پوچھے کہ پانچ سالوں میں آپ نے پورے صوبے میں  صرف 618 بیڈز کا اضافہ کیا ہے۔ کوئی موصوف کو یہ بھی بتائے کہ پرانے ہسپتال کو دوبارہ تعمیر کرنے یا پہلے سے بنے ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کو  کو نیا ہسپتال بنانا نہیں کہتے۔ اگر آپ کو واقعی عوام کی اتنی فکر ہوتی تو ٹاک شوز سے کچھ وقت نکال کر اپنے ہی شہر مردان میں صوبے کے سب سے بڑے اور واحد چلڈرن ہسپتال کی تکمیل تو کر لیتے، تاکہ آج جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی طرح پچھلی حکومتوں نے جب ہسپتال بنائے یا اُن میں سینکڑوں  بیڈز کا اضافہ کیا تو اس کے ساتھ ہی ڈاکٹرز، نرس، ٹیکنیشن وغیرہ کی آسامیاں پیدا ہوئی جس پر آج آپ کے لیڈر و وزرا مونچھوں کو تاوُ دے رہے ہیں کہ ہم نے اتنی اتنی تعداد میں بھرتیاں کی ہیں۔
جناب آپ یہ بتائے کہ آپ نے آنے والی نسل کے لئے ہیلتھ سیکٹر میں کتنی آسامیاں پیدا کی ہیں۔ چاہے فیس بک پر ہی کیوں نہ  ہو؟

ان صاحب سے یہ بھی عرض ہے کہ ہائڈل برگ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر گوئبلز اپنے پروپیگنڈے   سے نہ اپنے ملک کو نہ اپنے لیڈر کو حتیٰ کہ اپنے آپ اور بال بچوں کو بھی نہیں بچا سکے تھے۔

اس مضمون میں دیے گئے اعداد و شمار ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختون خوا حکومت اور پی ٹی آئی کے آفیشل ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا حکومت کے سالانہ اے ڈی پی رپورٹ سے لیے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).