راجہ مہندرا پرتاپ سنگھ: مارکسسٹ انقلابی جس نے ہندوستان کی آزادی کا بیڑہ اٹھایا


یہ 1959 کے اختتام کی بات ہے، جب میں دلی میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگار کی حیثیت سے تعینات تھا۔ ایک ملاقات میں بنے بھائی، سجاد ظہیر نے پوچھا کہ تم پرانے مارکسسٹ انقلابی، راجہ مہندرا پرتاپ سنگھ سے نہیں ملے، جنہوں نے دو سال قبل عام انتخابات میں جن سنگھ کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کو شکست دے کر زبردست کارنامہ انجام دیا ہے۔

میں دوسرے ہی دن وقت لے کر تین مورتی کے قریب ممبر پارلیمنٹ کے بنگلہ میں راجہ صاحب سے ملنے پہنچا۔ خلطہ پاجامے پر کھدر کا سلوکہ پہنے، راجہ مہندرا سنگھ، ڈراینگ روم میں میرے منتظر بیٹھے تھے۔ مجھے وہ نہ تو راجہ لگے اور نہ انقلابی۔ منحنی سا قد، چھوٹی سی برائے نام داڑھی، سر پر چھوٹے چھوٹے ہلکے سے کھڑے ہوئے بال۔ چہرے پر ملی جلی تھکاوٹ اور کمزوری طاری لیکن آواز کڑک دار۔

مجھے بانس کے مونڈھے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور بولے پہلے آپ اپنے بارے میں بتائیے۔ میں تو آپ کو بالکل نہیں جانتا۔

میں ٹھٹھک گیا کہ میں ان سے ملنے اور ان کا انٹرویو لینے آیا ہوں لیکن راجہ صاحب نے تو مجھ سے انٹرویو لینا شروع کر دیا۔ بہرحال میں نے مختصرا بتایا کہ میں پاکستان کے اخبار جنگ کا دلی میں نامہ نگار ہوں۔

کہنے لگے ارے صاحب یہ تو آپ نے اسی وقت بتایا تھا جب آپ نے ملنے کا وقت لیا تھا۔ ذرا تفصیل سے بتائیے کہاں سے تعلق ہے۔ میں نے کہا کہ میں علی گڑھ میں پیدا ہوا تھا۔ راجہ صاحب، نقاہت کے باوجود اس تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ میں ڈر گیا۔ کہنے لگے صاحب آپ تو میرے پڑوسی نکلے۔ علی گڑھ سے آگرہ جاتے ہوئے اگلا اسٹیشن ہاتھرس کا ہے۔ میں وہی پیدا ہوا جاٹوں کی ریاست مرسان میں۔ کہنے لگے میں نے تعلیم علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں حاصل کی جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کہلایا۔ راجہ صاحب نے بڑے رازدارانہ انداز سے کہا کہ آپ کو تو کیا ویسے بھی بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ میں نے 1929 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے لئے ساڑھے تین ایکڑ زمین صرف دو روپے سالانہ کے پٹہ پر دی تھی۔ پھر سوال کیا۔ آپ نے تعلیم کیا علی گڑھ یونیورسٹی میں حاصل کی تھی؟ میں نے کہا جی نہیں اس سے بغاوت کر کے الگ ہونے والے تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں۔ راجہ صاحب نے اپنے دونوں منحنی سے ہاتھ اٹھا کر کہا، لیجیے صاحب ایک اور گہرا رشتہ نکل آیا آپ سے۔

میں دنگ رہ گیا۔ کہنے لگے میاں صاحب زادے آپ نے تو اس تعلیمی ادارہ میں تعلیم حاصل کی ہے جس سے میرے نہایت محبوب پرانے انقلابی ساتھی عبید اللہ سندھی کا قلبی تعلق رہا ہے۔ ہم ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلح جنگ شروع کرنے کے مقصد سے 1915 میں افغانستان گئے تھے اور کابل میں ہم نے ہندوستان کی جلاوطن انقلابی عبوری حکومت قایم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کا میں صدر تھا، بھوپال کے مولوی برکت اللہ وزیر اعظم تھے۔

مولانا عبید اللہ سندھی کی کیا حیثیت تھی اس انقلابی حکومت میں؟ میں نے انہیں ٹوکتے ہوئے سوال کیا۔ راجہ صاحب نے بتایا کہ وہ ہندوستان کے امور کے وزیر تھے۔ مولوی بشیر وزیر جنگ تھے اور چمپا کرن پلائے وزیر خارجہ تھے۔ اس جلا وطن حکومت نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جہاد کا اعلان کیا تھاجو افغانستان سے ملحق ہندوستان کے علاقوں سے شروع ہوتا۔

میں نے سوچا یہ اچھا موقع ہے انٹرویو کی باگ اپنے ہاتھ میں لینے کا۔ میں نے سوال کیا کہ یہ انقلابی حکومت اپنے مقصد میں کیوں ناکام رہی؟

راجہ صاحب نے ایک لمبی آہ بھری اور تھوڑی دیر توقف کے بعد بولے کہ آپ کو تعجب ہوگا کہ اس جلاوطن حکومت کے قیام کا اعلان افغانستان کے بادشاہ امیر حبیب اللہ کے باغ بابر محل میں ہوا تھا اور امیر حبیب اللہ سے بڑی توقعات تھیں کہ وہ ہماری بھر پور مدد کریں گے لیکن فروری 1919 میں انگریزوں کے ایک ہندوستانی جاسوس مصطفی صغیر نے انہیں قتل کر دیا۔ امیر حبیب اللہ کے قتل کے بعد ان کے بھائی نصر اللہ تخت نشین ہوئے لیکن امیر حبیب اللہ کے بیٹے امان اللہ نے نصر اللہ کو معزول کر کے خود تخت پر قبضہ کر لیا۔ بس اس کے بعد ہماری مشکلات شروع ہو گیں۔ پہلی عالم گیر جنگ کے دوران امیر حبیب اللہ غیر جانبدار رہے تھے اس کے عوض انگریزوں نے تین کروڑ پونڈ ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ امان اللہ نے تخت پر بیٹھنے کے بعد انگریزوں سے یہ رقم طلب کی۔ انگریزوں نے رقم ادا کرنے کے لئے یہ شرط عاید کی کہ جلا وطن حکومت ختم کردی جائے او ر اس کے کرتا دھرتاوں کو افغانستان سے نکال دیا جائے۔ راجہ صاحب نے کہا کہ اس دوران میرے سر پر انگریزوں نے انعام مقرر کر دیا تھا لہذا میں جاپان فرار ہوگیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کابل سے ماسکو چلے گئے، یوں انگریزوں کی چال اور امان اللہ خان کے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ نے ہمارا مقصد ناکام بنا دیا۔

راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جہاد کی تمام تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔ میں جب جرمنی میں تھا تو میں نے پولینڈ کی سرحد پر جنگی کیمپ میں جنگ کی حکمت عملی اور جنگ کے طریقے کی تربیت حاصل کی تھی۔ راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1917 میں روس میں لینن سے ملاقات کی تھی اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں جرمنی کی قیصر ویلہلم اور ترکی کے سلطان محمد رشاد سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ نے کتنا عرصہ جلاوطنی میں گذارا؟ کہنے لگے کہ پورے 32 سال اور ہندوستان کی آزادی سے ذرا پہلے 9 اگست 1946 کو وطن واپس آیا۔ راجہ صاحب سے میں نے دریافت کیا کہ 1932 میں انہیں نوبیل امن انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ کس نے انہیں نامزد کیا تھا، راجہ صاحب نے بتایا کہ سویڈن کے ایک ممتاز ڈاکٹر اور صحافی این اے نیل سن تھے۔ انہوں نے نامزدگی میں میری تعریف کی تھی کہ میں نے تعلیم کے لئے اپنی بڑی جایداد عطیہ میں دی ہے اورمیں نے ونداون میں پریم مہا ودیالہ کے نام سے ایک ٹیکنکل کالج قایم کیاہے۔ 1913 میں میں نے جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کے ساتھ جو کام کیا تھا اس کا بھی ذکر کیا تھا اور یہ کہ میں عالمی فیڈریشن کے قیام کا حامی ہوں۔ میں نے راجہ صاحب سے دریافت کیا کہ اُس سال نوبیل امن انعام کس کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے زور دار قہقہ لگا کر کہا ” کسی کو نہیں“ اس سال یہی فیصلہ کیا گیا کہ کسی کو امن کا نوبیل انعام نہیں دیا جائے گا۔

میں نے راجہ صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے شادی کی تھی یا آپ انقلابی سرگرمیوں میں الجھے رہے۔ کہنے لگے ہاں میری شادی ہوئی تھی، اُس زمانہ میں جب کہ میں ابھی کالج میں تھا۔ پھر وہ رُ ک گئے۔ ایسا لگا کہ وہ نوجوانی کے ان دنوں کی یادوں میں گھر گئے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہاں ہوئی تھی شادی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ ہریانہ کی ریاست جند کے سکھ راجہ کی بیٹی تھیں۔ نام تھا ان کا بلویر کور۔ کہنے لگے اب دیکھیے اسی زمانہ میں میں اپنے کالج کے ساتھیوں کے ساتھ بلقان کی جنگ میں حصہ لینے کے لئے چلا گیا۔ یہ 1912 کازمانہ تھا۔ میں نے پوچھا کہ کس کی طرف سے آپ لڑنے گئے تھے۔ کہنے لگے، ترکی کی طرف سے اور کس کی طرف سے۔ لیکن شکست ترکی کو ہوئی۔ راجہ صاحب نے کہا کہ ہماری اہلیہ بھی چند سال بعد انتقال کر گئیں۔

میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے  1957میں جن سنگھ کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کو انتخابات میں شکست دے کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ راجہ صاحب بڑے فخر سے کہنے لگے۔ جی ہاں ہم نے متھرا سے انتخاب لڑا تھا، آزاد امیدوار کی حیثیت سے۔ یہ مقابلہ ایک انقلابی اور ایک ہندو قوم پرست کے درمیان تھا اور متھرا کے علاقہ کے عوام نے ہندو قوم پرستی کے خلاف فیصلہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کاش ہندوستان کے عوام اسی طرح سے ہندو قوم پرستی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں جو ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرزم کے لئے زبردست خطرہ ہے۔

ہندوستان کے ایک انقلابی، جس نے ساری عمر اپنے وطن کی آزادی کے لئے جدو جہد کی اور اس کےلئے دنیا بھر کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے برسوں ملکوں ملکوں کے دورے کئے، اس کے وطن کے عوام نے اس کی خواہش کا کوئی پاس نہیں رکھا۔ (آج ہندوستان میں ہندو قوم پرستوں کی حکومت ہے۔)

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani