میں‌ اپنے ابو سے دس برس بڑی ہوں


ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے بہت دن بعد لکھا مگر ہمیشہ کی طرح authentic۔ مجھے یہ معصوم دلگداز تحریر پڑھتے ہوئے رسول حمزہ کی وہ نظم یاد آئی جس میں اس نے اسٹالن گراڈ کی جنگ میں مرنے والے اپنے بھائی کا ذکر کیا تھا۔ اس نظم کا ترجمہ فیض صاحب نے کیا تھا۔ آخری سطر تھی، اب مری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے۔۔۔۔ انسانی تجربے کی یہ سانجھ ہی ہمیں ایک بڑا انسانی گھرانہ بناتی ہے۔ رنگ نسل زبان اور عقیدہ بھلے کچھ ہو۔

***     ***

جب اس رات فون کی گھنٹی بجی تو میں‌ اور میرے بہن بھائی صوفے کی گدیوں‌ سے گھر بنا کر کھیل رہے تھے۔ میرے ابو کے اچھے دوست کیپٹن یوسف کا فون تھا جو پبلک اسکول سکھر کے پرنسپل تھے۔ انہوں‌ نے میری امی سے کہا کہ ابو کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ چھوٹے بچے گھر پر ماسی کے ساتھ چھوڑ کر وہ مجھے لیکر سول ہسپتال سکھر گئیں جہاں‌ ہم نے ابو کو بستر میں‌ لیٹا دیکھا۔ ان کا کیپٹن یوسف کے گھر سے واپس آتے ہوئے شکارپور روڈ پر ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ وہ روڈ اس زمانے میں‌ اس طرح‌ مصروف جگہ نہیں‌ تھی جیسی اب ہے۔ وہ مدد پہنچنے تک کافی دیر تک اندھیرے میں‌ اکیلے روڈ پر پڑے رہے۔ اس کے ایک مہینے کے بعد کئی ناکام سرجریوں‌ کے بعد ان کی وفات ہوئی۔ اس وقت میری عمر چھ سال تھی اور وہ دو مہینے بعد 34 سال کے ہو جاتے۔

میرے والد مرزا شجاعت بیگ 1946 میں‌ علی گڑھ کے قریب قصبہ سکندرہ راؤ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے ماں‌ باپ کی آخری اولاد تھے۔ جب ان کی عمر چھ برس ہوئی تو ان کے والدین کی وفات ہوگئی تھی۔ ابو کو ملا کر میرے دادا اور دادی کے کل نو بچے تھے۔ جب 1947 میں‌ پاکستان بنا تو دادا کے آدھے بچے پاکستان منتقل ہوگئے اور آدھے انڈیا میں‌ ہی رہ گئے جہاں‌ وہ اب بھی رہتے ہیں۔ ماں‌ باپ کے مرنے کے بعد میرے ابو اپنے بڑے بھائی اور بھابی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ وہاں‌ خوش نہیں‌ تھے اور گیارہ سال کی عمر میں‌ ان کے دل میں‌ کیا سمائی کہ اکیلے ٹرین میں‌ بیٹھ کر پاکستان میں‌ حیدرآباد چلے گئے جہاں‌ ان کی بہن اور بہنوئی جا بسے تھے۔ میرے پھوپھا کریم صاحب ایک آرکیٹکٹ تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ابو نے پھوپھا کے ساتھ کام کیا اور نقشے بنانا سیکھ لیا۔ انہوں‌ نے سکھر چلے جانے کا فیصلہ کیسے کیا، یہ ایک معمہ ہے جو میں‌ آج تک سلجھا نہیں‌ پائی۔ سکھر میں‌ کوئی رشتہ دار وغیرہ نہیں رہتے تھے۔

سکھر آنے کے بعد انہوں نے شہر میں‌ ایک زمین دیکھی جس پر پانی کے پائپ رکھے ہوئے تھے۔ ان پائپوں‌ کو ہٹا کر انہوں‌ نے اپنے مکان کی بنیاد رکھی۔ اس زمانے کے قوانین اور اصول و ضوابط زیادہ معلوم نہیں‌ ہیں لیکن پارٹیشن کے بعد اسی طرح لوگ ان نئے ممالک میں‌ گھر بنا رہے تھے۔ میرے ابو اور ماموں‌ آپس میں‌ اچھے دوست تھے اور اس طرح‌ میرے امی ابو کی ارینجڈ شادی ہوئی۔ شادی کے وقت میری امی کی عمر صرف سولہ سال تھی۔ امی ابو کی عمر میں‌ دس سال کا فرق تھا۔ عمر بہت کم ہونے کی وجہ سے امی کو زیادہ سمجھ بوجھ نہیں‌ تھی اور ہر سال ایک نیا بچہ بھی ہو جاتا۔ ابو بھی غصے کے تیز تھے۔ وہ آپس میں‌ بہت لڑتے بھی تھے اورمحبت بھی تھی۔

میرے ابو ایک ذہین آدمی تھے۔ انہوں‌ نے نیم کی چاڑی پر اپنی آئیڈیل کنسٹرکشن کمپنی کی بنیاد رکھی۔ جب آفس کھولا تو ان کے پاس فرنیچر خریدنے کے لیے پیسے نہیں‌ تھے۔ فرنیچر والے نے کہا کہ آپ یہ صوفے، کرسیاں‌ اور میز لے جائیں اور جب بھی ہوسکے پیسے ادا کردیں۔ پہلے تین دن تک کوئی دروازے پر نہیں آیا۔ ان تین دنوں‌ میں‌ انہوں‌ نے صرف چنے کھائے۔ تیسرے دن کسی نے نقشہ بنانے کی درخواست کی۔ اس سے ان کے کیریر کا آغاز ہوا۔ آئیڈیل کنسٹرکشن کمپنی سکھر میں‌ بہت کامیاب رہی۔ انہوں‌ نے جو عمارات تعمیر کیں‌ وہ آج بھی وہاں موجود ہیں۔ ان میں‌ لوکل بورڈ پر کشتی والا گھر، پبلک اسکول کا بورڈ روم، غنی ہاؤس۔ پیرزادہ ہاؤس اور انور پراچہ ہسپتال شامل ہیں۔

میرے ابو ایک حساس اور محبت کرنے والے آدمی تھے اور اپنی طرف سے جتنا ہوسکے ایک اچھا باپ بننے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہمیں‌ روزانہ اسکوٹر پر بٹھا کر آئس کریم کھلانے لے جاتے۔ ایک رات انہوں نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں‌ کو اپنی اسکوٹر پر بٹھایا۔ ہمارے سامنے والے گھر کے دروازے پر رانی جو میری عمر کی تھی، کھڑی دیکھ رہی تھی۔ ہم نے خوشی خوشی اس کو کہا کہ ہم آئس کریم کھانے جارہے ہیں۔ ابو نے اسکوٹر اسٹارٹ کی اور کوئی دو بلاک آگے گئے پھر اس کو گھما کر واپس لے آئے اور رانی سے کہا کہ اگر تمہارے امی ابو اجازت دیں‌ تو تم بھی ہمارے ساتھ چل سکتی ہو۔ پھر انہوں‌ نے اس کو بھی ہمارے ساتھ بٹھا لیا اور ہم سب مل کر نیم کی چاڑی کی کونے کی دکان پر آئس کریم کھانے گئے۔ وہ صرف اپنے بچوں‌ سے ہی نہیں‌ بلکہ سب بچوں‌ سے محبت سے پیش آتے تھے۔

میرے ابو نہ صرف ایک لائق آرکیٹکٹ تھے بلکہ ان کی دلچسپیوں‌ کا دائرہ مختلف مشاغل کے گرد بھی گھومتا تھا۔ ایک سال ان کو باڈی بلڈنگ میں‌ مسٹر سکھر کا ایوارڈ ملا۔ ان کو سفر کرنے کا اور تصاویر کھینچنے کا شوق تھا۔ ہم سب چہل قدمی کرنے لوکسٹ پارک جاتے تھے جو اس زمانے میں نیا اور صاف ستھرا تھا، وہاں‌ فوارے چلتے تھے جو مجھے اب بھی یاد ہیں۔ آبادی بھی اتنی نہیں‌ تھی اور راستے کشادہ تھے۔ انگریزوں نے گھنٹہ گھر، ریلوے اسٹیشن، اسکول اور ہسپتال بنائے تھے جو مقامی افراد کی زندگی بہتر بنانے کے لیے فائدہ مند تھے۔ ایک مرتبہ میری امی درخت کے نیچے بیٹھ کر ڈائجسٹ پڑھ رہی تھیں، ابو نے ان کی تصویر کھینچی۔ اس تصویر کو مقابلے میں‌ ایک ہزار روپے کا پہلا انعام ملا تھا۔ ان کے تمام ایڈونچر کامیاب نہیں‌ ہوئے اور ایک مرتبہ دریائے سندھ میں‌ پیراکی کے مقابلے میں‌ حصہ لیتے ہوئے ابو ڈوبتے ڈوبتے بچے۔ انہوں نے ایک لوکل الیکشن بھی ہارا تھا جس کے بعد انہوں‌ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پارٹی کی۔ مجھے ان کے جاندار قہقہے آج بھی یاد ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2