اک نعرہ لگانا چاہتا ہوں


انتخابات دوہزار اٹھارہ کی آمد آمد ہے۔ سیاسی نعروں کی بہار آچکی ہے ہر کوئی عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے نت نئے نعرے تیار کررہا ہے۔ ایسے موقع پر میں بھی ” اک نعرہ لگانا چاہتا ہوں“کہ نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی آنی ہے سب ایسے ہی چلتا رہے گا سارے نعرے فضول ہیں عوام کو بے وقوف بنانے کے بہانے ہیں۔

الیکشن ہوں یا سلیکشن عوام کے لئے سب دھوکے اور فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔  ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن ابھی سے دھاندلی کی صدائیں بلند کررہی ہے جس طرح ن لیگ کے رہنما وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں اور  نیب اور دیگر اداروں نے جس طرح ن لیگ کا گھیراؤ کیا ہے وہ ظاہر کررہا ہے کہ تمام توانائیاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو یہ باآور کرنے میں صرف ہورہی ہیں کہ اب کوئی اور آئے گا تم لوگ حزب اختلاف میں بیٹھنے پر قناعت کرلو۔ جبکہ تیس سال تک کراچی پر راج کرنے والی شہر قائد  کی سب سے بڑی جماعت  ایم کیو ایم تقسیم ہونے کے ساتھ ساتھ اب خاتمے کی جانب گامزن ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

پیپلز پارٹی ویسے ہی اب سکڑ کر سندھ تک محدود ہو چکی ہے اور ایک طویل عرصے  تک وفاق کی جماعت کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت سنبھالنے کے باوجود کافی بے اثر دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں  سب سے اوپر جو سیاسی جماعت دکھائی دیتی ہے وہ ہے پاکستان تحریک انصاف۔ جس میں باقی تمام پرانی پارٹیوں کے ہیرے شامل ہورہے ہیں یا کیے جارہے ہیں۔ کیے جارہے ہیں اس لئے کہا کہ  خان صاحب جو نعرے بائیس سال تک لگاتے رہے اور خاص طور پر گذشتہ پانچ سال سے جو دعوے کرتے رہے اب ان سب کو بھلا کر ان ہی لوگوں کے سایہ میں آچکے ہیں جو اس سے قبل اپنے پرانے آقاوں کے بھی ایسے ہی وفادار اور تابعدار تھے جیسے آج خان صاحب کے دکھائی دیتے ہیں۔

ان میں سے اکثر تو کئی بار پرانے آقاؤں  کے دور حکومت میں وزارتوں کے مزے بھی لوٹ چکے ہیں۔ یہی لوگ آج تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے پرجوش انداز سے لگا رہے ہیں۔ ان ہیروں میں شاید ہی کوئی نچلے یا متوسط طبقے سےبھی ہو۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی لانے والے ہوتے تو خان صاحب کو کیا ضرورت تھی جو بائیس سال تک کرپشن کو روتے رہتے۔ اور تو اور عمران خان بھی شاید خود کو اگلا حکمراں تصور کرنے لگے ہیں حال ہی میں عمرے پر روانہ ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص کو ساتھ لے جانے پر مصر رہے جس کا نام ای سی ایل میں ہےاور وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتا لیکن خانصاحب تمام قوانین کو بالائے طاق لاتے ہوئے ایک نیب زدہ آف شور کمپنی کے مالک کو اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے تمام قوانیں اور اپنے اسٹیٹس کو کے خاتمے کے نعرے کو پس پشت ڈالتے ہوئے زلفی بخاری کو  عمرہ کرانے لے ہی گئے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خانصاحب نے چھ افراد کے عمرے کے لئے چارٹرڈ طیارہ بک کرایا جس کا کرایہ آٹھ لاکھ روپے گھنٹہ بتایا جاتا ہے اور ان کی یہ عبادات ایک کروڑ سے زاید کی ہوئیں جبکہ خانصاحب کا ذریعہ معاش ایک سوالیہ نشان ہی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان آگے آنے والے دنوں میں مسند اقتدار پر بیٹھنے کی صورت میں  عوام ہر کتنے مہنگے پڑنے والے ہیں۔ واہ کیا کمال تبدیلی ہے۔ کچھ روز قبل  ہی عمران خان تبدیلی ٹرین میں حیرت انگیز طور پر ایک ایسے شخص کو تحریک انصاف کی مالا پہنا ڈالی جو ماضی کی ایک  مشہوراداکارہ کے ریپ کیس میں سزایافتہ ہے۔

ایسے ہی جناب عامر لیاقت اور ایسے اور بہت سارے ہیرے بھی وقتا فوقتا تحریک انصاف کے جھنڈے تلے  جمع ہورہے ہیں۔ اب اگر اس پر موضوع پر بات کریں  تو خان صاحب فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ ن لیگ پی پی پی یا دیگر جماعتوں میں تھے تو کوئی تنقید نہیں کرتا تھا۔ تو خان صاحب اور ان کے بزرج مہر اور ہمدرد یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ جماعتیں صحیح تھیں تو آپ کی تبدیلی اور نئے پاکستان کو کون گھاس ڈالتا۔

عمران خان کی دوسری سابقہ بیگم صاحبہ کی کتاب کی آمد سے قبل ہی تحریک انصاف بہت حد تک پرانی متحدہ قومی مومنٹ کی طرح اپنے بانی وقائد کے دفاع میں میدان میں آچکی ہے۔ یادش بخیر جب بانی متحدہ لندن سے کچھ عجیب و غریب کہہ دیتے تھے تو پوری رابطہ کمیٹی ان کے دفاع میں یک زباں دکھائی دیتی تھی۔ الٹی سیدھی تاویلوں سے موصوف کی وضاحت کی جاتی تھی۔ اب اسی طرز پر تحریک انصاف کے جانثار ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے عجیب و غریب منطق اپنا رہے ہیں۔ خان صاحب کے حلقہ بردار ان کی دوسری سابقہ منکوحہ کو ایسے ایسے القابات و الزامات سے نواز رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ اگلی حکومت بننے پر ان کی اسی پرفارمنس کے بدلے میں ان کی اہم وزارتوں پر تعیناتی ہوگی۔

اب تو سابق چیف جسٹس چوھدری افتخار صاحب نے بھی سیتا وائٹ اور ان کی صاحبزادی کو انصاف دلانے کا اعلان کردیا ہے اب جلد ہی ہم ایک نیا طوفان بدتمیزی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت بنتے دیکھیں گے۔ الیکشن دوہزار اٹھارہ کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے کیونکہ ملک میں پہلی بار جمہوریت تسلسل کے ساتھ اپنے سفر پر گامزن ہے۔ کوئی ووٹ کو عزت دو کے نعرے بلند کررہا ہے تو کوئی دو نہیں ایک پاکستان کا پرچار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر ابھی تک کسی نے پانی کے اہم مسئلے پر موثر بات نہیں کی۔

کسی نے اپنے منشور میں  نئے ڈیموں کو شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس وقت جوملک کے حالات ہیں انہیں  دیکھ کر کون یقین کرے کہ ایک کروڑ نوکریاں غریبوں کو ملیں گی پچاس لاکھ گھر بنیں گے روپے کی قدر میں استحکام آئے گا لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوسکے گا ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی اور یہ سب معجزے پانچ سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں  کہ  ملک ایک اور تجربے کی نظر ہونے جارہا ہے۔

موجودہ حالات میں تو میں ایک نعرہ لگانا چاہتا ہوں کہ شکلیں نہیں نظام بدلو ورنہ صرف نعرے ہی لگتے رہیں گے۔ ہر کوئی صرف اپنی باری کے چکر میں لگا رہے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام سیاستدانوں سے مزید متنفر ہوکر جمہوریت اور اس جمہوری عمل جسے انتخابات کہتے ہیں سے بددل ہوکر تمام کھوکھلے نعروں اوراس تمام تماشے جس میں کروڑوں روپے اس لئے خرچ کیے جاتے ہیں تاکہ وہ معصوم عوام سے ٹیکس کی مد میں وصول کرکے ریکوری کی جائے  کہیں انے والے دنوں میں عوام اس تماشے کو نورا کشتی سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).