شوکت عزیز، بنکاری اور برآمدات


وزیرِ اعظم کی میٹنگ کا ماحول عمومی طور پر تنائو کا شکار رہتا ہے۔ اِس تنائو میں مزید شدت اُس وقت آتی ہے جب کسی وزارت کو اہم مسئلوں پر وزیرِ اعظم سے فیصلے درکار ہوں۔ وزیرِ اعظم کی میٹنگ میں خزانہ اور منصوبہ بندی کے علاوہ دُوسری متعلقہ وزارتوں کے وزراء اور سیکرٹریوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم تمام شرکاء سے رائے لینے کے بعد فیصلہ سُنا دیتے ہیں۔

2007ء کے اوائل میں میری تعیناتی وزارتِ ٹیکسٹائل میں بطور سیکرٹری انچارج ہوئی۔ میں اُس وقت گریڈ اکیس میں تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر کارکردگی اچھی رہی تو جلد ہی گریڈ بائیس بھی عطا ہو گا۔ کچھ ہفتوں بعد مجھے میٹنگ کے لئے بلایا گیا۔ وزیرِ اعظم کے ساتھ یہ میری پہلی میٹنگ تھی۔ اِس دلچسپ واقعہ کو قارئین کی نذر اِس لئے کر رہا ہوں کہ پاکستانی برآمدات کو درپیش مشکلات کی بنیادی وجہ عیاں ہوتی ہے۔

میٹنگ میں برآمدات کی بہتری کے لئے صنعت کاروں کی تجاویز پر غور ہونا تھا۔ حسب ِمعمول، ایکسپورٹرز مالی اعانت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مطالبات کا جائزہ لینے کے بعد شوکت عزیز کا پارہ چڑھ گیا۔ سرکاری میٹنگ میں نجی شعبے کے صنعت کار موجود نہ تھے۔ وزیرِ اعظم کھل کر اُن کے خلاف بولے۔ اُنہیں (Rent Seekers)، لگان وصول کرنے والوں سے تشبیہ دی۔ فرمایا، پاکستان کے برآمد کنندگان کسی قابل نہیں۔ دُنیا کی منڈیوں میں اِن کی مصنوعات نہ کوالٹی میں مقابلہ کرسکتی ہیں اور نہ قیمت کی بنا پر۔ اِنہیں ہمیشہ مالی امداد کی ضرورت رہتی ہے۔ جب تک وزارت خزانہ مدد نہ کرے، یہ کوئی شے برآمد کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے پر اُنہوں نے سب سے زیادہ تنقید کی۔

میں اسلام آباد میں نوآموز تھا۔ وزیر اعظم ہائوس کے آداب شاہی سے پوری واقفیت نہیں ہوئی تھی۔ اُن کی باتیں سُن کر میرا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ میرے پاس اُن سے اختلاف کے لئے معقول دلائل تھے۔ میں گزشتہ پندرہ سال سے بین الاقوامی تجارت سے متعلقہ اداروں، محکموں اور وزارتوں میں تعینات رہا تھا۔ مجھے پاکستان کے برآمدی شعبے کو درپیش مشکلات کا احساس تھا۔ ہمت کر کے وزیرِ اعظم سے کہا ’’سر! مالی امداد تو عارضی علاج ہے۔ اگر ہم نے بنیادی مسئلے حل نہ کئے تو ہماری برآمدات کبھی بھی عالمی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔‘‘ شوکت عزیز کو میری جرأت پر حیرت ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے سامنے پڑا ہوا کاغذ اُٹھایا جس پر صنعت کاروں نے اپنے مسائل کا حل تجویز کیا تھا۔ پھر طنزیہ انداز میں کہا اُن کے تمام مطالبات تو صرف مالی امداد کے گرد گھومتے ہیں۔ آپ کن بنیادی مسائل کی بات کرنا چاہتے ہیں۔

مجھے اللہ نے ہمت دی۔ اُن سے پوچھا ’’سر! آپ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بنکاری سیکٹر نے بہت ترقی کی ہے۔ بنکوں کی شرح منافع اور اسٹاک ایکسچینج میں اُن کے حصص کی قیمت نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔‘‘ میری بات سُن کر اُنہوں نے اطمینان سے سر ہلایا۔ یہ اُن کی تعریف نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار تھا۔ میں نے جرأت رندانہ کے ساتھ بات جاری رکھی ’’سر! اگر آج کوئی بنک یہ فیصلہ کرے کہ پچاس نئی برانچیں کھولنا ہیں تو اُسے متعلقہ ہُنر رکھنے والے مطلوبہ افراد کے لئے اخبار میں اشتہار دینا ہو گا۔ ایم اے (معاشیات)، بی بی اے، ایم بی اے، کمپیوٹر پروگرامر، ڈیٹا انٹری آپریٹر اور اکائونٹس کے مختلف شعبوں کے ماہر افراد سے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ ہر ایک اسامی کے لئے درجنوں افراد دستیاب ہوں گے۔ اُن کے پاس مختلف یونیورسٹیوں، تعلیمی اداروں اور تکنیکی درسگاہوں کی ڈگریاں ہوں گی۔ ہر ادارے کی ساکھ کے بارے میں سب کو علم ہوتا ہے۔ ڈگری یا سرٹیفکیٹ پر اُمیدوار کی قابلیت بھی لکھی جاتی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ بنک کے کاروبار کو بڑھانے کے لئے تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ افرادی قوت دستیاب ہے۔‘‘ اِس مرحلے پر شوکت عزیز نے مجھے روک کر کہا ’’ہم بینکنگ کی نہیں، ٹیکسٹائل کی بات کر رہے ہیں۔‘‘

میں نے پھر ہمت کی۔ ’’سر! اگر پاکستان میں کوئی شخص گارمنٹس کی مربوط فیکٹری لگانا چاہے تو اُسے بھی مختلف قسم کے ہنرمند افراد کی ضرورت ہو گی۔ ایسی فیکٹری میں کپڑا کاٹنے، ضیاع سے بچانے، کالر بنانے، کوالٹی کنٹرولر، کارڈنگ ماسٹر، ڈائنگ ماسٹر، اسٹیچرز اور پیکنگ ماسٹر، کام کرتے ہیں۔ اگر اِن ہُنرمند افراد کے لئے اخبار میں اشتہار دیا جائے تو جو اُمیدوار درخواست دیں گے اُن میں کسی کے پاس درسگاہ کا سرٹیفکیٹ یا ڈپلومہ نہیں ہو گا کیونکہ کوئی ایسی درسگاہ قائم ہی نہیں ہوئی۔ اگر اُن میں سے کوئی کام جانتا ہے تو اُس نے ٹامک ٹوئیاں مار کر کسی فیکٹری میں تجربہ حاصل کیا ہو گا۔ اُس کی حقیقی صلاحیت کا حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ نیا صنعت کار صرف ایسے افراد حاصل کر سکتا ہے جو اُس کی فیکٹری میں کام سیکھیں، غلطیاں کریں اور پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنیں۔ اِن حالات میں صنعت کار، حکومت کی مالی امداد کے بغیر عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کرسکتے۔‘‘ میں نے مثال دی کہ صرف شنگھائی میں سینکڑوں انسٹیٹیوٹ ہیں جہاں باقاعدہ تربیت دے کر جدید مشینوں پر یہ ہُنر سکھائے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی امداد سے تاجر تنظیمیں ٹریننگ کے ادارے قائم کرتی ہیں۔ اُن اداروں کا انتظام برآمد کنندگان کے پاس ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق تربیت دے کر ہُنرمند افراد تیار کرتے ہیں۔

شوکت عزیز صاحب میری بات سُن کر سوچنے لگے تو مجھے موقع مل گیا۔ اجازت لی کہ ہُنرمند افراد کی کمی پوری کرنے کے لئے چین کی مدد سے ادارے قائم کئے جائیں۔ مختصر گفتگو کے بعد اجازت مل گئی۔ اُن دنوں ہمارے پاس کامرس گروپ کی ایک قابل افسر، رخسانہ شاہ جو اب ریٹائر ہو چکی ہیں، وزارتِ ٹیکسٹائل کے ایک پراجیکٹ، لاہور گارمنٹ سٹی کی انچارج تھیں۔ اُنہیں فوری طور پر چین بھیجا گیا کہ وہ متعلقہ تربیتی اداروں سے باہمی اشتراک کے معاملات طے کریں۔ قصہ مختصر وہ چند ہفتوں میں شنگھائی یونیورسٹی اور دُوسرے اداروں کے ساتھ باہمی رضامندی کا (MOU) ایم او یو طے کر آئیں۔ معاہدے کے مطابق چین کے ادارے پاکستانی ہُنرمندوں کی تربیت کرنے پر رضامند تھے۔ اِس کے علاوہ چینی ماہرین پاکستانی ورکرز کی تربیت کے لئے پاکستان آنے پر بھی تیار تھے۔ اِس تربیت کے لئے رقم درکار تھی۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں، برآمدات کی آمدن سے کٹوتی کر کے، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ قائم ہے۔ اِس فنڈ میں جو رقم جمع ہوتی ہے قانونی طور پر وہ برآمد کنندگان کی ملکیت ہے۔ ایف بی آر برآمدات کی آمدن میں مخصوص شرح سے کٹوتی کر کے، رقم وزارتِ خزانہ کے پاس جمع کروا دیتا ہے۔ وزیر تجارت کی سربراہی میں ایک کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ رقم کہاں خرچ کی جائے۔ اِس کمیٹی میں برآمدی تنظیموں کے سربراہان کو نمائندگی حاصل ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ آج تک جتنی رقم اِس فنڈ میں جمع ہوئی اُس کا شاید ایک تہائی ہی برآمد کنندگان کو فراہم کیا گیا، باقی رقم وزارتِ خزانہ ہضم کر گئی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

قصہ مختصر، چین کے ساتھ اِن معاہدوں پر عمل درآمد اِس لئے نہ ہو سکا کہ مطلوبہ رقم میسر نہ تھی۔ آج بھی ہمارے پاس ٹیکسٹائل یا گارمنٹس کی صنعت کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت دستیاب نہیں۔ یہ واقعہ، مجھے چند ہفتے پہلے اِس لئے یاد آیا کہ فرانس کے اشتراک سے ایک نئی بیڈ ویئر فیکٹری کا افتتاح ہوا۔ ایکسپورٹ کے لئے مشکل حالات میں نئی فیکٹری کا قیام، بیڈ ویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ شبیر صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے۔ فرانس کے سفیر مہمان خصوصی اور بشیر علی محمد جیسے نامور صنعت کار بھی تقریب میں شریک تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج بھی مقامی انڈسٹری کو ہُنرمند افراد سری لنکا اور انڈونیشیا سے دُگنی تگنی تنخواہ پر، درآمد کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں ڈائنگ ماسٹرز (Dying Masters) کے لئے کوئی تربیت گاہ نہیں۔ بشیر علی محمد نے ذاتی تجربے پر مبنی واقعہ سنایا۔ اُنہوں نے سری لنکا سے دس ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ پر ایک ماہر کی خدمات حاصل کیں۔ اُس کی مہارت تھی کہ فیکٹری فلور پر کارکردگی بہتر بنانے سے مصنوعات کی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی آئی۔ مگر ایک دُوسری فیکٹری کے مالک نے اُسی ماہر کو پندرہ ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ کی پیش کش کی جسے وہ ٹھکرا نہ سکا۔ اگر پاکستان میں سرکاری سطح پر ایسے تربیت یافتہ ماہر تیار کئے جائیں تو شاید ایک تہائی تنخواہ پر دستیاب ہوں۔

پاکستان کے برآمدی شعبے کو صرف افرادی قوت کی کمی کا سامنا نہیں مگر ایک کالم میں اُن کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ اِن کا ذکر پھر کبھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood