سیاست اور نئی نسل کا المیہ


بچے بڑے ہوگئے، اب بہت کچھ سمجھ بھی گئے، ان کا شمار بالغوں میں ہونے لگا، ووٹ بن گیا اور ملکی حالات پر اچھی بری رائے بھی رکھتے ہیں۔ نئی پود کی بنیاد بنانے میں اگرچہ سماج بہت زیادہ معاون اور مددگار کبھی نہیں رہا، اس کی وجہ ہمارے سماج کی اپنی جڑوں میں نظریے اور سوچ کے کھوکھلے پن نے اسے نہ تو مضبوط بننے دیا اور نہ ہی آنے والوں کو بہتر راہ دکھائی۔ جس کو کوئی اچھی بات ملی اس نے راستہ دیکھ لیا، کسی کو کچھ اور ملا وہ اسے تھام کے آگے چل پڑا۔

یہ کام راہ نما کا ہوتا ہے، کہنے کو بے شمار ہیں۔ مگر درست سمت کا تعین کرنے والے مفادات کی جنگ جیتنے والوں کی رکاوٹوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جنہیں راستے کے نشان بھی دکھا دیں پھر بھی بداعتمادی کے مارے یقین نہیں کرتے اور منزل سے بھٹکے رہتے ہیں۔

70 کی دہائی اس اب تک تیسری نسل جوان ہوگئی جس نے ملک میں سیاست اور جمہوریت کی نامکمل اور عجیب وغریب کہانیاں سن لی ہیں۔ یہ نسل بھی نعروں اور بڑی بڑی باتوں میں درست اور غلط کا فرق معلوم کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔

انسان بنیادی طور پر مطلب پرست ہوتا ہے اس کی ضروریات پوری ہوجائیں وقتی طور پر مطمئن ہوجاتا ہے۔ اور یہی زندگی کا بھی اصول ہے۔ جسے سیاست میں بڑے بہتر انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل نظریے کی بنیاد بھی اسی پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے دلیلیں ڈھونڈی جاتی ہیں، اس کے عمل کی حقیقی وجوہات سامنے رکھنا پڑتی ہیں۔ محض اس سوچ کو نظریہ بنالیا جائے کہ یہ کام انسان کی ضرورت ہے اور پھر کوئی بھی عمل کرکے اسے ضرورت کا نام دیا جاسکتا ہے۔

سیاست، لوگوں کو ساتھ لے کر عمل کرنے کا نام ہے۔ جس کے لیے درست سوچ اور فکر کا ہونا لازمی جزو ہے۔ ملک میں تنظیم سازی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کے نتیجے میں ریاست کا نظام سنبھالنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی شرکت ایسے ہی جیسے کسی بچے کو بغیر پڑھائے عمر کے ایک خاص حصے پر اعلیٰ امتحان میں بٹھا دیا جائے، جس نے بنیادی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو۔

سیاست میں کوئی صنعتکار، کوئی کاشتکار، کوئی بنکار، کوئی تاجر، کچھ سرکاری ملازم   ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی خاص کام نہیں کیا وہ بھی آگئے اور پھر ملک کا نظام سنبھالنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آجاتی ہے۔ ایک بڑی تعداد موروثی سیاستدانوں کی ہے، اس کی وجہ یہ کہ ان کے خاندانوں کو سیاست کی مکمل سوجھ بوجھ ہے اس لیے ان کے بچے بھی نسل درنسل اس شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ ان کی کسی حد تک سیاسی تعلیم وتربیت ہوجاتی ہے۔

ایک لفظ جمہوریت کا بھی بہت شور ہوتا ہے، جس کا تکرار سے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کیا ہے؟ کس بلا کا نام ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟ ہر کوئی بات کرتا ہے۔ مگر بتاتا نہیں۔ دکھاتا نہیں۔ شاید اسے دکھانے کیلئے کچھ جتن کرنا درکار ہیں۔ اس میں دوسرے کو سننا پڑتا ہے۔ رائے کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک خیال کو مسترد کرکے اجتماع کی سوچ کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ یہ تھوڑا مشکل اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔

اب تو جمہوریت کی تعریف بھی نئی نسل کو بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی رائے رکھتی ہے۔ وہ اپنی راہ متعین کرنے کیلئے کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ انہیں پرکشش چیزیں دکھائی جاتی ہیں لیکن انہیں سیاست کا سبق نہیں سکھایا جاتا انہیں ایسی ترغیب نہیں دی جاتی کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور ملک کا انتظام وانصرام سنبھالنے میں ساتھ دیں۔

جمہوریت محض ایک نعرہ ہے جس کے معنی بھی ہم بھول چکے ہیں۔ عوام کو حق حکمرانی دینا اب کسی کتاب میں نہیں لکھا۔ جسے پڑھ کر نئی نسل یہ حق ہی نہ مانگ لے۔

نظریہ اور عمل کی باتیں کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ ریاست کے ادارے ہی ریاست کا سہارا نہیں بن سکے۔ انہوں نے جب چاہا اپنی حاکمیت کو منوایا اور اسی عمل کے دوران جمہوریت کو شجر بے سایہ بنا ڈالا۔ جو صرف ایک علامت کے طور پر رہ گئی۔ جس کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ مگر اس کے فائدے نہیں بتائے اور دکھائے جاسکتے۔

نئی نسل کس سے سوال کرے کس سے گلہ کرے۔ آج ملک میں سیاست زیربحث آتی ہے۔ وہ کس کی سوچ اور نظریے کا ساتھ دیں کس کا جھنڈا تھامیں۔ انہیں مطمئن کرنے کیلئے ہر سیاسی گھرانے نے بھی اپنی نئی نسل متعارف کرادی ہے۔ کیا نوجوان چہرے آجانے سے بات بن جائے گی۔ کیا اسے تبدیلی کہا جائے گا۔ ملک بدلنے والوں نے بھی پرانے چہرے ساتھ ملالیے کیونکہ جیت ضروری ہے۔ کیونکہ نئے لوگ شکست کا باعث بن سکتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے کارکن کم ان کے ہمدرد اور وابستگان زیادہ ملیں گے۔ کارکن کو پارٹی پالیسی کا پروگرام کا علم ہوتا ہے جس کی وضاحت کرسکتا ہے۔ باقی لوگوں کی جذباتی وابستگی ہوتی ہے وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ انہیں پارٹی قیادت کے دفاع میں مخالف لیڈر کی ذاتی زندگی اور معاملات سے زیادہ جانکاری ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے بحث میں وہ اپنے لیڈر کا دفاع مخالف پر کیچڑ اچھال کر کرتے ہیں۔ بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے اس میں سیاست کا کہیں بھی ذکر نہیں ہوتا۔ ملکی مسائل کیا ہیں، آگے چل کر کیا کچھ چاہیے، سب کا حل کیا ہے۔ کوئی واضح جواب نہیں دے پاتا۔ ایک پارٹی کے لیڈر نے کہہ دیا ڈیم ضروری ہے تو کارکن ہم زبان ہوگئے۔ مخالفت کرنے والوں نے عیب نکالنے شروع کردیئے۔

نئی نسل کو زیادہ دیر لاعلم نہیں رکھا جاسکتا۔ اب وہ دور گزر گئے ایک کہانی بنائی اور کئی برسوں تک چلتی رہی۔ وہ جانتے ہیں کیا ہورہا ہے صرف سیاست کے بنیادی اصول جان لیں پھر وہ سمجھ جائیں گے ان کے ساتھ کیا کیا جارہا ہے۔ ابھی صرف انہیں اس بات کی کنفوژن ہے کہ اپنا ووٹ کس کو دیں۔ کیونکہ کوئی تبدیلی کا نعرہ لگارہا اور کوئی مظلومیت کی صدا بلند کررہا ہے۔ کسی نے جمہوریت کا جھنڈا اٹھایا ہے کوئی دین کے نام پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ شاید فیصلہ ان کے لیے مشکل ہو لیکن ان سے باہر ابھی کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس کے لیے نوجوان نسل کو مستقبل کیلیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ وہ اسی صورت ممکن ہے کہ وہ حالیہ انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں اور سیاست اور جمہوریت کے اس راز کو سمجھیں جسے مفادات کی خاطر چھپایا جاتا ہے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar