جسٹس فائز عیسیٰ کا نوٹ تازہ ہوا کا جھونکا


یہ حقیقت ہمارے کوتاہ ذہن سیاست دان ابھی تک دریافت نہیں کر پائے ہیں کہ 1973ء میں جو آئین منظور ہوا تھا اپنی روح عرصہ ہوا کھو چکا ہے۔ اس آئین میں آرٹیکل 6 کے ہوتے ہوئے بھی 5 جولائی 1977ء ہوا تھا۔ جنرل ضیاءکے فوجی ٹیک اوور کو عدلیہ نے جائز ٹھہرایا اور اسے یہ حق بھی فراہم کردیا کہ وہ ملک اور قوم کے مفاد میں اس آئین میں جو بھی ترمیم کرنا چاہے بیک جنبش قلم متعارف کروا سکتا ہے۔

عدلیہ سے یہ حق حاصل کرنے کے بعد جنرل ضیاء نے 1973ء کے آئین کو عملی اعتبار سے صدارتی بنا دیا۔ پارلیمان کی بالادستی ایوان صدر میں بیٹھے شخص کے بے پناہ اختیارات تلے دب کر معدوم ہوگئی۔ بااختیار صدر کی عدم موجودگی میں بھی عدلیہ اور عسکری ادارے پارلیمانی بالادستی کے تصور سے ناآشنا رہے۔ آئین کے آرٹیکل 58(2)B کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر فارغ کیا گیا۔ یہ فراغت بھی مطمئن نہ کر پائی تو  12 اکتوبر 1999ء کی شب جنرل ضیاء کا دور واپس آ گیا۔

میری رائے میں جنرل ضیاء کے دور کے طے شدہ اصول آج بھی ہمارے آئین کی اصل روح ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی ہی میں پارلیمان کو ”چوروں اور لٹیروں“ کی آماجگاہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اراکین کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وہ سو طرح کے مسائل میں گھرے پاکستان کے لئے دور رس پالیسیاں مرتب کر سکیں۔ خاص طورپر ان شعبوں میں جو براہِ راست خارجہ امور اور دفاع سے متعلق ہیں۔

1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنے سے قبل جنرل ضیاءنے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کردیا تھا کہ اس کا مقصد منتخب حکومت کو اختیارات کی منتقلی نہیں ہے۔ اصل مقصد عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو ریاستی اختیارات میں کچھ حصہ دینا ہے۔

سیاست دانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لئے جنرل ضیاء نے ہمارے دین کے چند ارفع ترین تصورات کو بھی انتہائی بے دردی اور مکاری سے ہمارے آئین کا حصہ بنا دیا تھا۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں صادق اور امین جیسے مقدس الفاظ کا اضافہ اسی سوچ کی دین ہے۔ ان الفاظ کے ہوتے ہوئے کوئی بھی سیاستدان تواتر کے ساتھ انتخابات میں بھاری اکثریت سے پارلیمان میں پہنچ جانے کے بعد بھی خود کو محفوظ محسوس نہیں کر سکتا۔

62/63 کو ”انسانی“ اور زمینی حقائق کے قریب لانے کا تاریخی موقع 2008ء میں قائم ہوئی پارلیمان کو بہر صورت ملا تھا۔ اس پارلیمان میں دین کے نام پر سیاست کرنے والے مولانا فضل الرحمن موجود تھے اور سکیولر سیاست کے نمائندہ افراسیاب خٹک اورحاصل بزنجو بھی۔ پیپلز پارٹی خود کو روشن خیال کہتی تھی اور نون کے لاحقے والی مسلم لیگ ”خالص جمہوریت“ کی چمپئن۔ وہ سب یکجا ہوکر بھی لیکن آئین کے آرٹیکل 62 / 63 کی جڑوں میں چھپائی بارودی سرنگوں کو دریافت نہ کر پائے۔ اپنی تمام تر توجہ صدارتی اختیارات کو وزیر اعظم کے دفتر منتقل کرنے تک محدود رکھی۔

جھوٹی اور چھوٹی اناﺅں کے اسیر سیاست دانوں نے یہ احساس بھی نہ کیا کہ صدارتی منصب کو کمزور کرنے سے جو ”خلا“ پیدا ہو رہا ہے اسے افتخار چودھری کی متحرک عدلیہ بہت تیزی سے پر کر رہی ہے۔ اپنے مخالف سیاست دانوں کو پارلیمان کے اکھاڑے میں یا عوامی تحریک کے ذریعے زچ کرنے کے بجائے وہ ان کے خلاف مواد لے کر براہِ راست سپریم کورٹ جانا شروع ہوگئے جہاں افتخار چودھری نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ملے از خود اختیارات کو بہت بے دردی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔

ہمارا آزاد اور بے باک میڈیا جس نے وطنِ عزیز کو بدعنوان سیاست دانوں سے پاک کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے جسٹس چودھری کا گرم جوش سہولت کار بن گیا۔ سیاست دانوں کے اعمال اور جمہوری عمل کی سست روی کی وجہ سے خلقِ خدا کے دلوں میں سلگتی آگ متحرک عدلیہ اور خود کو بہت ہی بے باک تصور کرتے میڈیا کی معاونت سے بھڑک اُٹھی۔ سیاست دانوں کو ان کی اوقات میں رکھنے کے لئے 58-2(B) کی جگہ آئین کے آرٹیکل 184(3) نے لے لی۔ میرا نہیں خیال کہ کم از کم میری زندگی میں اب کوئی ایسی پارلیمان آئے گی جو متفقہ طورپر اس نئی صورتِ حال سے نبردآزما ہوکر اپنی بالادستی کا احیاء کر سکے۔

اختیارات کا مرکز بنی عدلیہ کے متحرک اقدامات اکثر صورتوں میں سیاستدانوں سے اُکتائی خلقِ خدا سے واہ واہ کہلواتے ہیں۔ اس واہ واہ کے باوجود خلقِ خدا کی تمام توقعات پوری نہیں کی جا سکتیں۔ عوامی مشکلات کا واحد حل فقط چیک اور بیلنس کا وہ نظام ہی مہیا کرسکتا ہے جو پارلیمان کو انتظامی اداروں پر بالادست بنائے۔ پالیسی سازی بھی بالآخر اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔ ان پر عمل صرف ریاستی انتظامیہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ متحرک عدلیہ ہمارے تمام مسائل کا حل فراہم کر ہی نہیں سکتی۔ ”عدلِ جہانگیری“ کے قصے، کہانیوں اور فلموں ہی میں دل کو خوش کرتے ہیں۔ 22 کروڑ آبادی والے ملک میں ہر شہری کا ویسے بھی براہِ راست سپریم کورٹ کے روبرو اپنی فریاد لے جانا ممکن نہیں۔ ہمیں ضلعی سطح پر موثر انتظامیہ درکار ہے اور انصاف فراہم کرتی نچلی سطح کی عدالتیں۔ ریاستی اختیارات اور انصاف فراہم کرنے کے نظام کو اعلیٰ ترین عدالت تک محدود کر دینے میں سو قباحتیں ہیں جو بتدریج نمودار ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو ریاستی اختیارات کا حقیقی مظہر سمجھتے ہوئے خلقِ خدا کی پوری توجہ اس کی جانب مبذول ہوچکی ہے۔ اس کے ہر فیصلے پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ ارتکاز توجہ کی اس حقیقت کی وجہ ہی سے شیخ رشید کو صادق وامین ٹھہرائے جانے کے بعد کئی سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ قانونی موشگافیوں سے نابلد میرے اور آپ جیسے عامی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کیوں نااہل ہوئے اور تقریباَ ان کے خلاف لگائے الزامات سے ملتے جلتے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے عمران خان، خواجہ آصف اور شیخ رشید کیوں اہل قرار پائے۔

اندھی نفرت اور عقید ت میں منقسم ہوئے تلخ ماحول میں ایسے سوالات خاص کر انتخابی موسم میں مزید شدت سے اٹھیں گے۔ افتخار چودھری عمران خان کے حوالے سے جو گڑا مردہ اکھاڑنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ اس شدت میں مزید اضافہ کرے گا۔ شیخ رشید کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ ہی کے ایک معزز جج جناب فائز عیسیٰ قاضی نے جو اختلافی نوٹ لکھا ہے وہ میری ناقص رائے میں اس تلخ ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے۔ ان کی رائے اور تجویز پر کھلے ذہن سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاست دان اپنا کام نہیں کر پائے ہیں۔ اپنے کئی اختیارات انہوں نے برضا اور خوشی سپریم کورٹ کے سپرد کر دئیے ہیں۔ اس عالم میں سپریم کورٹ کے لئے ضروری ہے کہ اپنا وقار وتکریم اور غیر جانب داری اجاگر و برقرار رکھنے کے لئے اپنے تمام ججوں پر مشتمل ایک بنچ بنائے اور واضح الفاظ میں 62/63 کی حدود و قیود کو طے کر دے۔ اس بنچ کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ازخود اختیارات کا استعمال کن صورتوں میں ضروری ہوگا۔ یہ سب کئے بغیر اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے تقدس وتکریم کے لئے بھی نہایت تباہ کن ثابت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).