دل سے نکلے جو دعا….. وہ ہے متاع دل و جاں


کہتے ہیں کہ دشمن کی مصیبت پر بھی خوشی نہیں منانی چاہئے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ وقت کا پہیہ جب گھومتا ہے تو انسان کو کبھی اونچائی پر لے جاتا ہے ا ور کبھی اتنی گہرائی میں کہ اچھے زمانے محض یاد بن کر رہ جاتے ہیں۔ لندن سے بیگم کلثوم نواز کی صحت کی خرابی اور ہارٹ اٹیک کی خبر نے ہر حساس دل کو افسردہ کر دیا۔ ٹی وی، اخبارات، انٹر نیٹ ہر جگہ پر ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں کی گئیں۔ ہم دراصل ایسی قوم سے ھیں جو سخت اختلافات کے باوجود ایسے مشکل وقت میں دلاسہ ضرور دیتے ہیں اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ بیمار کی اچھے انداز سے عیادت کی جائے اور اس کے لئے دعا کی جائے۔

بیگم کلثوم خوش قسمت ہیں کہ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو انہیں علاج کے لئے لندن لے جا سکتا ہے۔ جو ان کے لئے دوران بیماری تمام سہولتں فراہم کر سکتا ہے۔ جو ان کے لیے ڈاکٹروں کی بہترین فوج اکٹھی کر سکتا ہے۔ اور جو ان کے لئے ہسپتال اور بیرون ہسپتال حتی الامکان آرام و سکون کے تمام اجزا مہیا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود جب رب عظیم اپنی رضا سے انہیں کسی مشکل میں ڈال دے تو دعا کے لئے اسی ملک کی عوام سے گزارش کی جاتی ہے کہ جہاں پر دستیاب علاج کی سہولیات پر اہل اقتدار کو خود بھی اعتبار نہیں۔

یہاں صرف چند بڑے شہروں میں مسیحائی کی حقیقی سہولتیں موجود ہیں اور ان میں سے بھی اکثر و بیشتر نجی ادارے فراہم کر رہے ہیں۔ جبکہ دیگر چھوٹے شہروں میں ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کے لئے ایک جملہ بطور دوا موجود ہوتا ہے کہ مریض کو شہر لے جاؤ، بڑے ہسپتال میں۔ گویا چھوٹے علاقوں میں ہسپتال محض راستہ دکھانے کے لئے لائٹ ہاؤس کا کام کر رہے ہیں۔ علاج کی سہولتوں کا فقدان یہاں موجود ڈاکٹروں کو بھی اس قدر بے بس کر دیتا ہے کہ ان کی زبان پر حکمرانوں کے لئے کلمہ خیر نہیں آ پاتا۔

ایسے ہی ایک دیہی علاقے میں تعینات ڈاکٹر کے بیگم کلثوم کی بیماری پر رد عمل نے مجھے حیرت زدہ کر دیا جب اس نے محترمہ کی حالت بگڑنے کی خبر پر بے اختیار تلخ لہجے میں کہا کہ اگر ان حکمرانوں نے یہاں صحت کے لئے کوئی کام کیا ہوتا تو ہم بھی ان کے لئے دعا کرتے۔ دعا جو انسان دشمن کے لیے بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے مگر کیا کیجئے کہ زبان سے کی جانے والی دعا تو دنیا داری ہے اصل دعا یا بد دعا تو دل سے نکلتی ہے۔ خود بخود بے اختیار بے ارادہ۔ دراصل یہ وہی دعا ہے جو وطن عزیز میں اکثریت بیماریوں کا علاج ہے۔ ظاہر ہے جب بروقت علاج کی سہولتیں نہ مل سکیں اور سفر کی صعوبتوں کے بعد جب انسان ایسے ہسپتال پہنچے جہاں علاج تو ممکن ہے مگر سانس ختم ہو چکی ہو تو ایسے میں وہ طویل سفر دعاؤں اور باقی زندگی کا سفر شاید بددعاؤں میں گزرتا ہے۔ کبھی کسی حکمران نے درد کا یہ ذائقہ نہیں چکھا ہو گا، بے بسی کی یہ انتہا نہیں دیکھی ہو گی کہ جب کوئی بہت اپنا بہت پیارا زندگی کی بازی ہار رہا ہواور آپ اس کے لئے کچھ نہ کر پائیں، علاقے کے چھوٹے سے ہسپتال میں جب سانسیں اکھڑ رہی ہوں اور انہیں معمول پر لانے کے لئے وینٹیلیٹرز موجود نہ ہوں اور انہیں مرتی سانسوں کو لئے گھنٹوں کا سفر طے کر کے شہر لایا جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے یہ بات لندن میں زیر علاج خاتون کے ورثا نہیں سمجھ سکتے۔

نوزائیدہ بچوں کے لئے Neonatal ICU اور دل کے مریضوں کے لئے Pace Maker Machine تو دور یہاں اکثر ایمبولینس اور عام بیماریوں کی ویکسینیشن بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔ 2016 میں گیلپ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے سروے کے مطابق پاکستان میں 2000 سے2015 کے دوران صحت کے شعبے میں صرف 14% اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ ترقی محض بنیادی ڈھانچے یعنی ہسپتالوں اور ڈسپینسریوں کی تعداد سے متعلق ہے اس میں آلات اور دیگر سہولیات کا ذکر موجود نہیں۔ اسی سروے رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت تک پاکستان میں تقریباّ 1613 افراد کے لئے ایک بیڈ کی سہولت موجود ہے جبکہ آبادی اور ہسپتالوں کے تناسب سے یہ خلا کافی زیادہ ہے۔ گویا بعض اوقات مرنے والے کو سکون سے مرنے کے لئے بستر بھی دستیاب نہیں ہوتا۔

میری آئندہ حکمرانوں سے صرف اتنی سی درخواست ہے کہ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور درد سبھی کو ایک جیسا ہی ہوا کرتا ہے. تکلیف غریب کو بھی ہوتی ہے اور دکھ! دکھ تو ان کی سانسوں کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ انہیں بھی اپنے جیسا نہ سہی صرف انسان ہی سمجھ لیں گے تو آپ کے لئے ان کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا آسان ہو جائے گا۔۔ خدارا کچھ ایسا کریں کہ لوگوں کو مشکل وقت میں آپ کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا نہ کرنا پڑے بلکہ ان کے دل خود بخود دعا میں ڈھل جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).