ہلال عید پر ملا کا اجارہ اور جمہوریت پر شب خون کی پرچھائیاں


عید الفطر کا تہوار گو کہ خوشیوں کا موقع ہوتا ہے لیکن مسائل، اختلافات اور تنازعات میں گھری پاکستانی قوم کے لئے اب یہ موقع مل کر خوشیاں منانے سے زیادہ ان مباحث کی بنیاد بن چکا ہے کہ کیا یہ تہوار درست روز منایا گیا ہے یا اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی سے کوئی بھول ہوئی ہے۔ مفتی منیب الرحمان کی زیر قیادت کام کرنے والی رویت ہلال کمیٹی نے اگرچہ متفقہ طور پر جمعرات کو عید کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان میں ہفتہ کے روز عید منانے کا اعلان کیا تھا لیکن حسب روایت پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے علما کو شوال کا چاند نظر آنے کی درجن بھر سے زائد شہادتیں موصول ہو گئی تھیں اور وہاں سے جمعہ کو عید منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس طرح کئی برس کی یہ روایت برقرار رہی کہ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں میں عید باقی ملک سے ایک روز پہلے ہی منالی گئی۔ تاہم اس بار یہ تنازع صرف پشاور کی ایک مسجد سے ہونے والے اختلافی اعلان تک محدود نہیں رہا بلکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کو ماننے والے لوگ بھی ملک بھر میں اس فیصلہ کے بارے میں اختلافات کا شکار رہے۔

کسی کے پاس اس اختلاف کی کوئی دلیل ہو یانہ ہو لیکن ملک کے علمائے کرام چاند کی رویت کے حوالے سے سائینسی طریقہ سے اختلاف کرتے ہوئے خود اس کا جواز فراہم کرتے ہیں کہ لوگ شبہات کا شکار ہوں اور اس معاملہ میں تنازعہ سامنے آئے۔ دنیا کے متعدد اسلامی ملکوں میں ماہرین فلکیات کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق چاند کی رویت کا فیصلہ کرکے سال بھر کا کیلنڈر تیار کر لیا جاتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں یہ خوشی کا معاملہ بھی تنازع اور بد گمانی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ رویت کے کارپردازوں سمیت دیگر علمائے کرام اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ انسانی آنکھ کے چاند دیکھے بغیر کسی اسلامی مہینے کا آغاز نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے مفتی منیب الرحمان چاند کی رویت کے لئے جہازی سائز دوربینوں کی مدد سے شہر کی کسی بلند عمارت سے چاند کو تلاش کرنے کی مشقت کرنے کے بعد اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ عید کس روز ہو گی۔ حالانکہ اس بارے میں ماہرین نے فول پروف حساب بنا کر یہ طے کر رکھا ہوتا ہے کہ چاند کس دن انسانی آنکھ کے دیکھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ سائینس پر فرد کی گواہی کو ترجیح دینے پر اصرار کی وجہ سے ہر ماہ رمضان اور عید الفطر کے موقع پر اس قسم کی سرگرمی بھی دیکھنے میں آتی ہے اور اس پر اختلافات بھی سننے کو ملتے ہیں۔

یہ منطق بھی ناقابل فہم ہے کہ جب علمائے کرام یہ طے کر چکے ہیں کہ جس علاقے میں چاند نظر آجائے وہاں اسلامی ماہ کا آغاز ہو گا اور جہاں نئے ماہ کا چاند دکھائی نہ دے وہ لوگ ایک روز مزید انتظار کریں گے۔ اس اصول کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں عام طور سے مختلف دن رمضان کا آغاز ہو تا ہے اور عید بھی مختلف دن منائی جاتی ہے۔ یہ اصول مانتے ہوئے نہ جانے یہ کیوں طے کرلیا گیا کہ پاکستان چونکہ آئینی لحاظ سے ایک ملک ہے اس لئے اس کے تمام علاقوں میں ایک ہی روز چاند رونما ہونا چاہئے اور اسی کے مطابق روزے رکھنے یا عید منانے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اگر ملک کے علما اور عوام اس سادہ اصول کو ہی مان کر اپنی اپنی صوابدید کے مطابق اپنے اپنے علاقے میں یہ تہوار منانے کا اہتمام کرلیا کریں تو یقین مانیں کہ قومی یک جہتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ اس سے ایک ایسی قومی ہم آہنگی پیدا ہو سکے گی جس میں کہا جاسکے گا کہ اس خطے کے لوگ ایک دوسرے کی رائے اور فیصلہ کا احترام کرتے ہیں اور ہر طرح کے فیصلہ پر خوش اور راضی ہوتے ہیں۔ لیکن جس ملک کے علما نے سائینس کے مسلمہ طے شدہ اور آزمائے ہوئے طریقہ کو ماننے سے انکار کیا ہو، ان سے سماجی اور انسانی مزاج کی متنوع مزاجی کو تسلیم کرنے کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے۔ اس لئے ہر رمضان اور عید کے موقع پر تماشہ لگتا ہے اور ایک دوسرے کی عزت مختلف گروہوں کی بد کلامی اور الزام تراشی میں نیلام ہوتی ہے لیکن ہم اپنا طریقہ بدلنے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکے۔ لطف کی بات البتہ یہ ہے کہ سال بھر کے باقی اسلامی مہینوں کے بارے میں ایسا کوئی اختلاف دیکھنے میں نہیں آتا۔ یا تو اللہ تعالی ان مہینوں میں ایک ہی وقت میں پشاور اور کراچی کی رویت ہلال کمیٹیوں کو چاند دکھانے کا اہتمام کرلیتا ہے یا ملک کے فاضل علما صرف اس موقع پر اس اختلاف کو دین کی حرمت کا سوال بنا کر اپنی اہمیت اور فضیلت کو تسلیم کروانے کی تگ و دو کرتے ہیں جب ملک بھر کے عوام اور میڈیا ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وللہ اعلم بالصواب ۔

 تاہم اہل پاکستان کی مشکلات اور تنازعات کو صرف اسلام کے ’محافظوں ‘ کے سر تھوپ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اس حوالے سے جو منظر نامہ اس ملک کی بڑی طاقتوں نے اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ سے تیار کیا ہے وہ اس سال 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کا وقت قریب آنے کے ساتھ اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے ساتھ واضح ہوتا چلا جارہا ہے۔ کیوں کہ اگر اس ملک کے سیاست دان بار بار ایک ہی غلطی کرکے اسے دہرانے پر اصرار کرتے ہیں تو ملک کے ادارے بھی اس غلطی کو ’درست ‘ کرنے کی لگن میں ویسی ہی غلطی کرنے پر مصر ہیں جس کا باقاعدہ آغاز 7 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کا مارشل لا لگا کر کیا گیا تھا۔ ملک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ اب بھی خود کو ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود کا محافظ قرار دیتی ہے۔ جغرافیائی حدود کے تحفظ میں متعدد ناکامیوں کے باوجود نظریاتی محاذ اب بھی عسکری اسٹبلشمنٹ کا مرغوب شعبہ ہے جسے ملک کی سیاست یعنی پالیسی سازی اور سیاست دانوں یعنی جمہور کے منتخب نمائیندوں سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اس کام میں اس قدر مہارت حاصل کرلی گئی ہے کہ ایوب، ضیا، یحیٰ اور مشرف کی طرح باقاعدہ آئین کو لپیٹنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی بلکہ سیاست کے راستے اقتدار میں حصہ مانگنے والوں میں سے ایسے امید وار تلاش کرلئے جاتے ہیں جو پرانے نعرے لگاتے ہر دس پندرہ سال کے بعد جمہوریت کے لئے پیدا کی گئی ایک خاص فضا کو تبدیل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرکے معاملات کو پوائنٹ زیرو تک پہنچانے میں فیصلہ کن مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس عمل میں اب بھی نظریہ پاکستان کی حفاظت، اسلامی ریاست کی تعمیر، بھارت سے دشمنی کی تکرار اور کشمیر بنے گا پاکستان جیسے نعرے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نعروں کی مدد سے سیاست دانوں کے جس گروہ کو مطعون کرکے ناپسندیدہ ٹولہ قرار دینا مطلوب ہو اس پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا آزمودہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

ملک کی عدالتوں نے بھی ماضی میں مقدور بھر ملک کے محافظوں کی غیر آئینی حرکتوں کو قانونی بنانے کے لئے نظریہ ضرورت کی کئی صورتیں دریافت کی تھیں اور یہ طریقہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔ اس وقت اقتدار پر فوج کے براہ راست قبضہ کرنے کو ناممکن بتایا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ وہ تمام اہداف اقتدار پر براہ راست قبضہ کئے بغیر ہی حاصل کررہی ہے جو کسی زمانے میں مارشل لا نافذ کرکے حاصل کئے جاتے تھے۔ اسی طرح جس نظریہ ضرورت کو سپریم کورٹ نے عدلیہ بحالی تحریک کے بعد ’دفن ‘ کرنے کا اعلان کیا تھا وہ کسی نہ کسی نئی شکل میں نمودار ہو کر اپنی اہمیت منوا رہا ہے۔

اس کا مظاہرہ عید سے ایک روز پہلے شیخ رشید کی نااہلی کے حوالے سے شکیل اعوان کی درخواست کے فیصلہ میں سامنے آیا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید کی قیادت میں تین رکنی بنچ نے شیخ رشید کو آئین کی شق 62 (1) ایف کے تحت نااہل قرار دینے سے گریز کیا ہے۔ یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے کیا گیا۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ نے 27 صفحات کا اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے یہ بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک جیسے معاملات میں مختلف فیصلے کیوں کردے سکتی ہے۔ ان کے خیال میں اس کے لئے عدالت کے فل کورٹ بنچ کو واضح حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کی شق 184 (3) کے استعمال سے متعلق بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ فل کورٹ کو اس بارے میں بھی واضح حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ سو موٹو کا جو اختیار بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے دیا گیا ہے کیا اس کا درست استعمال ہو رہا ہے یا اس کے استعمال سے الجھنیں اور مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ دیگر متعدد ماہرین قانون کی طرح جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ فل کورٹ کو اس معاملہ پر حتمی رہنما اصول طے کرنے چاہئیں تاکہ آئین کی دیگر شقات کی خلاف ورزی سے بچا جا سکے۔ جسٹس فائز عیسی ٰ اس بات کی بھی وضاحت چاہتے ہیں کہ انتخابی اعتراضات کے معاملات طے کرنے کے لئے ایک مسلمہ آئینی طریقہ استوار ہے۔ سپریم کورٹ جب سوموٹو اختیار کے تحت اس طریقہ کو مسترد کرتی ہے تو کیا وہ آئین کے لوازمات کو نظر انداز کرنے کا سبب تو نہیں بنتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثریتی رائے یعنی دو ججوں کی طرف سے جسٹس عظمت سعید نے ان اختلافات کو مسترد کرتے ہوئے وہی مؤقف اختیار کیا ہے جو ماضی میں نظریہ ضرورت کو استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال جولائی میں انتخاب ہونے والے ہیں ۔ اگر جسٹس فائز عیسیٰ کی تجویز کے مطابق فل کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے گا اور آئینی پہلوؤں کی وضاحت تک انتخابی معاملات اورعذر داریوں پر سپریم کورٹ اپنا کردار ادا نہیں کرے گی تو پورا انتخابی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لئے جسٹس فائز عیسیٰ آئین کی روح کے مطابق فیصلوں کی خواہش میں فی الوقت تنہا نظر آتے ہیں اور سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کے مزاج کے تحت پارلیمنٹ اور آئین کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کرتے ہوئے وہی فیصلے کرنے پر اصرار کررہی ہے جو نظام کے تسلسل کے لئے ضروری ہیں۔ ملک میں مکمل جمہوریت کی بحالی اور آئین کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لئے جسٹس عظمت سعید کے دلائل ایک افسوسناک پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا محافظ ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے اپنی مجبوریاں گنوا کر من مانے فیصلے دینے پر اصرار کررہا ہے۔ ا س صورت میں جسٹس فائز عیسیٰ کے الفاظ میں ’۔۔۔ انصاف ہوتا دکھائی بھی دینا چاہئے‘۔ کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali