حضرت حسان بن ثابتؓ کی شاعری


عربی معاشرے میں ایک زمانے میں شعر و شاعری کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا تھا ۔ عرب لوگ جس طرح معیاری شاعری کو سونے کی پانی سے کپڑے پر لکھ کر اس کو بیت اﷲ شریف کے پردوں سے لٹکا دیتے ، اسی طرح یہ چوٹی کے شعراء کو بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے ۔ شعر و شاعری سے اس جنگجو قوم کی بے پناہ عقیدت کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ جنگ کے دوران منظوم کلام سے ان کے جذبات کو خوب مہمیز ملتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ کے میدان میں ایک عرب جنگجو کو اپنے تلوار اور گھوڑے سے اتنا حوصلہ نہیں ملتا تھا جتنا کہ اپنے حق میں کہے ہوئے رزمیہ اشعار ان کو توانائی بخشتی تھی ۔ جنگ کے بغیر بھی عرب لوگ شاعری کو رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ایک طاقتور وسیلے کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ گلوبل ویلیج کے اس دور میں جس طرح دشمن کو کاونٹر کرنے کیلئے میڈیا ایک بہترین ذریعہ سمجھا جاتاہے ، اسی طرح یہ کام عرب اُسی زمانے میں شعر و شاعری سے لیا کرتے تھے ۔ حسان بن ثابت ؓ کا تعلق بھی اس دور کے عرب شعراء سے ہے جو نہ صرف دور جاہلیت میں ایک نامور شاعر سمجھے جاتے تھے بلکہ اسلام لانے کے بعد بھی بہترین شاعری تخلیق کرچکے ہیں ۔ آپ کا پورانام حسان تھا جبکہ ابوالولید ، ابو عبدالرحمن اور ابوالحسام جیسے ناموں کو وہ بطور کنیت استعمال کرتے تھے ۔ حسان ؓ کا تعلق انصار مدینہ کے مشہور قبیلے بنو نجار سے تھا اور رسول اﷲ ﷺ کی ولادت مبارک سے تقریباً پانچ یا چھ سال پیشتر مدینہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا شمار مخضرمین شعراء میں ہوتا ہے کیونکہ جاہلیت کا زمانہ پانے کے ساتھ ساتھ آپ نے اسلامی دور کو بھی پا لیا تھا ۔ جس طرح جاہلی دور میں حسان اپنے قبیلے بنو نجار اور بلاط کی نمائندگی اور دفاع میں ہر وقت پیش پیش رہتے ، اس سے بڑھ کر انہوں نے اپنی تمام تر شعری توانائیاں اسلام اور رسول اﷲ ﷺ کی دفاع کیلئے صرف کیں ۔ جس طرح اسلام سے قبل حسانؓ کو اپنی مقبول شاعری کی بناء پر بنو منذر اور آل جفنہ کے غسانی بادشاہوں تک اپروچ حاصل تھی ، اسی طرح اسلام لانے کے بعد ان کوشاعرِرسول اور شاعر ِ اسلام بننے کاشرف حاصل ہوا۔جیساکہ ہم پہلے بھی کہہ آئے ہیں کہ شعر گوئی عربوں کا میڈیا تھا ، جس کے ذریعے عرب دن کورات اور رات کو دن ثابت کیا کرتے تھے ۔ اعلان نبوت کے بعد آقائے نامدار ﷺ کو جہا ں ایک طرف مشرکین اور کفار ِ مکہ جسمانی ایذائیں پہنچاتے تھے ، وہاں آپ ﷺ کی ذہنی کرب کے لئے آپ کے مخالفین ہجویہ اشعار بھی کہتے ، جس کیلئے ان کے پاس ضرار بن خطاب ، ابوسفیان بن حارث ، عمربن العاص ، کعب بن اشرف اور عبداﷲ زبعری جیسے بڑے شعراء دستیاب تھے ۔ مشرکین اور کفار کی طرف سے جب زبانی حملے Verbal assaults)) بڑھنے لگے تو ایک موقع پر آپ ﷺ کو خود یہ فرمانا پڑا کہ ’’ جولوگ اپنے ہتھیاروں کے ذریعے اﷲ کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، انہیں زبانوں کے ذریعے مدد کرنے سے کس چیز نے روکا ہے ؟ اس موقع پر حسان بن ثابت ؓ نے عرض کیا ’’ اے اﷲ کے رسول ﷺ! اس کام کیلئے میں حاضر ہوں ۔ کہا جاتاہے کہ اس وقت حسان بن ثابت ؓ نے اپنی زبان کے کنارے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اس اعزاز کے بدلے اگر مجھے بصریٰ اور صنعاء کے بیچ زمیں بھی دے دی جائے تو میں قبول نہیں کروں گا ‘‘ ۔ اسلام دشمن قریشیوں کی ہجو کرنے کے معاملے میں رسول اﷲ ﷺ نے حسان ؓ سے فرمایا کہ تم قریش کی ہجوَ کیسے کروگے ، کیونکہ میرا تعلق بھی قریش ہی سے ہیں ۔ حسان ؓ فرمانے لگے ’’ اے اﷲ کے نبی ! قریش کی ہِجوَ کرتے وقت میں آپ ﷺ کو ان میں سے ایسے نکال لوں گا جس طرح آٹے سے بال آسانی کے ساتھ نکالا جاتاہے ۔ ایک موقع پر جب مشرکین نے رسالت مآب ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہے تو حسان نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیتے ہوئے ان کی مخالفت میں کیا کمال کے ہجویہ اشعار باندھے ہیں ، جن کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے ’’ قبیلہ مزین میں کوئی خطیب نہیں اور ناہی ان کے پاس ایسا کوئی بہادر ہے جو میدان کارِ زار میں ان کے کام آسکے ۔ ان کے پاس ایسا کوئی سخی بھی نہیں جو مہمانوں کے برتن بھر سکے اور نہ ان کے ہاں ایسا کوئی فیاض ہے جو قحط سالی میں قوم کی اعانت کرسکے، وہ یسے لوگ ہیں کہ نیکیاں ان میں ضائع ہو جاتی ہیں ، وہ اتنے گئے گزرے ہیں کہ بکرے کے بچے کو بھی اعلیٰ نسل گھوڑے کی طرح سمجھتے ہیں ‘‘۔
آپ ﷺ کی شان اقدس میں حسان ؓ بن ثابت ؓنے ہر موقع پر عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں ، ایک موقع پر آپ ﷺ کے حسن وجمال میں یوں رطب اللسان نظرآتے ہیں،
واحسن منک لم تر قط عینی ؛ واجمل منک لم تلد النساء
خُلقت مبراً من کل عیب ؛ کانک قد خلقت کما تشاء
ترجمہ : آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ، اور آپ سے زیادہ خوبصورت کسی ماں نے نہیں جنا۔آپ کو تمام عیوب سے اس طرح پاک پیدا کیا گیا ، گویا آپ ﷺ کی تخلیق آپ کی مرضی اور چاہت کے عین مطابق کی گئی ہے‘‘۔
آپ ﷺ کی وصال کے بعد اپنی زندگی کو بیکا ر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ،
کنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک َ فلیمُت فعلیک کنت اُحاذرُ
ترجمہ : اے اﷲ تعالی ٰ کے پیارے پیامبر ! آپﷺ میری آنکھ کیلئے پُتلی کا درجہ رکھتے تھے، آپ کی رحلت فرمانے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں ۔ آپ ﷺ کے وصال کے ہمیں بھی دنیا سے رخصت ہوجانا چاہیے کیونکہ آپ کے بعد اب زندگی بے کار ہے ‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حسان بادہ خوری میں بھی کافی مشہور تھے ، شراب کے حق میں ان کے یہ چندا شعا ر بڑے مشہور ہوگئے تھے،
اذا ما الاشربات ذکرن یوما ً فھن لطیب الراح الفداءُ
نولیھا الملامۃ ان المنا اذا ما کان مغث او لحاء
و نشربھا فتترکُنا مُلوکاً و اسداً ما یُنھنِھُنا اللقاء
تر جمہ : اگر پینے کی چیزوں کا ذکر چھیڑ جائے تو پھر تو ساری دنیا کے مشروبات کو شراب پر قربان ہوجانا چاہیے۔ جب جنگ یا گالم گلوچ کے میدان میں ہم سے کوئی قابل اعتراض بات صادر ہو تو اس کا ذمہ دار ہم شراب ہی کو قرار دیتے ہیں ۔ جب ہم جام چڑھاتے ہیں تو یہ ہمیں بادشاہ بنادیتی ہے اور ہمیں شیروں کا حوصلہ عطا کرتی ہے پھر ہم دشمنوں کا مقابلہ کرنے سے پہلو چانا جائز نہیں سمجھتے ‘‘ ۔ مدحت رسول ﷺ کے علاوہ حضرت حسان ؓ نے دین اسلا م کی دفاع اور غزوات میں غازیاںِ اسلام کے ایمان افروز تذکرے آپ کی دیوان میں جا بجا شامل ہیں ۔ اسی طرح صحابہ کرام کی مدح اور ان کی جدائی میں رقت آمیز مرثیے ، مشرکین کے جواب میں ہجویہ اشعار، اخلاق ی اور حکمت بھری شاعری کے علاوہ اپنے قبیلے کی سخاوت سے متعلق فخریہ اشعار بھی آپ کی دیوان میں شامل ہیں ۔ ابوالفرج اصفہانی کے مطابق حسان بن ثابت ؓ نے بہت لمبی عمر پائی اور حضرت امیرمعاویہ ؓکے دور حکومت میں ایک سو بیس برس کی عمر میں وصال کرگئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).