ہماری عربی دانی اور ہیچ مدانی


دوستانِ گرامی، دمشق سے باسی عید مبارک۔ وہ یوں کہ یہاں دو خطبوں سے وابستہ توہم کا کوئی ذکر اذکار نہیں ہے اور نہ ہی رویتِ ہلال کمیٹی کے نام پر کوئی بے کار ادارہ۔ سو عید کا اعلان دمشق کے قاضی شرعی نے وزارت سائنس کی تصدیق پر جمعرات کی شام کو ہی کر دیا تھا۔ اندازہ ہو رہا ہے کہ دمشق میں عام دنوں میں نظر آنے والی ریل پیل ان اہل کاروں کی بدولت ہے جو رہتے مضافات میں ہیں اور کام دھندے کی خاطر یہاں آتے ہیں۔ عید کے سبب کاروبار سرد تھا چنانچہ شہر سائیں سائیں کر رہا تھا۔ تس پر دل کی ازلی اداسی۔ سو یہ خادم عید کے روز خالی گلیوں میں پھرتا رہا۔ معدودے چند کم عمر لونڈوں کے سوا کوئی نہ تھا، جو غالبا نزدیک کے دیہات سے شہر گھومنے آئے تھے اور پولیس کی کم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوے سرِعام سگریٹ نوشی کی عیاشی کر رہے تھے۔ سُوق حمیدیہ جس میں ابھی ایک رات قبل تراویح سے سحور تک کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، بالکل سُونا پڑا تھا۔ اکّا دکّا شاورما کی دکان کُھلی تھی یا ایک آدھ سستے کپڑوں اور جوتوں کی دکانیں۔ حد تو یہ کہ “مشروبات روحیہ” کی دکانیں جو رمضان بھر بند نہ ہوئی تھیں، وہ بھی مقفل تھیں۔۔ ویراں شود آں شہر کہ میخانہ ندارد۔۔

اس خادم کو ایک زمانے میں عربی میں اچھی خاصی دستگاہ تھی۔ تعمیر نو پبلک سکول کوئٹہ میں دیگر سکولوں کے برعکس چھٹی سے آٹھویں جماعت تک عربی کے سوا دیگر مضامین کا اختیار نہ تھا۔ دیگر ہم جماعت اس پر کبھی کبھی برافروختہ ہوتے تھے مگر اس خادم نے ہمیشہ شوق سے تحصیل السنہ پر توجہ دی اور بلاد العرب میں ہر ہر قدم پر اپنے استادِ محترم خلیفہ عبدالرحیم آغا جان کے لیے دل کی گہرائی سے سپاس نکلتا ہے جنہوں نے عربی قواعد، صرف و نحو کی بنیاد پکی کر دی تھی۔ مزید مشق قرانِ کریم کے بار بار با ترجمہ مطالعے کے سبب بہم پہنچی۔ اس کے باوجود جب خادم یونیورسٹی پہنچا اور وہاں عرب طلباء سے بات چیت کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ کلاسیکی عربی “فصحی” صرف علمی زبان رہ گئی ہے اور عام بول چال کی عربی اس سے بہت مختلف ہے۔ یونیورسٹی میں فلسطینی طلباء کے ساتھ گہرا ربط ضبط رہا اور ایک مرحلے پر تو یہ خادم روانی سے جلسوں میں تقریر کر لیا کرتا تھا اور ناواقف لوگ لہجے سے اس پر غرب اردن کا باشندہ ہونے کا گمان کر بیٹھتے تھے۔ بیس بائیس سال کے تعطل کے بعد جب یہ خادم چند سال پہلے لبنان میں تعینات ہوا تو پتا چلا کہ مشق کی کمی بیان کی روانی کو بہت زیادہ متاثر کر چکی ہے اور جب عام بول چال کی کوشش کی تو ۔۔ “کُھل گئی ہیچ مدانی میری”۔۔

یہ احساس زیاں سوریا میں بھی قدم قدم پر دامن گیر ہوتا ہے۔ اگرچہ خلیفہ آغا جان مرحوم و مغفور کی محنت کے سبب قواعد کی غلطی شاذ ہوتی ہے مگر جدید عربی میں اسماء و افعال کے معانی بالکل وہ نہیں رہے جو قدیم لغات اور مذہبی کتابوں سے متبادر ہوتے ہیں سو اس خادم جیسے لوگ کہیں اپنی عربی دانی آزمانے کی کوشش کرتے ہیں تو منہ کی کھاتے ہیں۔ مثلا، ہمارے ہاں ایک لفظ “خصم” کبھی مستعمل تھا اور اب بھی کہیں کہیں “خصومت” کے مشتق کی شکل میں نظر آجاتا ہے۔ مُراد اس سے حریفی یا دشمنی لی جاتی ہے۔ یہاں دکانوں پر لکھا ہوتا ہے “خصم ۵۰ ۰/۰”۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہاں کسی کو آپ سے آدھی دشمنی ہے۔ “خصم” جدید عربی میں رعایت یا “ڈسکاونٹ” کو کہتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی کچھ ایسا کہہ دے کہ “جا خصماں نوں کھا” تو یہاں کے لوگ اسے ارزاں خریداری کی دعا سمجھ کر شکرگزار ہوں گے۔ اسی طرح آپ نے کلاسیکی اردو میں “مرور ایّام” پڑھا ہوگا جس سے زمانے کا اُلٹ پھیر مراد ہوتا ہے۔ یہاں “مرور” کا سیدھا سادھا مطلب ہے “ٹریفک” چنانچہ “شرطہ مرور” ٹریفک پولیس کو کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں آے روز اپنا “موقف” بدلنے والوں کو تھالی کا بینگن اور آج کل کی سیاسی لغت میں لوٹا کہا جاتا ہے۔ بلاد العرب میں موقف بدلنا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی چونکہ یہاں موقف “پارکنگ” کو کہتے ہیں۔ ہجوم تو آپ جانتے ہی ہیں کہ لوگوں کے جمّ غفیر کا نام ہے۔ یہاں اگر آپ نے کسی سے کہہ دیا کہ آپ ہجوم سے گھبراتے ہیں تو وہ اسے آپ کی تنہائی پسندی نہیں بلکہ بزدلی سمجھے گا چونکہ “ہجوم” یہاں حملے کو کہتے ہیں۔ جو چیز ہمارے ہاں “ہجوم” کہلاتی ہے اس کے دوسرے متبادل کا اصل عربی املا “ازدحام” ہے۔ ہمارے کچھ لوگ نجانے کیوں اسے “اژدہام” لکھتے ہیں۔ آپ نے علامہ اقبال کا شعر سنا ہوگا “ترے صیدِ زبون افرشتہ و حور ۔۔ کہ شاہینِ شہِ لولاک ہے تو”۔ زبون سے مراد غالبا “گھبرایا ہوا” ہے۔ عربی میں زبون کا مطلب ہے “گاہک”۔ ویسے اپنے وطن میں روپے کی گرتی وقعت اور اشیاے صرف کی چڑھتی قیمت کو ذہن میں لائیں تو قدیم و جدید معانی دونوں درست معلوم ہوں گے۔ ہم مضحک بات کو “لطیفہ” کہتے ہیں۔ یہاں لطیفے کو “نکتہ” کہا جاتا ہے جمع جس کی نکات ہوتی ہے۔ لہذا آئندہ جب کسی سیاست دان کے چودہ، سات، پانچ یا دس نکات کا ذکر سنیں تو نکات کے عربی معنی ذہن میں رکھیں۔ اگر یہ نکات کبھی رو بہ عمل آ گئے تو ملک میں بہتری آئے گی ورنہ لطیفے کا کام تو دے ہی دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).