تفصیل میں نروان ہے


\"wajahat\"صاحب ، بدقسمتی نے ہمارا گھر دیکھ لیا۔ صلاحیت کی کمی نہیں، قدرتی وسائل میں مالا مال ہیں، ہمارا جوش جنون کی حد کو پہنچتا ہے، ذہانت پر ہمارا اجارہ ہے، بفضل خدا ہمارا ایمان سلامت ہے۔ یہ سب ہے مگر بدشگونی نے کچھ ایسا جال بچھایا ہے کہ جس معاملے میں ہاتھ ڈالتے ہیں ، ایک آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ اب دیکھئے شاہد آفریدی کیسا غضب کا بلے باز ہے ،قوم اس پرصدقے واری جاتی ہے ۔ کھیلنے پر آئے تو درجن بھر گیندوں میں مخالف ٹیم کو ادھیڑ کر رکھ دے۔ میں توکہتا ہوں کہ نت نئے شیمپو لگانے سے آفریدی کے بال کمزور ہو گئے ہیں اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ بالوں میں خشکی ہو تو بلے باز رنز نہیں بنا پاتے۔ یہ تو خیر کھیلوں کا قصہ ہے۔ تھرکے صحراﺅں میں کوئلے کے ایسے وسیع ذخائر ہیں کہ پوری قوم پانچ سو برس تک کنڈیاں لگا کر بجلی استعمال کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو بس یہ کرنا ہے کہ کوئلے کے اوپر موجود چند سو فٹ پانی کے نیچے پہنچ کر کوئلے میں موجود چھیالیس فیصد نمی کو ختم کرنا ہے۔ صاحب ہمارے سیاست دان ایسے نالائق ہیں کہ قوم پر بجلی اور پٹرول کے بم گراتے ہیں مگر ڈاکٹر مبارک مند کو چند ارب روپے نہیں دیتے۔ سندھ دھرتی کے ایک عبقری سائنس دان نے پانی سے چلنے والی موٹر کار بنائی تھی ۔ ہم نے خود ٹیلی ویژن پر یہ کار چلتے دیکھی ۔ ہمارے بڑے بڑے سائنس دانوں نے گہری تحقیق کے بعد اعلان کیا کہ انجینئر آغا وقار نے صدیوں سے گمراہی کی شکار سائنس کو گویا کانوں سے پکڑ کے سیدھا کھڑا کر دیا ہے ۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ خطہ پنجاب سے چند حاسد عناصر نے ایسی دھول اڑائی کہ دنیا ”پانی سے چلنے والی کار“ کی آڑ میں ہماری ہنسی اڑا رہی ہے۔ کیا واقعی ہم کسی سازش کا شکار ہیں؟کیا ساری دنیا نے ہمارے خلاف ایکا کر رکھا ہے؟کیا ہمارے سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی مہارت میں کوئی کمی ہے؟

ڈاکٹر اقبال احمد تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ سیاسیات کے شناور تھے۔ مشکل سے مشکل سوال کا ایسا جامع اور مانع جواب دیتے تھے کہ باید و شاید ۔ایک نوجوان نے مشرق اور مغرب کی آویزش کے پس منظر میں سوال کیا کہ پندرہویں صدی کے بعد مشرقی اقوام جب بھی میدان جنگ میں اتریں تو مغرب کی افواج نے عددی قلت کے باوجود ہر مرتبہ انہیں شکست دی۔ آخر کیوں؟ ڈاکٹر صاحب نے ایک لحظے کا تامل کیے بغیر انگریزی میں جواب دیا ۔ Attention to detail (وہ ہر معاملے کی تفصیلات پر غورو فکر کرتے ہیں)۔ اگر اسی مختصر بیان کو پاکستان کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو شاید ہماری اجتماعی صورت حال کی کوئی ایسی وضاحت سامنے آسکے۔ ہم صبح سے شام تک درجنوں ٹیلی ویژن چینلز پر مباحث دیکھتے ہیں ۔ پاکستانی اخبارات میں ہر روز بلامبالغہ سینکڑوں کالم چھپتے ہیں ۔ انگریزی کے مٹھی بھر اخبارات اور ان کے دو درجن کالم نگاروں کو ایک طرف رکھ دیجئے اور اس پر توجہ فرمائیں کہ اردو اور علاقائی زبانوں میں ہمارے اجتماعی مکالمے کے بنیادی خدوخال کیا ہیں؟

ہم اعداد و شمار کے درست ہونے کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ ملین اور بلین ہمارے خیال میں قریب قریب کی دو اصطلاحات ہیں جن کے ردوبدل سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹتا۔ حال ہی میں ایک معروف سیاسی رہنما نے فرمایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں روزانہ بانوے بلین (92ارب) روپے خرچ کر رہا ہے ۔ صاحب پاکستان کی کل سالانہ آمدنی (وفاقی ، صوبائی محصولات وغیرہ سمیت )تین ہزار ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے۔پاکستان کی کل داخلی پیداوار (جی ڈی پی)کبھی بھی سالانہ 500 ارب ڈالر کو نہیں پہنچی۔ چنانچہ ہمارے پرجوش سیاست دان صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان اپنی کل سالانہ آمدنی صرف ایک مہینے کے اندر دہشت گردی کے خلاف لڑائی پر خرچ کر رہا ہے۔ اسی طرح نوے فیصد یا ننانوے فیصد وغیرہ کی تکرار کرتے ہوئے ہم یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ اعداد و شمار کس تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ تحریر میں حوالے یا حواشی کا التزام توایک طرف ، ہمارے ہاں تاریخ کی کتابوں میں بھی اشاریہ شامل کرنے کا تردد نہیں کیا جاتا۔ ہمارا جغرافیے کا علم ایسا استوار ہے کہ ہم مسلم تاریخ میں غزوہ خیبر بیان کرتے ہوئے یہ بتانے میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتے کہ خیبر کا قلعہ لنڈی کوتل کے کہیں آس پاس واقع ہے۔ تاریخ میں ہم نے ایسا درک پایا ہے کہ اپنے من مانے نتائج ثابت کرنے کے لیے ہم تاریخی واقعات میں سو ڈیڑھ سو برس کا آگا پیچھا جائز سمجھتے ہیں۔ فلسفے کے کلاسیکی اساتذہ نے منطقی مغالطوں کی کوئی درجن بھر صورتیں بیان کی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے ہمیں فلسفے میں یہی حصہ زیادہ پسند آیا اور ہم نے منطقی اور فکری مغالطوں میں کمال مہارت پیدا کی ہے۔ بات بہت سادہ ہے اگر ہمیں ہر مکالمے، بحث یا تحقیق سے من مانے نتائج اخذ کرنا ہیں تو ہمیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ حقائق کی چھان پھٹک تو وہ کرے جو حالات کی اصل صورت جاننے میں دلچسپی رکھتا ہو۔ ہماری واحد دلچسپی تویہ ہے کہ ہم دوسروں سے برتر ہیں اور اگر ہمیں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دشمن بہت کایاں اور سازشی ہیں نیز ہماری اپنی صفوں میں کچھ لوگ غداری پر آمادہ رہتے ہیں۔ سازش اور غداری کا یہ محلول اپنی نااہلی اورناکامیوں کی چبھن ختم کرنے میں بہت مفید ہے۔

ڈاکٹر اقبال احمد نے جس تفصیل کی طرف اشارہ کیا تھا اس کے کچھ نمونے ملاحظہ کیجئے۔ انیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں شمالی ہندوستان ٹھگوں کی لپیٹ میں تھا۔ یہ لوگ اپنے مجرمانہ پیشے میں فنی مہارت رکھنے کے علاوہ مذہبی جوش و جذبے سے بھی لیس تھے۔ امن و امان ، تجارت، شہریوں کے تحفظ اور حکومت کی عمل داری قائم کرنے کے لیے ٹھگوں کے فتنے کا خاتمہ ضروری تھا۔ دلی کے ایک نوجوان انگریز منتظم ولیم ہنری سلیمن نے ٹھگوں کی سرکوبی کے لیے جواعداد و شمار جمع کیے اوران کی روشنی میں جو حکمت عملی مرتب کی اس کے نتیجے میں چند برس کے اندر ٹھگوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اگر ولیم سلیمن کی حکمت عملی بہت پرانی بات معلوم ہوتی ہو تو بیسویں صدی کے شروع میں برصغیر کے اضلاع کے گزٹیئر ملاحظہ کیجئے۔ اگر جنگی حکمت عملی میں تفصیل کی کار فرمائی دیکھنا ہو تو جون 1944ءمیں نارمنڈی پر اتحادی فوجوں کے حملے کی منصوبہ بندی کے بارے میں جاننا مناسب ہو گا۔ سمندر کے پار غنیم کے علاقے میں انسانی تاریخ کے اس سب سے بڑے حملے کی منصوبہ بندی دو برس تک کی گئی تھی۔اگر کسی کی غیرت ملی کو بے جا زحمت نہ ہو تو شجاع نواز نے پاکستانی فوج کی جو تاریخ مرتب کی ہے اس میں 1965ءمیں اصل اُتر کے مقام پر پاکستان کے جوابی حملے یا 1971ءمیں تھر راجستھان کے محاذ پر اٹھارہویں ڈویژن کے حملے کی تفصیلات پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ اگر شجاع نواز کی حب الوطنی پر کوئی شک ہو تو لیفٹیننٹ جنرل گل حسن ، میجر جنرل ابوبکر مٹھا ،الطاف گوہر وغیرہ کی تصانیف سے تقابل کر لیا جائے۔ یہ صرف جنگی حکمت عملی کا معاملہ نہیں ، معیشت ، تعلیم ، شہری منصوبہ بندی اور خاندانی منصوبہ بندی تک ہم نے ہر اہم شعبے میں اپنی حکمت عملی میں زمینی حقائق کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے ۔ ہم ایسے سادہ لوح ہیں کہ کامیابی کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں، معجزوں پہ یقین رکھتے ہیں اور ہمارا یہ خیال ہے کہ ٹھوس حقائق پرغور و فکر کرنا ایمان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان مضبوط ہے اور ہماری کارکردگی بے حد کمزور ۔ اگر ہمیں کارکردگی کے گراف کو بہتر بنانا ہے تو ہمیں جاننا چاہیے کہ موٹر کار پانی سے نہیں چلائی جاتی، جنگ ترانوں سے نہیں جیتی جاتی اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کارخانوں سے باہر سرکاری اراضی پر عبادت گاہیں تعمیر کرنا کافی نہیں ہوتا۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے حقائق پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ حقائق کے نتیجے میں جوتفصیلی تصویر پیدا ہوتی ہے، اسی سے کامیابی کا راستہ نکلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments