’لیکن افغانوں کو 26 سال نہیں لگیں گے‘


آج سے دس سال پہلے تک افغان کرکٹ ٹیم ورلڈ کرکٹ لیگ کے ڈویژن فائیو میں تھی، یعنی آئی سی سی کی تسلیم کردہ انٹرنیشنل کرکٹ سے پانچ سیڑھیاں نیچے کھڑی تھی۔ تب اس کا مقابلہ جاپان اور نمیبیا جیسی ٹیموں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔

لیکن ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں اس ٹیم نے بہت کچھ حاصل کیا۔ ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا۔ ایک ون ڈے ورلڈ کپ کھیل لیا۔ اگلے ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر چکی ہے۔

پچھلے سال آئی سی سی نے افغانستان کی پراگریس سے متاثر ہو کر اسے ٹیسٹ سٹیٹس سے بھی نواز دیا، اور یوں جو ٹیم دس سال پہلے پانچویں سیڑھی پہ کھڑی تھی، تین دن پہلے وہ ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کے خلاف اپنا ڈیبیو ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی۔

افغانستان کے ساتھ ہی آئرلینڈ کو بھی ٹیسٹ سٹیٹس ملا، لیکن افغانستان کے برعکس آئرلینڈ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اول تو اسے اپنا ڈیبیو ٹیسٹ ہوم گراؤنڈ پہ کھیلنے کا موقع ملا۔ ثانیاً ڈیبیو پہ آئرلینڈ کا مقابلہ ٹیسٹ رینکنگ میں ساتویں نمبر کی ٹیم سے طے پایا۔

لیکن افغانستان کی خوش نصیبی صرف ٹیسٹ سٹیٹس ملنے تک ہی محدود رہی۔ نہ تو اسے ہوم گراونڈ کا ایڈوانٹیج مل سکا نہ ہی اس کا ڈیبیو کسی اوسط ٹیسٹ ٹیم کے خلاف ہوا۔ اسے نمبر ون ٹیسٹ ٹیم سے، انہی کی کنڈیشنز میں لڑنا پڑا۔

افغانستان نے اگرچہ اپنے تئیں تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایک ماہ پہلے سے ٹیسٹ سکواڈ دہرادون میں موجود تھا۔ رمضان کا پورا مہینہ سخت ٹریننگ میں گزارا۔

لیکن ٹیسٹ کرکٹ ایک ماہ کی نیٹ پریکٹس سے سیکھنا ممکن نہیں ہے۔ گو یہ امید تو افغان ڈریسنگ روم کو بھی نہ تھی کہ وہ نمبر ون ٹیم کے خلاف پہلے ہی میچ میں کوئی ایسا چمتکار کر ڈالیں گے کہ سب انگشت بدنداں رہ جائیں۔ مگر ایک اننگز اور 262 رنز کی شکست بھی ان کے وہم و گماں میں نہ ہو گی۔

افغانستان اگرچہ کرکٹ میں نووارد ٹیم ہے لیکن اس کے باوجود اس نے محمد شہزاد، محمد نبی اور راشد خان جیسے گلوبل سپر سٹارز پیدا کیے ہیں۔ سو یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ تمام تر باد مخالف سے لڑتی ہوئی، یہ دنیا کی محنتی ترین کرکٹ ٹیم ہے۔

کل صبح جب افغان الیون گراونڈ میں اتری تو عید کا دن تھا اور ان کے ڈیبیو ٹیسٹ کا چوتھا سیشن۔ پہلے دو سیشنز میں افغانستان کی کارکردگی مایوس کن رہی، لیکن تیسرے سیشن میں پانچ وکٹیں حاصل کر کے افغان اٹیک نے انڈین ڈریسنگ روم کو بھی متاثر کر ڈالا۔

لیکن بدقسمتی سے عید کا دن افغانستان کے دل توڑ گیا۔ صرف 66 اوورز میں ہی افغانستان کی دونوں اننگز سمٹ گئیں اور انڈیا نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فتح حاصل کر لی۔

مگر افغانستان کو ملول ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سبھی ٹیسٹ ٹیموں نے اپنے ابتدائی ادوار میں ایسے ہی حالات کا سامنا کیا ہے۔ بعض ٹیموں کو تو ٹیسٹ سٹیٹس ملنے کے بعد پہلی فتح کا ذائقہ چکھنے میں 26 سال بھی لگے۔

کیونکہ جس تواتر اور لگن سے کوچ فل سمنز کی یہ ٹیم اپنی منزل کھوجنے میں مگن ہے، یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کو اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹری تک پہنچنے میں 26 سال نہیں لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp