کمانڈو پرویز مشرف کی بہادری اور چیف جسٹس کی للکار


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالتی کارروائی کے دوران ’خوش کلامی‘ اور اصل حقیقت حال کا کچھ پول تو اس وقت کھل گیا تھا جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو منانے کی بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کی عدالت احتساب مقدمات کی ہفتہ میں چھ دن سماعت کرنے کی پابند نہیں ہے کیوں کہ اس بارے میں سپریم کورٹ نے کوئی تحریری حکم نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے خواجہ حارث کے اس اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ تسلسل سے عدالتی کارروائی کی وجہ سے اپنے مؤکل کا منصفانہ دفاع نہیں کرسکتے۔ انہوں نے وکالت نامہ واپس لیتے ہوئے مزید کام کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ اب عدالت نے نواز شریف کو 19 جون تک خواجہ حارث کو کام جاری رکھنے پر قائل کرنے یا نیا وکیل مقرر کرنے کی مہلت دی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک سہ رکنی بینچ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران احتساب عدالت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے پابند کیا تھا کہ وہ اس مدت میں نواز شریف کے خلاف تمام ریفرنسز کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ سنادے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کی طرف سے 6 ہفتے کی مہلت دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ احتساب عدالت ہفتہ کے روز بھی مقدمہ کی سماعت کر سکتی ہے۔ جج محمد بشیر کے مطابق احتساب عدالت چیف جسٹس کے ریمارکس کی پابند نہیں ہے کیوں کہ اسے تحریری طور پر اس طرح کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔

یہ صورت حال ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور ایک ایسے چیف جسٹس کے حوالے سے سامنے آئی ہے جنہوں نے عوامی حقوق کے تحفظ اور حکومتی کارکردگی کو نشانہ بنا کر گزشتہ چند ماہ کے دوران عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کی ہے۔ اگرچہ یہ مقبولیت اس عوامی پذیرائی کا پاسنگ بھی نہیں ہے جو سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو 2007 میں پرویز مشرف کی طرف سے معزولی کے بعد عوامی سطح پر نصیب ہوئی تھی۔ وہ جس شہر میں بھی بحالی عدلیہ تحریک کے سلسلہ میں جاتے تھے تو لوگ کئی کئی گھنٹے ان کی آمد کا انتظار کرتے اور انہیں آمریت کے خلاف جمہوریت اور آزادی کی علامت سمجھ لیا گیا تھا۔ تاہم افتخار چوہدری عوامی تحریک کے نتیجہ میں بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس کے طور پر معیار عدل اور عوام کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔

اب چیف جسٹس ثاقب نثار عدالت عظمیٰ ٰ میں اپنے عہدے کی بنیاد پر سیاست دانوں کو للکارتے ہیں اور ایسے ریمارکس دیتے ہیں جن سے انہیں میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر نمایاں جگہ مل جاتی ہے۔ کالم نگاروں کو مواد اور ٹاک شوز کو موضوعات نصیب ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات ابھی واضح ہونا باقی ہے کہ کسی بھی چیف جسٹس کا ایسا طرز تکلم کیا ملک میں انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالا دستی کے لئے بھی مناسب اور مفید ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کو وزارت عظمی ٰ سے نااہل قرار دینے کے بعد سے سپریم کورٹ اور خاص طور سے اس کے چیف جسٹس ایسا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں جیسے وہی اس ملک کے کھیون ہار ہیں اور اگر ان کا عہدہ اور ادارہ موجود نہ ہو تو ملک کا کوئی بھی ادارہ کام نہیں کرے گا۔ اس طریقہ کار میں فوج کے سوا ریاست کے ہر ادارے اور خاص طور سے حکومتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ہسپتالوں کا دورہ کرنا اور عوامی سہولتوں کے معاملات پر تبصرے کرنا اور حکم جاری کرنا اپنا آئینی فریضہ قرار دیا ہے۔ آئین کی شق 184 (3) کے تحت ملنے والے سوموٹو اختیار کے بے محابا استعمال کے حوالے سے بھی سوالات سامنے آتے رہے ہیں اور یہ تقاضا کیا جاتا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فل بنچ کو اس حوالے سے قواعد و ضوابط طے کرنے چاہئیں تاکہ اس اختیار کو آئین کی روح کے مطابق استعمال کیا جا سکے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں یہ منکشف ہؤا تھا کہ سو موٹو اختیار کا استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس خبروں میں جگہ بنا سکتے ہیں ۔ اس طرح اپنے مسائل حل کروانے کے لئے ہر پل کسی مسیحا کی تلاش میں مگن عام لوگوں کی نگاہیں بھی چیف جسٹس کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ یہ اختیار دراصل سستی شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کا سبب بنا ہؤا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ پر جواب طلب ہے کہ کیا ملک کی سپریم کورٹ کے سربراہ کو اس طرح کا رویہ اختیار کرنا زیب دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مسند انصاف پر بیٹھ کر اپنے رویہ کے بارے میں کوئی نہ کوئی قانونی موشگافی تلاش کرلیں لیکن کیا اس رویہ کا کوئی اخلاقی جواز تلاش کرنا ممکن ہے ؟

خاص طور سے جج محمد بشیر نے چیف جسٹس کی زبانی گفتگو کے حوالے سے جو رد عمل ظاہر کیا ہے اور جو صورت حال بتائی ہے اس کے بعد یہ سوال زیادہ شدت اختیار کرے گا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور جج مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے غیر متعلقہ باتیں کرنے، سوال اٹھانے اور تبصرے کرنے میں آزاد ہیں ۔ کیا انہیں صرف وہی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے جس کا وہ تحریری طور پر حکم دے سکیں اور جس کے بارے میں وہ بعد از وقت بھی یہ جواب دینے کے قابل ہوں کہ انہوں نے قانون کے تقاضوں اور عدالتی روایت کے مطابق گفتگو کی ہے۔ ججوں کا زیادہ بولنا انہیں شہ سرخیوں میں جگہ تو دلوا سکتا ہے لیکن اس طرح نہ قانون کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور نہ ہی عدالتوں کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران استغاثہ یا دفاع کے وکیلوں سے قانونی استفسار کرنا اور قیاسی صورت حال بیان کرتے ہوئے زیر بحث معاملہ کو سمجھنے کی کوشش کرنا بے شک ججوں کا استحقاق ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح دنیا کی تمام عدالتوں کے جج استعمال بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس گفتگو میں نہ تو ججوں کو وکیلوں یا گواہوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور نہ وہ کوئی ایسی بات منہ سے نکالنا گوارا کرتے ہیں جس کا زیر غور معاملہ سے تعلق نہ ہو یا جس کا کوئی قانونی جواز موجود نہ ہو۔ تاہم جس طرح نواز شریف کے خلاف مقدمہ کی سماعت ہفتہ میں چھ روز کرنا صرف زبانی جمع خرچ تھا اسی طرح اب سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف ان کی پاکستان واپسی کے معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئےچیف جسٹس نے متعدد ایسی باتیں کی ہیں جو کسی ملک کے منصف اعلیٰ کے منہ سے زیب نہیں دیتیں۔

اول تو چیف جسٹس صاحب نے آج کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ پرویز مشرف واپس آجائیں، انہیں سیکورٹی فراہم کی جائے گی لیکن جب پرویز مشرف کے وکیل نے تحریری ضمانت کی درخواست کی تو جسٹس ثاقب نثار نے اس سے انکار کردیا ۔ بلکہ اس کے جواب میں وکیل سے یہ سوال کر دیا کہ پرویز مشرف کو آخر کس سے خطرہ ہے۔ عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ ان کے مؤکل کس خوف میں مبتلا ہیں اور کس بات کی ضمانت چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اتنا بڑا کمانڈو وطن واپس آنے سے کیوں خوف زدہ ہے۔‘ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جب پرویز مشرف نے 1999 میں اتنے بڑے ملک پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت اُنہیں خوف کیوں نہیں آیا؟ یہ باتیں ایک ایسے چیف جسٹس کے منہ سے زیب نہیں دیتیں جو ملک میں آئین کی بالادستی کا دعویدار ہے لیکن 1999 میں پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد ججوں کی اس قطار میں شامل تھا جس نے فوجی حکمران کے پی سی او کے تحت حلف لیا تھا۔ اگر ثاقب نثار یہ جواب دیتے کہ انہوں نے کس ’خوف‘ میں پرویز مشرف کے پی سی او پر حلف لیا تھا اور آئینی حلف کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہوئے تھے تب ہی وہ پرویز مشرف سے ان کے خوف اور ڈر کے بارے میں استفسار کرسکتے ہیں۔ یوں تو کسی بھی شخص کی سیکورٹی کو باتیں بنا کر ٹالا نہیں جا سکتا لیکن ایک ایسا حکمران جس نے 11/9 کے بعد امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی قیادت کی ہو، اسے لاحق خطرات کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کی مسند سے ایسی سطحی بات کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ ’ اگر پرویز مشرف کمانڈو ہیں تو وہ بہادر بن کر واپس آ کر دکھائیں ۔ سیاست دانوں کی طرح واپس آنے کے بہانے نہ کریں‘۔ اس ایک فقرہ میں چیف جسٹس نے پاک فوج کے دس برس تک سربراہ رہنے والے ایک شخص کی ذات پر حملہ کرنے کے علاوہ سیاست دانوں کے بارے میں اپنی بد اعتمادی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا وہ اپنے ان دونوں دعوؤں کے بارے میں کوئی قانونی جواز یا ثبوت سامنے لاسکتے ہیں کہ پرویز مشرف بہادر نہیں یا اچھے کمانڈو نہیں تھے۔ یا سیاست دان واپس آنے کے لئے بہانے بازی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس جولائی میں ہونے والے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ طور سے منعقد کروانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن اگر وہ ان انتخابات میں حصہ لینے والے سیاست دانوں کے بارے میں اس قدر بد گمان ہیں کہ عدالت کی مسند پر بیٹھ کر اس کا اظہار کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے تو ان سے انصاف اور غیر جانبداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

 پرویز مشرف کے معاملہ میں چیف جسٹس کی فقرے بازی سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ آئین و قانون کے تحت چلنے والی عدالت نہیں بلکہ کسی بڑے چوہدری کی بیٹھک ہے جہاں چوہدری صاحب مخاطب کو متاثر کرنے اور اپنی طاقت کا رعب جھاڑنے کے لئے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے اور ہتھکنڈے اختیار کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ پاکستان کا چیف جسٹس خدائی فوجدار نہیں اور نہ ہی وہ قانون یا آئین سے بالا ہو کر کوئی حکم جاری کرسکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ انصاف کی فراہمی کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اسے قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا مرکز ہی رہنا چاہئے۔ چیف جسٹس کوئی ایسا کلام نہ کریں یا ایسا حکم جاری نہ کریں جس پر انہیں بعد میں پچھتانا پڑے یا ان کے کسی حکم پر ایس ایم ظفر جیسے قدامت پسند قانون دان کو بھی یہ کہنا پڑے کہ ’ان کا حکم بڑی حد تک آئین سے ماوارا ہے‘ ۔ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کی بار ایسوسی ایشن یہ دعویٰ کرے کہ چیف جسٹس ناجائز طور سے سوموٹو اختیار استعمال کر رہے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali