فکر اقبال اور غلطی ہائے مضامین ( 4)


\"sajidاس سلسلہءمضامین کی گزشتہ قسطوں میں ہم دو نتائج تک پہنچے ہیں۔

(1 ) اقبال نے خطبہءالہ آباد میں ہندوستان کو تقسیم کرکے کسی علیحدہ مملکت کے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔

(2) جناح کے نام 21جون1937 کو تحریر کردہ خط میں وہ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ”مسلم صوبوں کے ایک علیحدہ وفاق (separate federation ) کی تشکیل ہی وہ واحد طریقہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہم ایک پرامن ہندوستان حاصل کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچا سکتے ہیں“۔ یہاں اقبال کے علیحدہ فیڈریشن کے الفاظ کو یہ معنی پہنائے جا سکتے ہیں کہ وہ ایک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ پیش کر رہے ہیں، سیاق کلام اگرچہ اس کی تائید نہیں کرتا۔ اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے تو ایک خط میں بیان کردہ رائے کیا اتنی اہم ہو جاتی ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق قرار دے دیا جائے۔

اب یہاں ایک اہم سوال سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ آیا مسلم لیگ کی قیادت نے تحریک پاکستان کے دوران میں کبھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا تھا اور وہ ان کے تصور کے مطابق ایک نئی مملکت کی تشکیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم مسلم لیگ کی دستاویزات سے رجوع کریں اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مسلم لیگ کے سالانہ جلسوں کی رودادیں مطبوعہ صورت میں دستیاب ہیں۔ ان کے مطالعے سے تحریک پاکستان کے بارے میں مسلم لیگ کی جدوجہد کو جاننے کے لیے ہمیں بنیادی آگہی میسر آتی ہے۔

1938ءکا سال مسلمانان ہند پر بہت بھاری تھا کہ اس برس علامہ اقبال اور مولانا شوکت علی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اسی برس دسمبر میں پٹنہ کے مقام پر مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا اور اس موقع پر مولانا شوکت علی کے انتقال پر 234 الفاظ پر مشتمل قرارداد تعزیت منظور کی گئی جس میں ان کی سیاسی خدمات کو بے پناہ خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی علامہ اقبال کے لیے جو قرارد تعزیت منظور کی گئی وہ صرف 96 الفاظ پر مشتمل ہے اور اس قرارداد میں انہیں بطور فلسفی اسلام اور ایک عظیم قومی شاعر کی حیثیت سے خراج تہنیت پیش کیا گیا ہے تاہم ان کی سیاسی خدمات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔

اسی اجلاس میں قائد اعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں مولانا شوکت علی کا تذکرہ زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا اور اس سے مختصر تر الفاظ میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا جس میں ان کی شاعرانہ عظمت کا ذکر تو کیا مگر ان کی سیاسی خدمات کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ اس کے بعد مارچ 1940ءمیں مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں مشہور زمانہ قرارداد لاہور منظور کی گئی اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ اس اجلاس کی پوری کارروائی کے دوران میں کسی مقرر نے اور نہ جناح صاحب نے اپنی تقریر میں اس بات کا کوئی ذکر کیا کہ وہ اقبال کے خواب کو شرمندہءتعبیر کر رہے ہیں۔ حتی کہ مسلم لیگ کے 1947 ء تک منعقد ہونے والے سالانہ اجلاسوں میں کبھی اقبال کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا نہ کسی مقرر نے انہیں تصور پاکستان کا خالق قرار دیا۔

البتہ دو مواقع ایسے ہیں جب جناح صاحب نے اقبا ل کے متعلق اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے بھی ایک علیحدہ مملکت کا خیال ظاہر کیا تھا۔ خطوط اقبال بنام جناح، جو 1942میں پہلی دفعہ شائع ہوئے، کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا ہے :

”میرے خیال میں یہ خطوط بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خاص طور پر وہ ، جو مسلم ہندوستان کے مستقبل سے متعلق ان کے خیالات کو صاف اور غیر مبہم انداز میں واضح کرتے ہیں۔ میرے خیالات بنیادی طور پر ان کے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور ہندوستان کو درپیش دستوری مسائل کے بااحتیاط مطالعے اور بغور چھان پھٹک کے ماحصل نے بالآخر مجھے بھی اسی نتیجے تک پہنچا دیا اور یہی خیالات کچھ عرصہ بعد، مسلم ہند کے متحدہ ارادے کی صورت میں کل ہند مسلم لیگ کی قرارداد لاہور میں ظاہر ہوئے ،جس کو عام طور پر قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے اورجو 23 مارچ 1940 ءکو منظور ہوئی۔“ (Letters of Iqbal to Jinnah,P.6-7 )

دوسری دفعہ 1944 میں یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا:

”ایک عظیم شاعر اور مفکر ہوتے ہوئے وہ کسی عملی سیاستدان سے کم نہ تھے۔ اسلام کے اصولوں پر ان کے پختہ عقیدے اور ایمان کی بدولت وہ ان چند ہستیوں میں سے ایک تھے جس نے ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی خطوں، جو مسلمانوں کے تاریخی اوطان ہیں، میں ایک اسلامی ریاست کے ممکنہ انعقاد پر غور کیا۔“ ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود ، جلد سوم۔ ص 423)

کیا مندرجہ بالا دونوں اقتباسات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ اقبال تنہا تصور پاکستان کے خالق تھے؟ محمد احمد خان نے اپنی ضخیم کتاب، اقبال کا سیاسی کارنامہ، میں اس بات کو بالاصرار بیان کیا ہے کہ صرف اقبال ہی ہیں جنہیں تصور پاکستان کا خالق کہنا سزاوار ہے۔ بیسیوں صدی میں جب ہندوستان میں جمہوری اداروں کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا تو صاحبان بصیرت پر یہ بات مخفی نہیں تھی کہ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں برطانوی طرز کی جمہوریت کا قیام اتنا آسان نہ ہو گا۔ اس لیے مختلف لوگ مختلف اوقات میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندووں کے مابین توازن کا کوئی فارمولا دریافت کرنا پڑے گا۔ ہندوستان کو جن دستوری اور آئینی مسائل کا سامنا تھا ان کے حل کے لیے جہاں اور بہت سے لوگوں نے، جن میں انگریز، ہندو اور مسلمان سبھی شامل ہیں، اپنی آرا کا اظہار کیا ہے، ان میں ایک رائے اقبال کی بھی ہے اور یہی قائد اعظم کا کہنا ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ تحریک پاکستان کے ایک نامور رہنما اور قائد اعظم کے دست راست، ایم۔ اے۔ ایچ۔ اصفہانی، کا یہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ڈاکٹر جاوید اقبال نے احسان فراموشی کی مثال قرار دیا ہے:

”اس بات سے بلاشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کا فکر، شاعری اور خطبات بھی اسی سمت میں اشارہ کرتے تھے (یعنی مسلم ریاست کے قیام کی طرف) لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔“ (زندہ رود، جلد سوم، ص 389)

ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ علامہ اقبال کو کب اور کن لوگوں نے تصور پاکستان کا خالق قرار دیا اور اس کی وجوہ کیا ہیں۔

میرا خیال ہے کہ اس تصور کا پرچار کرنے میں پنجاب کے بعض صحافیوں اور مذہبی طبقے نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ پنجاب کے بعض صحافی جو علامہ اقبال سے قرب رکھتے تھے وہ بوجوہ جناح کی قیادت کو ناپسند کرتے تھے اور اس کے بارے میں تحفظات کا شکار تھے۔ مذہبی طبقے کے لیے جناح کی قیادت کو تسلیم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ جناح اپنے حلیے، لباس اور طرز بود و باش میں مذہبی طبقے سے کوسوں کے فاصلے پر تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے مسلمانوں کی قیادت زیادہ تر مذہبی طبقے کے ہاتھ میں تھی یا اس میں وہ صحافی نمایاں تھے جو مذہبی رجحان رکھتے تھے۔ حتی کہ علی برادران کو سیاست میں آنے کے لیے اور قیادت کی صف اول میں کھڑا ہونے کے لیے مولویوں کی شباہت اور لباس اختیار کرنا پڑا ۔اسی دوران میں ہندوستان میں خلافت کے نام پر ایک انتہائی بے مقصد اور جذباتی تحریک شروع کر دی گئی۔ اس سے پہلے ریشمی رومال تحریک اور ہندوستان سے ہجرت کا تباہ کن فتویٰ بھی دے دیا گیا تھا جس میں ہزاروں مسلمان خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ خلافت کی تحریک میں مسلمانوں نے بے پناہ مالی قربانی دی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہت خوارو خستہ تھی۔ اس کے باوصف اس زمانے میںلاکھوں روپے کا چندہ جمع کیا گیا۔ بالآخر ایک دن یہ جذباتی تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔ اس تحریک کا ایک اچھا اور پائدار نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اس کے بعد مسلمانان ہند نے کبھی بھی مولویوں کی سیاسی بصیرت پر اعتماد نہیں کیا اور ان کی سیاسی قیادت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا۔

اس مایوسی کے عالم میں مسلمانان ہند کو جناح کی صورت میں ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو جدید زمانے کے تقاضوں کو خوب سمجھتا تھا، جو انگریزوں اور ہندووں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کر نے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ دیانت و امانت میں بے مثال کردار کا مالک تھا کیونکہ اس سے قبل جو بھی قیادت تھی اس پر تحریک کے بعد چندے کھانے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ جو مذہبی طبقہ کانگرس کے جارحانہ رویے سے دل برداشتہ ہوا اس کے لیے جناح کی قیادت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ تاہم وہ اس باب میں نفسیاتی الجھن کا شکار رہے اس لیے انہیں اپنے فیصلے کے جواز میں کبھی خوابوں کا سہارا لینا پڑتا تھا اور کبھی دیگر عذر تراشنے پڑتے تھے۔

خورشید ندیم اپنے آج ( 30 اپریل، 2016) کے کالم میں لکھتے ہیں:

\”اگر اہل مذہب کے ایک بڑے طبقے نے قائد اعظم کو اپنی سیاسی قیادت کے لیے منتخب کیا تو کیوں؟ اس کا جواب جماعت علی شاہ صاحب نے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلمان قوم کو ایک مقدمہ درپیش ہے اور اسے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل میں یہ صفات ہونی چاہییں کہ وہ دیانت دار ہو اور اہل ہو۔ قائداعظم میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔ “

پیر جماعت علی شاہ صاحب کا یہ جواب بہت معنی خیزہے اور زیادہ تر مذہبی طبقے کا شاید یہی رویہ تھا کہ ان کے نزدیک جناح کی حیثیت بس مقدمے کے وکیل کی تھی۔ یہ بات ہر ایک پر عیاں ہے کہ وکیل کا مال مقدمہ پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ مقدمہ آپ نے جیت لیا اور وکیل کا کردار ختم ہو گیا۔ اب یہ مدعیان مقدمہ کا استحقاق ہے کہ وہ مال مقدمہ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔

اسی بات میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ تصور پاکستان کا خالق علامہ اقبال کو کیوں قرار دیا جا رہاہے۔ اقبال اگرچہ تمام عمر دین ملا کے خلاف نغمہ سنج رہا تاہم اس کی شاعری کا کچھ حصہ ایسا ہے جسے مولوی لوگ اپنے من پسند معنی پہنا سکتے ہیں اور پہنا رہے ہیں۔ اب یہ اس کی شاعرانہ عظمت کا کمال ہے کہ اس پر کفر کے فتوے لگانے والوں کا بھی اس کے اشعار پڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔

اس ساری گفتگو کا ماحصل یہی ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق قرار دینے کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس سارے افسانے کا اصل مقصد قائد اعظم کے کردار کو کم کرنا ہے اور ایسا کرنے کا سبب اقبال سے محبت نہیں بلکہ جناح سے بغض ہے۔اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض خوش فہم لوگ، جو اقبال اور جناح دونوں سے عقیدت رکھتے ہیں، نادانستگی میں اس دام پر فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments