اشتہاری نوعیت کا ادب


\"Tasneef\"میرے لیے اکثر ادب میں معیار ایک مسئلہ رہا ہے۔ آپ اسے معیار کے تعین کا مسئلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ بات کہہ دینا زیادہ آسان ہے کہ متن جملہ مسائل کا حل نہیں ہوسکتا۔ میرے نزدیک جو تحریر vague ہے ہوسکتا ہے کسی اور ناقد کے لیے بہت اہم ہو، مگر کچھ چیزوں کے بارے میں میں اور میرے میدان کے سبھی ناقدین متفقہ رائے قائم کرسکتے ہیں یا مجھے لگتا ہے کہ شاید کرسکیں۔ میرا مقصد ایسی ہی تحریر کے بارے میں اس مقالے میں کچھ باتیں کرنا ہے جسے صرف اشتہاری نوعیت کا ادب کہا جا سکے اور اشتہاری نوعیت کا ادب کس کی نگاہ میں غیر ادب نہیں ہوگا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ علامتیں گڑھنا، استعارے خلق کرنا اور رعایتوں سے کام لینا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ مصوری کے نام پر کسی کینوس پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ دینا، حالانکہ آڑھی ترچھی لکیروں کے کھینچنے کے لیے بھی ایک خاص قسم کا سیدھا پن درکار ہے۔ خیر اس بات کو چھوڑیے، بات ہے ادب کی، تو ادب میں غیر معیاری شے آخر کیا بلا ہوتی ہے۔ جہاں تک میں نے سمجھا ہے شعر اور کہانی دونوں کے بارے میں تجربے کی تقلید کو دو خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ اول تو کسی اچھے تجربے کی تقلید کرتے ہوئے اسے اپنے گھامڑ پن سے خراب کردینا، اسے عجلت میں خراب کرنا یا دیر لگا کر اس پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ رہنا اور ساتھ میں اس بات کی ضد کرنا کہ میں جس خرابے پر بیٹھا ہوں اسے خزانہ تسلیم کیجیے، دوسرا خانہ وہ ہوسکتا ہے جس میں کسی تجربے کو شعوری طور پر برت کر اسے لکھنے کی کوشش کرنا، مثلاً منٹو کی کسی کہانی کو سمجھنے کے لیے اول کسی ریڈ لائٹ ایریا میں گشت لگانا، پھر وہاں کے لوگوں سے ملنا، باتیں کرنا اور نتیجتاً ایک ایسا افسانہ لکھنا یا شعر کہنا جس میں نہ کوئی کہانی پن ہو نہ شعریت۔ بس ایک سونا پن ہو، ادبیت سے لبالب اس شہ پارے میں آخر کس چیز کی کمی ہے جو اسے غیر معیاری بناتی ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی شعوری تجربے میں جو چیز مجھے اکثر مسنگ لگتی ہے وہ ہے

’میر؍ منٹو کی آنکھ ‘

حالانکہ ادب اور مشاہدے کی ایک بڑی لمبی چوڑی بحث ہے جسے ایک مربوط طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مشاہدہ بری چیز نہیں ہے مگر مشاہدے کا سلیقہ اس سے بھی بڑی چیز ہے، ہم جب بچپن میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے تو ہماری دادی اکثر دور پلنگ پر بیٹھ کر چیخا کرتی تھیں، ’ارے بھئی دیکھ کر پڑھو! فلاں لفظ یوں نہیں یوں ہے۔ ‘یہ بات سوچی جاسکتی ہے کہ دیکھ کر پڑھنے کے باوجود آخر غلطی کیسے سرزد ہوتی ہے، اس کے ازالے کا امکان تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی بچہ اپنے اندر دادی کی وہی آنکھ نہ پیدا کرلے۔ مشاہدہ صرف ان ظاہری چیزوں کا نہیں جنہیں ہم دیکھتے ہیں بلکہ ان چیزوں کا بھی جنہیں ہم سوچتے ہیں۔ اور یہ سوچ میر یا منٹو کی آنکھ پیدا کرنے سے ہی ممکن ہے(کہیں آپ میری بات سے یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں جس تجربے کی تقلید پر لعنت بھیج رہا تھا، پھر آپ کو منٹو یا میر کی تقلید کی طرف دھکیل رہا ہوں، ایسا نہیں ہے۔ منٹو اور میر محض استعارے ہیں اس فنکار کے جو دیکھنا جانتا ہے، جسے دیکھنے کے سلیقے سے آگہی ہے۔ )خیر میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ قرآن شریف کی تلاوت ہو یا ادب کی تخلیق مشاہدے کا دخل اس لیے زیادہ ہے کیونکہ اس سے ہماری بصیر ت میں اضافہ ہوتا ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری آنکھ کون سا مہین نقطہ ابھی دیکھنے سے محروم رہ گئی تھی، وہ کیا غلطی تھی جس کے سبب ہم زندگی یا کتاب کی عبارتوں کو ٹھیک سے نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ کسی بھی شے کو دیکھتے رہنے سے، بار بار دیکھنے سے، الٹ پلٹ کر دیکھنے سے ہی تو اس کی حقیقت پوری طرح سمجھ میں آتی ہے۔ اچھا یہ تو کیپٹل سماج بھی جانتا ہے کہ مادیت کا ایک سب سے بڑا افادی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شے بیکار محض نہیں ہے۔ ہر چیز سے کوئی کام لیا جاسکتا ہے، وہ کسی نہ کسی طور، کسی نہ کسی سبب کام آسکتی ہے۔ فن کی سوچ بھی اس معاملے میں ذرا تاجرانہ ہو تو بہتر ہے، فن بھی ایک پتھر کے ہزاروں شیڈز دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، اسے ترشے بغیر دیکھتا ہے، اسے کھرچ کر دیکھتا ہے، اس کو اچھال کر دیکھتا ہے۔ یہ جو اردو غزل کی کلاسیکی روایت میں دشت، جنون، معشوق، عاشق، واعظ، رقیب اور دوست کا ایک مجمع ہے، یہ سب ایک ہی تجربے کے علیحدہ علیحدہ پہلو ہیں، اور سب کو چھوڑیے صرف میر کو لیجیے ، اس نے غزل کی پوری کائنات میں ان دس بارہ عناصر سے پوری دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرڈالی ہے۔ پھر ان عناصر سے جڑی دوسری اشیا اور ان سے جڑی دیگر باتیں ، یہ تمام اس کے احاطۂ شعر میں شامل ہوتی چلی گئی ہیں۔ اس نے اس ایک پتھر کو اتنی طرح سے دیکھا کہ غزل کی پوری روایت اس کی آنکھ سے ان عناصر کو دیکھنے پر مجبور ہوگئی۔ یہ سب میر سے بہت دور نہیں تھا، وہ دشت کے چکر لگائے نہ لگائے، سرو کی صورت کو تاڑے نہ تاڑے، شام و سحر سر میں خاک ڈال کر دوانوں کی طرح کوچۂ محبوب میں گھومے نہ گھومے مگر اس کی شاعری کا مشاہداتی نظام اس تمام فکری جہت کو بڑھاوا دیتا رہتا ہے، اس کے شعر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ دیکھنے کی سکت رکھتا تھا، مگر ایک ہی چیز میں اتنا سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ دوسرے منظر تک آتے آتے خاک ہوگیا۔ یہ بڑے فنکار کا طریقہ ہے، اس کی زندگی کسی ایک پہلو سے ٹک کر زندگی کو نئے نئے لباس میں دیکھنے کی کوشش کرتی ہے، حیات کے نت نئے تجربوں کو پھلانگ کر نہیں گزر جاتی، انہیں بیٹھ کر دیکھتی ہے، سنبھل کر ان کا جائزہ لیتی ہے اور ان سے پھوٹنے والی زیریں یا ضمنی شاخوں پر اگنے والے پھولوں کا تماشا دیکھتی ہے، اسے بیان کرنے کی فکر کرتی ہے اور بیان کرتی ہے۔ اس میں بہت کچھ ان کہا بھی رہ جاتا ہوگا مگر جو کچھ کہا جاتا ہے وہ بھی یادگار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کے فن میں یہ مشاہداتی لہر طرح طرح سے زندگی دوڑانے کا کام کرتی رہتی ہے، کسی ایک طرف سے، کسی ایک پہلو سے اس کا کہا گیا (شعر) الگ ہوتا ہے، نیا ہوتا ہے۔ دراصل فن کا حصول اپنے آس پاس کے مطالعے سے ہی ممکن ہے، زمین پر بیٹھ کر چاند اورسورج کی باتیں کرنا نہایت بھونڈی اور بھدی فکرکی علامت ہے۔ دنیا کے بڑے فنکاروں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے ماحول میں بسنے والی جاندار اور غیر جاندار اشیا کے حوالے سے بڑے ذی حس ہوتے ہیں، ان کے اندرٹھہرے ہوئے پانی پر جھلملاتی سورج کی روشنی سے جو ارتعاش پیدا ہوتا ہے اس سے ان کی فکری بالیدگی نظمیں اور افسانے تراشتی ہے۔ میراجی ، قرۃ العین حیدر یا پھر نجیب محفوظ وغیرہ جیسے لکھنے والوں کے لیے نظم یا کہانی یا ناول دراصل اسی حسیاتی درک کا نتیجہ ہے۔ وہ شے جو شعور کا حصہ بنے، پھر لاشعور کا حصہ بنے، پھر نفس کاحصہ بنے۔ دھیرے دھیرے زندگی کے مختلف نظاروں، قصوں، حادثوں اور خوشیوں کا حصہ کیسے بنتی ہے اور فنکار کا دیکھا، سنا ہوا کیسے اس کے سمجھنے کے عمل کو متاثر کرتا رہتا ہے یہ سب اس کے فنی پروسز میں شامل ہوتا ہے۔ آس پاس کے مطالعے سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ فنکار سماجی کارکن کی طرح سڑکوں کے گڑھوں، لوگوں کی لڑائیوں اورڈریننگ کے بے تکے نظام سے کوئی فائدہ اٹھانے کی شعوری کوشش کرنے لگے، فنکار کا آس پاس اس کی تاریخ اور اس کے بساط بھر حال کا ایک کھلا ڈھلا منظر نامہ ہوتا ہے جس میں اس کی پرورش ہوتی ہے، جس کا رساؤ اس کی جڑوں میں اس کے اجداد و اقربا کی طرف سے کیا گیا ہو، جو اس کی روایت کا بھی حصہ ہو اور شعور کا بھی، جس سے ذہن و دل کی بھی وابستگی ہو اور آنکھوں کی بھی۔ جس کو منطقی اعتبار سے ہزار کمزور کہا جائے مگر فنی اعتبار سے اس کے پختہ ہونے کی گنجائش بہت حد تک قائم رہے۔ مشاہدہ استعارے کو خلق کرنے کا تمیز سکھاتا ہے اور اگر بہت کوشش کے بعد بھی آپ کو اس طرح کا سلیقہ نہ آپائے تو سیدھی سی بات ہے ، آپ فنکار نہیں ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ میں بات کررہا ہوں اس ادب کی جو اشتہاری نوعیت کا ہے یا غیر معیاری ہے تو آخر اس میں مشاہدے کی بحث کو کیوں درمیان میں گھسیٹ رہا ہوں، اصل معاملہ یہ ہے کہ بیماری سے پہلے اس کے اسباب پر روشنی ڈالنا زیادہ ضروری ہے۔ اس میں کوئی مایوسی یا ناکامی کی بات نہیں ہے کہ کوئی شخص فنکار نہیں ہوا، فنکار نہیں ہوا، آدمی تو ہوا، فنکار نہ ہونا کوئی عیب تو نہیں ہے، جسے چھپایا جائے۔ لیکن جو لوگ فنکار ہیں، ان سے فن اپنے حصے کی محنت طلب کرتا ہے اور وہ محنت دراصل ایک خاص قسم کی تربیت کا نام ہے۔ جس میں مشق نہایت ضروری ہے، مشق سے میری مراد ہے خود کو رد کرتے رہنا، یہ سوچتے رہنا کہ وہ کون سی بات ہے جو ابھی کہنی باقی ہے، یا وہ کون سا طریقہ ہے جس طریقے سے بات کہنی ابھی باقی ہے۔ اس کے لیے فنکار کا اپنے علاوہ دوسروں کی تخلیقات سے آگاہ ہونا، ان کے اسالیب جاننا اور نقادوں کی رائے یا ان کی تحریریں پڑھتے رہنا ضروری ہے۔ اچھا ادب مادۂ تشکیک سے پیدا ہوتا ہے، یعنی کسی طور اس میں ایسی بات ڈھونڈنا جس پر شک کیا جائے کہ اس میں تخلیقیت ہے یا نہیں ہے اور اس کے لیے تخلیقیت کے معیارو اصول کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھیے کہ میری والدہ مجھے میری نزلے کی مسلسل شکایت کو دور کرنے کے لیے کلونجی کھلایا کرتی تھیں، میں بھی اسے بڑے شوق سے کھاتا تھا، جس کا نفسیاتی فائدہ یہ ہوا کہ میں کچھ ٹھیک ہونے لگا، لیکن میرا ذہنی ایقان میرے جسمانی نظام کو ٹھیک کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے یا نہیں، یہ جاننے کی میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ ایک دن یونہی کوئی ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر تشریف لائے تو انہیں یونہی برسبیل تذکرہ بتادیا گیا کہ ہم لوگ صبح نہار منہ کلونجی کھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھ کر کھانا، آج کل کلونجی میں پیاز کے بیج ڈال دیے جاتے ہیں، اچھا ان کی شکل بالکل کلونجی کی طرح ہوتی ہے، اس لیے انہیں پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے اس کی پہچان کاایک طریقہ بھی بتایا تھا جس کو آزمانے کی میں نے کوئی بہت زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی۔ ٹھیک یہ ہی حال ادب کا ہے۔ بازار میں جو کتابیں ادب اور تخلیق کے نام پر بک رہی ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان میں سب اصلی ادب کے زمرے میں رکھی جاسکیں۔ کچھ پر تو بڑے تجارتی قسم کے ناقدین نے اپنی پسند کا ٹھپہ بھی لگا رکھا ہے۔ ادب کے معاملے میں کسی بھی رائے پر یقین کرکے بیٹھ جانا دلوں پر خدائی لعنت کی مہر لگا کر بیٹھ رہنے جیسا ہے۔ ادب عالیہ ہو یا ادب حالیہ کسی بھی ادب کو پڑھ کر ہی اس کے بارے میں فیصلہ کرنا لازمی ہے، پھر تخلیق کے تخلیقی ہونے کے کچھ بنیادی اصول ہیں، ابہام کی بھی کچھ اجلی ، سانولی اور گہری شکلیں ہیں، انہیں جاننے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس لیے تاکہ آپ دھوکا کھانے سے بچے رہیں۔ تخلیق اور ادب کے معاملے میں کوئی جذبہ ہونا چاہیے جو اندر ہی اندر کچوکے لگاتا رہے، کسی بھی چیز کے بارے میں دوسرے کے فیصلے پر تکیہ نہ کرنے دے، جو اسے سمجھنے کی کوشش پر اکساتا رہے، جو متن کے دروازے پر لگے تالے کو توڑ کر اس میں موجود معنی کو آزاد کرانے پر بضد ہو، اچھے ادب کی پہچان ہی یہی ہے کہ جس قدر اس کی تخلیق محنت کا مطالبہ کرتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ اس کا مطالعہ محنت چاہتا ہے۔ آرٹ کے جتنے شعبے ہیں، ان سب میں بے چینی کی یہی کیفیت نئے نئے پیکروں کو جلانے اور مارنے دونوں میں کام آتی ہے۔
اب اس بات کی سیاست میں کچھ نہیں رکھا کہ ادب کیا ہوسکتا ہے اور کیا نہیں ہوسکتا کیونکہ لکھنے والوں نے ہر میدان میں ہاتھ مارا ہے، ان کی تخلیقی قوتوں سے کوئی سرا، کوئی گوشہ محفوظ نہیں ہے، بدلتا ہوا وقت ان کی تیزی و طراری اور تخلیقی سخت کوشی کی علامت ہے۔ فلسفہ ہو، تاریخ ہو، عمرانیات ہو، حیوانیات ہو، عشق ہو، ہوس ہو، جنگ ہو، امن ہو، نصیحت ہو، ترقی پسندی ہو، رجعت پسندی ہو یا کچھ اور۔ ادب کے دامن میں ہر عنوان کے ذیل میں اچھا فن پارہ پڑھنے کو مل ہی جائے گا، شماریات کی بحث سے آگے جاکر کہا جاسکتا ہے کہ متن اپنے وجود سے زیادہ اپنے عدم میں زندہ رہتا ہے، وہ تب تک ہی بڑافن پارہ ہے جب تک وہ کسی مٹھی کی طرح ذہنوں پر کہیں نہ کہیں سے بند ہے، اب مٹھی کھلنے کے بعد اس میں سے ہیرے جواہرات نکلیں یا کنکر پتھر، لوگوں کی دلچسپی اس میں نہیں رہ جاتی۔

میرے دور میں تشویش کی بات یہ ہے کہ ادب کے نام پر جو کچھ تخلیق کیا جا رہا ہے وہ بہت حد تک بازاری ہے، اس میں زندگی کو دیکھنے، اسے سمجھنے اور نت نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ موضوع ایک ہو یا ہزار، ایک موضوع کے ہزار حصے ہوں یا ہزار موضوعات کی لاکھوں شکلیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر پڑھنے پر جو ادھورے پن کا احساس ہونا چاہیے وہ ندارد ہے۔ اچھے سے اچھے لکھنے والے اس طرح کی تخلیق لکھنے یا گڑھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں جس میں معنی کا اکہرا پن کھلنے لگتا ہے، جس کی ترسیل میں ایسی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ جو موضوع کی ذیلی لہروں سے نہیں کھیلنا جانتی اور جس کو ایک بار پڑھ کر دوبارہ چھونے کا دل ہی نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے جیسے نفع نقصان کی دنیا میں لوگ تخلیق کو بھی فلموں کی طرح ریلیز کرکے جلدی سے جلدی اپنے آپ سے اور اس دقت پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو تخلیقیت کی روح ہے۔ اس رویے کے پیچھے چاہے فاسٹ فوڈ کا سماجی نظام موجود ہو یا انٹرنیٹ پبلشنگ کے ذریعے دنیا بھر میں ایک کلک کے ذریعے پھیل جانے کی ہوس مگر یہ ایک منفی رویہ ہے۔ اس میں قصہ کہنے کی تو صلاحیت ہے لیکن قصہ گڑھنے کا ہنر بالکل نہیں ہے۔ یہ رٹے رٹائے اور پٹے پٹائے معاملات کے کچرے پر بیٹھا ہوا ادبی منظرنامہ ہے جس میں نئے پن کی پیاس سے زبان باہر نکلے پڑ رہی ہے، کبھی کبھار کہیں سے دوچار قطرے برس پڑتے ہیں اور پھر وہی ننگی دھوپ آسمان ادب پر رقص کرنے لگتی ہے۔ اس تنزل کا بیک گراؤنڈ ایسا دھندلا بھی نہیں کہ مجھے یا میرے معاصرین کو نظر نہ آئے مگر اس پر روک تھام لگانے کی ضرورت ہے۔ میں ایسے ماحول میں کسی ایسے ادارے کی حمایت کروں گا جس کے ذریعے اچھے اور برے ادب کے درمیان فرق قائم کرنے والی کوئی لکیر پیدا کی جاسکے۔ جس کے ذریعے شائع ہونے والا ادب، لوگوں کو ان کی تخلیقی اور تنقیدی ناکامی کے احساس سے باہر نکلنے میں مدد دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments