نواز شریف کو الیکشن سے پہلے جیل بھیجنے کا منصوبہ ناکام


اگر مقصد یہ تھا کہ 25 جولائی کےعام انتخابات سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف احتساب عدالت میں چلنے والے ریفرنسوں کا فیصلہ کرانا ہے جن میں ان کو سزا دلوانی ہے تو یہ ان کے وکیل خواجہ حارث کے مقدمے کی مزید پیروی کرنے سے انکار کے بعد کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عام خیال یہ تھا کہ پولنگ والے دن سے چند روز قبل یہ فیصلہ آئے گا جس سے نون لیگ کا ووٹر بددلی کا شکار ہوگا اور اس کے امیدواروں کو نقصان ہوگا۔ جب نوازشریف کو سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ء کے فیصلے کی وجہ سے وزیر اعظم کے منصب سے ہٹایا گیا تو خیال تھا کہ اب سیاسی میدان میں سابق وزیراعظم کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا ، نون لیگ بھی ان کو ’’ڈچ ‘‘کر دے گی اور ساتھ ہی ساتھ یہ خود بھی تتر بتر ہو جائے گی۔

ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر عدالت عظمیٰ نے نوازشریف کو پارٹی صدارت سے ہٹا دیا کہا گیا کہ نواز شریف سیاسی طور پر تنہا ہوجائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر سپریم کورٹ نے انہی کی طرح دوسرے نااہل ہونے والوں پر الیکشن لڑنے پر تاحیات پابندی لگا دی۔ احتساب عدالت کا فیصلہ بھی اسی پلان کا ایک حصہ گردانا جاتا ہے۔ تاہم اس سے نواز شریف کو نقصان کے بجائے فائدہ ہوا۔

خواجہ حارث کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ بڑے ٹھنڈے دل و دماغ والے اعلیٰ پائے کے وکیل ہیں جو صرف اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں ، جنہیں پبلسٹی کا بالکل شوق نہیں ہے اور ہمیشہ میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ وہ ہر حال میں عدالتوں کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ جب سے عدالت عظمیٰ میں پانامہ کیس پرگزشتہ سال کارروائی شروع ہوئی، وہ تب سے شریف فیملی کے وکیل ہیں۔ مختلف عدالتوں بشمول سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور احتساب عدالت میں سینکڑوں پیشیاں بھگت چکے ہیں مگر باوجود اس کے کہ یہ ان اور ان کے کلائنٹ کیلئے بہت ہی ’’ٹف‘‘ کیس ہے ۔ وہ ہمیشہ پروفیشنل کے طور پر ہی کارروائی میں حصہ لیتے رہے ہیں اور کبھی کسی جج کے ساتھ سینگ نہیں پھنسائے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ایک فیصلے کی وجہ سے نوازشریف کے وکیل کے طور پر مزید کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہفتے اور اتوار کو عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے جیسا کہ چیف جسٹس چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان دنوں احتساب عدالت میں دیے جانے والے اپنے دلائل تیار کرتے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ 6 ہفتے کا وقت دے دیا جائے تاکہ احتساب عدالت میں ریفرنسوں کا ٹرائل ختم ہو سکے مگر چیف صاحب نے حکم دیا کہ یہ ایک مہینے میں ختم کیا جائے۔ ان دونوں مدتوں کو سامنے رکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ان مقدمات یا ان میں سے کسی ایک کا فیصلہ چیف جسٹس کے حکم کے مطابق ہو جائے تو یہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات سے قبل آ جائے گا اور اگر خواجہ حارث والی مدت کو سامنے رکھا جائے تو یہ فیصلہ پولنگ ڈے کے بعد آئے گا۔

جب چیف جسٹس احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف تین ریفرنسوں کا فیصلہ کرنے کی مدت کی تیسری بار توسیع کر رہے تھے تو اس وقت بھی ان کا مکالمہ خواجہ حارث سے کوئی زیادہ اچھے ماحول میں نہیں ہوا تھا۔ جج صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ بوڑھے ہونے کے باوجود ہفتہ اور اتوار کو عدالت لگاتے ہیں اور آپ جوان ہونے کے باوجود ان دنوں میں عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو اپنے کلائنٹ سے کہیں کہ وہ کوئی دوسرا وکیل کر لے۔ اگلے دن ہی خواجہ حارث نے احتساب عدالت سے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا اور اس طرح کیس التوا کا شکار ہوگیا۔

اب 19 جون کو شاید نیا وکیل پیش ہو جائے جو کہ یقیناً کیس کی تیاری کیلئے ہفتہ دو ہفتے کا وقت مانگے گا جس سے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ایک ماہ کی توسیع ختم ہونے کے قریب ہوگی اور ان مقدمات کا فیصلہ انتخابات کے بعد ہی ہوگا، اگر کوئی ’’معجزہ‘‘ نہ ہوگیا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ کوئی وکیل بھی اتنی کڑی شرائط پر کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں اور انہیں حق دفاع سے محروم کیا جارہا ہے، انتخابات سے پہلے فیصلہ ضروری یا مجبوری ہے تو کر دیں، ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ انہیں وکیل کی خدمات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور ان حالات میں وہ کس سے انصاف کی اپیل کریں۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).