محنت کش اور یوم محنت


\"HaymarketMemorial-MaryBrogger\"دنیا کے سبھی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ انتہائی سخت گیر آمریتوں کو چھوڑ کر دنیا کے سبھی ممالک میں ہر صنعتی شعبے میں مزدور تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ عالمی سطح پر مزدوروں کی اجرتوں اور حالاتِ کار کے حوالے سے مقامی اور بین الاقوامی قوانین اور معیارات بھی موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں محنت کشوں کے حقوق عالمی ضمیر کا ایک مستقل اور غیر متنازع حصہ بن چکے ہیں۔ اس کے باوجود اس امر کی ضرورت باقی ہے کہ مزدوروں کے حقوق میں کار فرما اصولوں کو سمجھا جائے، مزدوروں کی جدوجہد کے پس منظر سے آگہی پیدا کی جائے تاکہ آئندہ منزلوں کا درست تعین کیا جا سکے۔

عالمی تاریخ انسانی استحصال کی مختلف صورتوں کی کہانی ہے۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر افراد اور قوموں کا استحصال، جنس کی بنیاد پر عورت کا استحصال، مذہب کے نام پرآزادی فکر کا استحصال، کم علمی اور نام نہاد اخلاقی تعصبات کی آڑ میں انسانوں کا جنسی استحصال‘جنگ کے میدانوں سے لے کر گھر کے باورچی خانے تک، علم پھیلانے والے اداروں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک، انسانی تاریخ استحصال کی مختلف شکلوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ استحصال کی یہ مختلف شکلیں دراصل انسانوں میں دو گروہوں کے درمیان کشمکش کی کہانی ہے۔ ایک گروہ مختصر ہے اور بغیر محنت کیے زیادہ وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا گروہ تعداد میں زیادہ ہے اور اپنی محنت کے بل پر دنیا کو زیادہ خوبصورت بنانا چاہتا ہے۔ محنت دماغی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی۔ دنیا کی تمام تر خوبصورتی محنت ہی کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ دنیا میں گندم کے خوشے، کھلکھلاتے ہوئے بچے، کارخانوں کی دھواں اگلتی چمنیاں، تجربے اور دانش کی گہری چھاپ لیے کھیت کی منڈیر پر بیٹھا بوڑھا یا آنے والی مسرتوں کی آس میں جھومتے نوجوان مرد اور عورتیں، یہ سب محنت ہی کے کرشمے ہیں۔ محنت نیکی ہے۔ محنت سے دنیا میں نئی سوچ، زیادہ وسائل اور نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف استحصال سے سوچ کا دروازہ بند ہوتاہے۔ غربت اور محرومی کا منحوس سایہ بستیوں پر منڈلانے لگتا ہے۔ انسانی اور قدرتی وسائل دوسرے افراد، گروہوں اور قوموں کو طاقت کے ذریعے دبانے پر صرف ہونے لگتے ہیں۔ استحصال خواہ جسمانی ہو یاذہنی، جنسی ہو یا مذہبی، اخلاقی ہو یا ثقافتی، سیاسی ہو یا سماجی، معاشی ہو یا قانونی، اس کی بنیاد جھوٹ، طاقت اور دھوکہ دہی پر ہوتی ہے۔محنت اور استحصال دو مختلف رویے ہیں جن کا ٹکراﺅ تاریخ کی بنیادی کشمکش ہے۔ ان کے بیچ سمجھوتہ ممکن نہیں۔

محنت اور استحصال کی اس کشمکش نے مختلف زمانوں میں مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ مثال کے طور پر دور غلامی میں طاقت اور ظلم کی بنیاد پر خرکاروں کا ایک ٹولہ دیانت دار اور محنت کرنے والے انسانوں کو اپنی ملکیت بنا لیتا تھا۔ اہرام مصر کی تعمیر میں استعمال ہونے والی وزنی چٹانیں اور پہاڑوں پر ہزاروں میل تک بل کھاتی دیوار چین دور غلامی کی ان مٹ یادگاروں کے طور پر تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جاگیردارانہ دور میں زمین کا سینہ چیر کر اناج پیدا کرنے والے کاشتکار کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی محنت کا پھل اپنے ہاتھوں اس شخص کی دہلیز پر رکھ آئے جسے اپنے ہم وطنوں سے غداری یا بادشاہ وقت کی کسی جائز یا ناجائز خدمت کے صلے میں جاگیردار قرار دے دیا جاتا تھا۔صنعتی دور کے آغاز پر کارخانے کا مالک ایک پھیلتی ہوئی دنیا میں خود کو مزدوروں کا ان داتا سمجھتا تھا۔ مزدوروں کے حالات کار نہایت سخت تھے اور ان کے تحفظ کے لیے قوانین موجود نہیں تھے۔ چنانچہ مالک ہر جائز اور ناجائز طریقے سے مزدور کے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتا تھا۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو ملک دشمنی کے مترادف ٹھہرایا جاتا تھا کیونکہ صنعتی دور کے ساتھ ہی انتہا پسند قوم پرستی نے بھی جنم لیا تھا۔ ریاستیں ہر قیمت پر منڈیوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ سرمایہ دار ایک طرف تو حکومتوں کو یقین دلاتے تھے کہ وہ اپنے کارخانوںمیں ریاستی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں اور دوسری طرف مزدوروں کا استحصال کر کے اپنی تجوریاں بھرتے تھے۔ محنت اور استحصال کی اس کشمکش میں ریاستوں اور حکومتوں نے استحصالی عناصر کی پشت پناہی کی ہے۔

\"129385457_c82786250e\"جرمن مفکر کارل مارکس انسانی تاریخ میں پہلا ذہن تھا جس نے انسانی محنت کے استحصال کو تاریخی پس منظر، سائنسی حقائق اور منطقی استدلال کی مدد سے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی اور استحصال سے پاک معاشرے کا خواب پیش کیا۔ یہ مزدوروں کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز تھا۔ اگرچہ تاریخ میں جابجا غلاموں اور مزارعوں کی بغاوت کی داستانیں ملتی ہیں۔ مسیحیت کا آغاز بھی غلاموں کی بغاوت ہی سے ہوا تھا لیکن دور غلامی اور جاگیردارانہ سماج میں استحصال کا شکار ہونے والا محنت کش اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے درکار موثر وسائل سے محروم تھا۔ تاہم صنعتی مزدور ہڑتال اور دیگر ذرائع کی مدد سے اپنے مطالبات منوانے کی طاقت رکھتا تھا۔ مزدوروں کے حقوق کی یہ جدوجہد ایک سیاسی نظام کا پیش خیمہ بھی تھی اور نئی سماجی اقدار کی علمبردار بھی۔ اس میں تاریخ کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش بھی تھی اور فلسفیانہ افکار کو انسان دوستی سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش بھی۔

1860ءکے بعد امریکہ ایک بڑے صنعتی ملک کی حیثیت سے ابھرنا شروع ہوا۔ امریکی صنعت کار زیادہ منافع کے لالچ اور مزدور کے انسانی حقوق نظر انداز کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھا۔ چنانچہ امریکہ میں مزدوروں کے حقوق، منصفانہ اجرتوں، قانونی تحفظ اور بہتر معیار زندگی کی جدوجہد زور پکڑنے لگی۔ اسی سلسلے میں امریکہ کے صنعتی شہر شکاگو میں مزدوروں کا ایک جلوس نکالا گیا جسے طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں بہت سے مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ یکم مئی 1886ءکا دن تھا۔ اس دن ایک مزدور نے اپنے کسی زخمی بھائی کے خون میں ڈبو کر اپنی قمیض لہرائی تھی۔ کپڑے کا یہی سرخ ٹکڑا دنیا بھر کے مزدوروں کا پرچم قرار پایا۔

آنے والے زمانوں میں مزدوروں کی تحریک نے بہت سے رخ بدلے۔ روس کا اشتراکی انقلاب اسی تحریک کی ایک سیاسی شکل تھا۔ دنیا بھر میں ٹریڈ یونین کی قانونی حیثیت اور صنعتی نظام میں مزدوروں کی فلاح کے تصورات اسی جدوجہد کی دین تھے۔

ہم جانتے ہیں کہ تاریخ کا پہیہ ایک جگہ پر جامد نہیں رہتا۔ انسانی سوچ اور انسانی محنت کی ترقی سے بیسویں صدی کے وسط میں جو تاریخی مرحلہ سامنے آیا اس میں تین عوامل کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔

1۔             صنعتوں میں مزدوروں کی تعداد کم ہونے لگی اور ایسی صنعتیں وجود میں آئیں جہاں جدید مشینری اور سرمائے کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ محنت کشوں کی بڑی تعداد منظم صنعتوں کی بجائے سماجی خدمات کے شعبوں سے وابستہ ہونے لگی۔ چنانچہ جسمانی محنت کرنے والوں کی بڑی تعداد کے مفروضے پر قائم سیاسی تصورات میں تبدیلی لازم ہو گئی۔

 2 ۔           مزدوروں کی حکومت کے نام پر قائم ہونے والا سیاسی نظام آمریت کی بدترین شکل اختیار کر گیا۔ جمہوری شرکت اور فکری آزادی کے بغیر مثبت سماجی اقدار اور منصفانہ معاشرے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اشتراکی نظام بدعنوانی، منافقت اورمصلحت پسند سیاسی رویوں کے بوجھ تلے دبنے لگا۔

3۔             دنیا بھر میں مزدوروں کی طویل جدوجہد نے صنعتی ممالک میں سماجی بہبود، منصفانہ سماجی قدروں، عوام دوست قوانین اور بہتر جمہوری ڈھانچوں کو فروغ دیا۔ جس سے استحصال کی بدترین شکلیں رفتہ رفتہ ختم ہونے لگیں۔ عالمی اداروں نے ایسے معیارات اور قوانین تشکیل دیے جن کی روشنی میں مزدوروں کے \"sculpture-blog-21\"حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

جدید معاشی اور معاشرتی فکر کی بنیاد محنت کی عظمت پر ہے۔ یہاں محنت، انسانی وقار کو آگے بڑھاتی ہے اور دوسروں کی محنت کا استحصال بدترین برائی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم یہ سمجھنا حقیقت سے آنکھیں چرانا ہو گا کہ دنیا میں ہر جگہ محنت کی عظمت تسلیم کی جا چکی ہے۔ یا یہ کہ مزدوروں کے حقوق کی حتمی ضمانت موجود ہے۔در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہے جہاں سیاسی نظام آمرانہ ہے، جہاں معیشت محنت کے استحصال پر کھڑی ہے، جہاں مزدوروں کے حقوق، ٹریڈ یونین کے چند پیشہ ور رہنماﺅں کی مٹھی میں ہیں۔ جہاں بنیادی صنعتی ڈھانچے ہی موجود نہیں۔ بات صرف اتنی ہی نہیں، ابھی تو قوموں کے درمیان منصفانہ تعلقات اور استحصال سے پاک عالمی نظام کا خواب بھی ادھورا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے نا صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ بڑھ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اربوں انسان بنیادی ضروریات مثلاً رہائش، غذا، پینے کے صاف پانی، تعلیم اور علاج معالجے سے بھی محروم ہیں۔ ابھی مزدور کے حقوق کا خواب ادھورا ہے۔ ابھی انسان نے اس سمت میں چند قدم بڑھائے ہیں۔

مزدور کے حقوق ایسے منصفانہ عالمی نظام کے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے جس میں طاقت کی بجائے محنت، ظلم کی بجائے علم، نفرت کی بجائے محبت، اجارہ داری کی بجائے شراکت اور آمریت کی بجائے جمہوریت کو بنیادی اصولوں کی حیثیت حاصل ہو گی۔ اس جدوجہد میں انسانوں کو انفرادی، قومی اور عالمی سطح پر حصہ لینا ہو گا۔ یہ جدوجہد نہ تو محض ٹریڈ یونین کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہے اور نہ کوئی واحد سیاسی فکر اس کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اس منزل کا اجارہ کسی قوم، گروہ یا براعظم کے پاس نہیں ہے۔ یہ جدوجہد تمام براعظموں، خطوں اور قوموں میں بسنے والے انسانوں کے ماضی کی میراث بھی ہے اور ایک روشن مستقبل کی ضمانت بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments