نیم روشن شراب خانہ، حلال گوشت اور پاکستان


مجھے وہ اچھی لگی تھی اور اس کے انداز میں بھی ایک خاص بات تھی۔ کچھ تھا اس میں، جتنا میں اسے دیکھتا اتنی ہی مجھے وہ اچھی لگنے لگی تھی میں اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے میں نے محبت سوچ سمجھ کر چھان پھٹک کر اور ناپتے تولنے کے بعد نہیں کی ہے۔ دیکھا ہے اور بس چاہا ہے۔ پھر یہ لڑکیاں مجھ پر چھاگئی ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ یہی لڑکی میرے لئے بنائی گئی ہے اور اسے میرے ساتھ میرے پاس میرے قریب رہنا چاہئیے۔ چاہے قیمت کچھ بھی ہو آخر میں کماتا کیوں ہوں اگر کما کر اپنی خواہش پوری نہیں کرسکتا ہوں تو پھر فائدہ کیا ہے۔ اس لڑکی کے معاملے میں تو میں بہت سنجیدہ تھا اس طرح سے شادی کے لئے کسی کا انتخاب کرلینا میرے بہت سے دوستوں کی نظر میں بیوقوفی کی حد تک کی سنجیدگی تھی۔

میں سرخ و سفید رنگ رکھنے والا طویل قامت ایک خوبصورت مرد تھا۔ گورا رنگ امی کے خاندان سے اور لانبا مضبوط جسم والد صاحب کی طرف سے ملا تھا۔ بچپن میں لوگ مجھے انگریز کہتے تھے۔ سعودی عرب میں عربوں کے لباس میں مجھے کوئی دولت مند عربی سمجھا جاتا لیکن عورت کے معاملے میں بڑا بدقسمت تھا۔ یہ ایک عجیب بات تھی میری زندگی میں۔ شاید اس کو قسمت کہتے ہیں۔

کراچی میں کالج کے زمانے میں جو لڑکی پسند آئی وہ شیعہ نکلی اورہم دونوں کے خاندان اس قسم کی کسی بھی شادی کے لئے تیار نہیں تھے۔ میرے پاس وسائل نہیں تھے کہ میں اسے بھگا کر لے جاتا اور نا ہی اس کے پاس ہمت تھی کہ وہ اپنے خاندان کو چھوڑ چھاڑ کر نکل جاتی ہم دونوں حالات کے جبر کا شکار ہوگئے اس کی شادی ایک شیعہ لڑکے سے ہوگئی اور شاید اس نے بھی زندہ رہنے کے لئے ایک سمجھوتہ کرلیا۔ ہم سب کی زندگیاں سمجھوتوں کا ہی نام ہیں، خاص طور پر اگر آپ کا تعلق سماج کے نچلی پرت سے ہو۔

میں تھوڑے دنوں بے چین اوربے کل رہا۔ وقت بے وقت وہ سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی، میرے خوابوں کے جھروکوں میں میرے تصورکے پردوں میں رات کی تنہائیوں اور شام کے ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ ابھرتے ہوئے اندھیروں میں، میں اسے محسوس کرتا رہا اور پھر اس کا درد ایک لذت آمیز کسک کی طرح موجود تو رہا مگر آہستہ آہستہ میری بے چینی اور بے کلی کو جیسے قرار آگیا۔ یہ محبت اور لڑکیوں کے سلسلے میں میرا پہلا سمجھوتہ تھا۔

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے فوراً بعد مجھے سعودی عرب میں نوکری مل گئی۔ اتنی اچھی تنخواہ کا تو میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب پہنچ کر جلدی ہی میں اپنے گھروالوں کو سعود آباد کے پتلی اندھیری گلیوں سے گلشن اقبال کی چوڑی اور پکی سڑکوں پر بنے ہوئے کشادہ مکان میں لے آیا گھروالوں کو اچھا سایہ ملا تو انہوں نے میرے لئے لڑکی کی تلاش شروع کردی۔

ادھر سعودی عرب میں نہ جانے کیسے ایک مال میں برقعے میں لپٹی لپٹائی ہوئی ایک لڑکی کی ادا مجھے بھائی اور میں بھی اسے اچھا لگا کہ ہم دونوں دوستی کر بیٹھے۔ وہ بڑے خاندان کی شاندار لڑکی تھی۔ ایک پورا سال میں اس کے چکروں میں رہا۔ یہاں تک کہ جب وہ چھٹیوں میں پیرس گئی تو میں بھی منصوبے کے مطابق پیرس پہنچ گیا۔ دس دن پیرس اور اس کے نواح میں میں اسے پوجتا رہا وہ مجھے جلاتی رہی پھر ہم لوگ خواب بُنتے ہوئے، سپنے دیکھتے ہوئے سعودی عرب واپسی آگئے۔ سعودی لڑکی سے میرے جیسے پاکستانی بندے کی شادی ممکن نہیں تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح سے اپنے منصوبے پر عمل کروں کہ بُنے ہوئے خواب حقیقت میں بدل جائیں کہ وہ یکا یک غائب ہوگئی۔ نہ کوئی تعلق رہا اور نا کوئی طریقہ تھا کہ اسے تلاش کرسکتا۔

دیوانوں کی طرح اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی، حدود میں رہتے ہوئے جہاں جہاں اس کے ہونے کے امکانات تھے وہاں وہاں ٹکریں کھاتا رہا۔ فون سارے خاموش رہے، بڑے بڑے مال میں ایک جھلک کی خاطر بے مقصد گھومتا رہا، اس کی پسند کی جگہوں پر گھنٹوں پگھلتا رہا کہ شاید وہ نظر آجائے مگر وہ ایسی کھوئی کہ مل نہ سکی۔ سعودی عرب کے جنگل میں کچھ بھی ممکن تھا۔ کالے سونے کی دولت پر اُگا ہوا جدید محلوں، عمارتوں، ہائی ویز اور تجارتی اداروں کا سعودی عرب کسی جنگل سے کم نہیں ہے۔ جہاں روایت، انداز اور مذہب کے نام پر جنگل کے قوانین ہی لاگو ہیں۔ دل ایسا اچاٹ ہوا کہ میں نے سعودی عرب سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا اور جمع شدہ پونجی کے ساتھ نیویارک پہنچ گیا۔ اتنے ڈالر کمالئے تھے کہ امریکہ جانا میرے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

میرے جیسے آدمی کے لئے نیویارک میں کام کی کمی نہیں تھی۔ بہت جلد میں وہاں سیٹ ہو گیا۔ نیویارک میں شروع کی زندگی میں کام کے علاوہ کچھ بھی کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے لیکن جب مصروفیت سے فارغ ہوا اور مکمل طور پر مستحکم ہوگیا تو کچھ دوست اسے مل گئے جن کی پسنداور میرے مشغلوں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ شراب ایک ایسی چابی ہے جو ہر تالے کو کھول دیتی ہے۔

ادھر امی نے نئی لڑکیاں تلاش کرنی شروع کردی تھیں۔ پھر یہ ہوا کہ جن لڑکیوں کو میں نے پسند کیا ان کے خاندان والوں نے مجھے مسترد کردیا۔ اس طرح کا تجربہ تین دفعہ ہوا۔ جب بھی میں کسی نہ کسی طرح سے امی سے ملنے کراچی جایا کرتا تو رشتوں کا چکر شروع ہوجاتا۔ شاید قسمت کا پھیر تھا یا میری سادگی کہ میں لڑکی کے گھر والوں کو بتادیا کرتا تھا کہ میں تھوڑا بہت شراب پی لیتا ہوں اور نیویارک میں ہونے والی مذہبی سرگرمیوں سے میرا کوئی خاص واسطہ نہیں۔ شراب پینا شاید ایک بُرائی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ بولنا مجھے گوارا نہیں تھا۔ جھوٹ تو بہر حال بُرائی ہے۔ سچائی کی قیمت یہ ملی کہ کسی بھی جگہ میرا رشتہ طے نہیں ہوسکا۔

پھر یہ ہوا کہ امی یکا یک زندگی سے روٹھ گئیں۔ وہ کیا گئیں کہ جیسے سب کچھ چلا گیا۔ نہ مجھے پاکستان جانے کا شوق رہا اور نہ ہی بہنوں کے خطوں اور فون نے مجھے اتنا مشتعل کیا کہ میں شادی کرنے کراچی جاتا۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4