کچھ ’مالک‘ کے بارے میں۔ مت قتل کرو آوازوں کو


\"usman

کیا دوستوں نے ’مولا جٹ‘، ’وحشی جٹ‘، ’بالا گجر‘، ’دادا بد معاش‘ حتی کہ ’عاطف چودھری‘ نام کی پنجابی فلمیں دیکھی ہیں؟ یا کبھی ’ناوے د یوے شپے‘، ’ٹوپک زما قانون‘، ’نیمگڑے ارمان‘ وغیرہ پشتو فلموں سے آنکھیں سینکی ہیں؟ یا ’انٹرنیشنل گوریلے‘ نامی اردو فلم؟ نہیں؟ چلیں ان سے ہٹ کر، بھارتی فلمیں ’مدراس کیفے‘، ’ ہلا بول‘، ’کمانڈو‘ تو ضرور دیکھی ہوں گی۔ مذکورہ پنجابی فلموں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان میں بد معاشی، تشدد اور لاقانونیت کا بول بالا دکھایا گیا ہے اور ریاستی اداروں کو بے بس و بد عنوان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پشتو فلموں کے بارے میں بجا طور پر یہ تاثر عام ہے کہ پنجابی فلموں کے ضمن میں مذکور ’اوصاف حمیدہ‘ کے علاوہ ان میں پشتون معاشرے اور ثقافت کی جھوٹی اور مسخ شدہ تصویر پیش کی جاتی ہے، نسوانی اعضاء کی بے جا نمائش کے ذریعے جنسی ہیجان پھیلایا جاتا ہے ۔ اوپر کی فہرست میں مندرج واحد اردو فلم ایک غیر ملکی شہری کو، مذہبی بنیاد پر قتل کرنے کے منصوبے پر مشتمل ہے، چنانچہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر اکساتی ہے۔ تینوں ہندی فلمیں ان سینکڑوں بھارتی فلموں میں شامل ہیں جو ’بد عنوان‘ سیاست دانوں کو منفی رنگ میں، اور حاضر سروس یا سبکدوش فوجیوں کو انصاف اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر سیاستدانوں کو رگیدتے یا جان سے مارتے، دکھاتی ہیں۔

چلیں اگر آپ نے ان میں سے کوئی فلم نہیں بھی دیکھی، تو کیا کبھی سنا ہے کہ حکومتی یا غیر حکومتی سطح پر ان کے اخلاقی، سیاسی، ثقافتی یا تمدنی اثرات کے سبب ان میں سے کسی پر پابندی لگائی جانے کی بات ہوئی ہو؟ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ یہ ساری تمہید حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’مالک‘ پر لگائی جانے والی حکومتی پابندی کے حوالے سے باندھی جا رہی ہے۔ اگرچہ وہ وجوہات سو فی صد واضح نہیں ہیں جن کے سبب حکومت نے، اس فلم کی تین ہفتے تک آدھے ملک میں نمائش کے بعد اس پر پابندی لگانے کا سوچا، مگر سوشل میڈیا پر ہونے والی گپ شپ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان وجوہات کا تعلق مبینہ طور پر تین موٹے موٹے زمروں سے ہے: اول، اس فلم میں پاکستان میں رہنے والی ایک مخصوص قوم سے تعلق رکھنے والے کچھ کرداروں کو بہت منفی رنگ میں پیش کیا گیا ہے ۔ دوئم، فلم میں جاگیردار سیاست دانوں کو جوڑ توڑ کا جویا، عیاش اور ظالم دکھایا گیا ہے، سوئم، فلم میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والی لڑکی کا تعلق ایک اور مخصوص قوم سے دکھایا گیا ہے۔ کچھ دوست اس فلم میں سیاست دانوں کی کردار کشی اور سابق فوجیوں ۔ جن کی اکثریت فلم میں دو مخصوص قوموں سے دکھائی گئی ہے۔ کی فرض شناسی کے پیچھے جمہوریت کے خلاف ریشہ دوانیوں کی بو بھی سونگھ رہے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ، دیگر اکثر فلموں کی طرح، ایک فرضی کہانی پر مشتمل فلم ہے۔ اس کے پس پردہ سازشوں کی بو سونگھنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ اسے ان پیمانوں پر پرکھا جائے جن پر فکشن کو پرکھا جاتا ہے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ یہ ایک کمرشل فلم ہے اور اس کے رد و قبول کا اختیار فلم بینوں کے پاس ہونا چاہئے۔ پابندی لگنے سے تو اس کے بارے میں تجسس اور بڑھے گا اور انٹر نیٹ کے دور میں ایسی پابندیاں یوں بھی پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اگر ابتدا میں دی گئی فلموں کی اجمالی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی، ثقافتی اور قومیتی اعتراضات ان سب پر وارد ہوتے ہیں۔ ان کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کا فیصلہ البتہ فلم بینوں نے کیا ہے نا کہ اخلاق، نظریے اور سماج کے خود ساختہ پہرے داروں نے۔ ہماری رائے میں اس فلم کو بھی اسی کسوٹی کے سپرد کر دینا چاہیے۔

درج بالا قومیتی اعتراضات دیکھ کر ہمیں منٹو اور کرشن چندر کے فسادات پر لکھے گئے افسانوں پر پاکستانی دائیں بازو کے نقادوں کے تبصرے یاد آ گئے جو مقتول کرداروں کی تعداد گن کر حکم لگاتے تھے کہ مصنف نے مسلمانوں کی طرفداری کی ہے یا ہندوؤں کی؟ جہاں تک فلم میں سیاست میں چیرہ دستیوں اور دھونس دھاندلی کی عکاسی کا تعلق ہے، تو اس امر سے قطع نظر کہ پاکستان کے کس صوبے میں جاگیردارانہ شکنجہ عوام کی گردنوں میں کس درجہ کسا ہوا ہے، اس بات سے انکار مشکل ہوگا کہ وطن عزیز میں ۔ بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی۔۔ کا دور دورہ ہے اور فیض کی نظم ’انتساب‘ کی، غریب کسان کے بارے میں سطور ۔ ’جس کی بیٹی کو ظالم اٹھا لے گئے، جس کے ڈھوروں کو ڈاکو ہنکا لے گئے‘۔آج بھی ایک الم ناک حقیقت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں اگر کسی کو اس فلم کے آئینے میں اپنی داڑھی اور اس میں پھنسے تنکے دکھائی دے رہے ہیں، تو ضرورت تنکے چننے کی ہے یا آئینے پر سیاہ پردہ تاننے کی؟

ہمیں تو اس فلم میں جو چیز سب سے زیادہ خوش آئی، وہ ہے وطن عزیز میں پشتونوں کی بڑی محنت سے تراشی گئی مگر خلاف حقیقت شبیہہ کی پردہ دری۔۔ فلم میں دکھایا گیا پشتون خاندان کا سربراہ افغان ’جہاد‘ کے بارے میں کھل کر اپنے تشکیک سے بھرے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی ریپ کا شکار ہونے والی بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے بجائے اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے، اور اپنے ’مجاہد‘ بیٹے سے متفق نہ ہونے کے باوجود اس پر کوئی فتوی جڑنے سے باز رہتا ہے۔

فلم پر کچھ اعتراضات اس نوعیت کے ہیں کہ اس میں ’فلاں‘ ادارے یا ’فلاں‘ قومیت کو ہی کیوں رگیدا گیا ہے اور ’فلاں‘ ادارے اور ’فلاں‘ قومیت کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہا گیا۔ یہاں دوبارہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے۔ کسی اور فلم ساز کے ذہن میں اگر کوئی اور کہانی ہے تو اسے پابندیوں کی مانگ کرنے کے بجائے خود اس میدان میں قدم بڑھانا چاہئے۔ ورنہ باقاعدہ اور سوشل میڈیا میں فلم پر تنقید کا راستہ تو کھلا ہی ہے۔ مگر یہ تنقید ممکن نہ ہو پائے گی اگر فلم پابندی کا شکار رہے گی۔ یاد رہے، پابندیوں کا راستہ بہت ہی پھسلوان ہے اور ایک بار کھل جائے تو اس کی زد میں بہت سا ایسا سامان بھی آ جاتا ہے جو ہمیں بہت عزیز ہے۔ تازہ مثال پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور اس میں لال مسجد کے کردار پر مبنی ایک دستاویزی فلم ہے جو کئی بین الاقوامی اعزازات جیت چکی ہے، مگر کل اس پر حکومت نے پابندی عائد کر دی ہے۔ دشمن مرے تے خوشی نہ کریو۔

ایک آخری بات اس فلم میں افواج پاکستان کی جانب سے دی گئی معاونت کے بارے میں۔ فلم کی کہانی میں فوجی زندگی اور سامان حرب کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ فلم ساز ایک پاکستانی شہری ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی فوج سے مدد حاصل کرے۔ فلم ساز کا کہنا ہے کہ اس نے یہ مدد حاصل کرنے کے لئے اپنی بارہ سال پہلے لکھی گئی کہانی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ آخر یہ بات تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے ؟ مکرر عرض ہے کہ اگر یہ بات کسی کے حلق سے نہیں اترتی، تو وہ اس پر کھل کر تنقید کا حق رکھتا ہے، اور دوست ایسا کر بھی رہے ہیں۔ پابندیاں لگانے سے اس بحث کو ہرگز فائدہ نہیں پہنچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments