پانامہ لیکس اور ننگا بادشاہ


\"imamزمانہ قدیم کا ایک بادشاہ جو بزعم خویش عقلِ کل اور دانائی میں لاثانی ہونے کے خبط میں بری طرح مبتلا تھا۔ وہی کدو بادشاہ جسے ٹھگوں نے اس کے ذوقِ لطیف اور سوجھ بوجھ کا ادراک رکھتے ہوئے ایک عظیم الشان مگر غیر مرئی لباس پہنا دیا تھا۔ اِشاراتی انداز میں پہنائے گئے اس شاہی لباس کی یہ شان بھی بتا دی تھی کہ یہ زرق برق لباس فقط عقل و دانش اور فہم و فراست رکھنے والے اشخاص کو ہی نظر آئے گا جبکہ کوڑھ مغز لوگ اس لباس کو چھونے بلکہ دیکھنے تک سے محروم رہیں گے۔ بھاری انعام و اکرام سے نوازے جانے والے یہ ٹھگ جب کدو بادشاہ کو شان و شِکوہ والا تخیلاتی لباس پہناتے تھے تو بادشاہ سلامت کو لباس اگرچہ نظر نہیں آتا تھا مگر اسے ٹھگوں اور چاپلوس درباریوں کے سامنے خود کو کوڑھ مغز اور شاہی منصب کے لیے نااہل ثابت کرنا ہرگز منظور نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ لن ترانی میں بے مِثل ٹھگوں کی بے بدل برین واشنگ کی وجہ سے بادشاہ کو اپنی بے لباسی میں ہی شان و شوکت، طاقت و قوت اور اپنی اہلیت سب نظر آنے لگی۔ اب وہ پُورے اعتماد سے ننگ دھڑنگ ہی دربار میں تشریف لے جاتا تھا۔ بادشاہ کے وزیر اور مشیر بھی اپنے آپ کو بغلول کہلانے اور شاہی منصب کے چھوٹ جانے کے ڈر سے یہی ظاہر کرتے تھے کہ لباس پہننے سے بادشاہ کی شان و شوکت کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ قصیدہ گو بادشاہ کے لباس کی سج دھج اور قوت و طاقت کے قصیدے پڑھ کر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے۔ بادشاہ نے انعام کے طور پر لباس تیار کرنے والے کاریگروں اور قصیدہ نگاروں کو اپنے وزیر، مشیر، سفیر، نمائندگان خصوصی، گورنر اور ممبر مجلس شوریٰ بنا لیا، کچھ کو سرکاری اداروں میں بھاری تنخواہوں پر عہدے دیئے اور بھانڈوں (زمانہ قدم کے صحافی) کو کرنسی سے بھرے لفافوں کی بجائے بڑے سائز کے تھیلوں سے نوازا جاتا۔

کچھ عرصہ بعد بادشاہ سلامت کا اعتماد اِتنا بڑھا کہ اپنے مُنفرد لباس کی خصوصیات بارے منادی کروانے کے بعد وہی لباس پہن کر عظیم الشان جلوس کی قیادت کرتے ہوئے وہ براہ راست عوام کے درمیان جا پہنچا۔ عزت مآب نے ایک نظر عوام پر ڈالی جو وحشت انگیز سُناٹے میں ہکا بکا کھڑے تھے۔ زبان کو تالو سے چپکائے سہمے ہوئے عوام میں سے کسی کو بھی اس سچ کے اظہار کی ہمت نہ ہو سکی کہ بادشاہ تو الف ننگا ہے۔ ویسے بھی بھلا کون یہ کہہ کر اپنے آپ کو سخت سزا کا حقدار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ احمق کہلواتا؟ تخیلاتی لباس کی شان و شوکت کا بھرم تب ٹوٹا جب جلوس میں ایک بچے کی آواز گونجی \”بادشاہ ننگا ہے!\”۔ یہ سنتے ہی جلوس میں مزید سناٹا چھا گیا اور تھوڑی دیر بعد پھس پھس کے ساتھ مکھیاں سی بھنبھنانے لگیں اور بادشاہ کے کانوں تک یہ آوازیں واضح طور پر پہنچنے لگیں کہ \”بادشاہ ننگا ہے! ۔۔۔۔۔ بادشاہ ننگا ہے! ۔۔۔۔۔ بادشاہ ننگا ہے!\”۔ اس ذلت آمیز صورتحال میں بادشاہ سلامت کے اوسان خطا ہوگئے، سارا خود ساختہ وقار، طنطنہ اور رعونت کافور ہو گئی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے ننگے بدن پر آگے پیچھے ہاتھ رکھے، زمین پھٹے اور وہ زمین میں زندہ دفن ہو جائے۔ ساری کی ساری ڈھکوسلہ بازی چشمِ زدن میں دھڑام سے گر گئی۔ بادشاہ نے غیر مرئی لباس والے ٹھگوں کو ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندوا دیا، خوشامدیوں کو بھوکے کتوں کے آگے پھینکوا دیا، اپنے عوام سے معافی مانگی اور بادشاہت چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔

لمحہ موجود میں وطنِ عزیز کے شہنشاہ معظم ہماری کہانی کے بادشاہ جیسی اعلٰی خصوصیات بشمول عقل و دانش، فہم و فراست اور شاہی منصب کے شایان شان اہلیت سبھی کچھ تو رکھتے ہیں۔ فرق اگر ہے تو فقط شرم و حیا کے معاملے میں ہے۔ حال ہی میں جب پانامہ پیپرز نے ہمارے جلالت ماآب کی حقیقت حال کے بارے دنیا میں بلند گونجتی ایک طاقت ور آواز اٹھائی، جو بادشاہ کے بارے میں پاکستانی میڈیا کی تخلیق کردہ تخیلاتی جاہ و حشم کو پارہ پارہ کرتے ہوئے اب ہر پاکستانی کے کانوں تک جا پہنچی ہے۔ اِس ناگہانی صورتحال میں شہزادی، شہزادوں، شاہی سمدھی، درباریوں، منشیوں اور میڈیائی طبلچیوں نے پورس کے ہاتھیوں کی طرح ظل الہٰی کا تخیلاتی لباس ہی لیرولیر کر دیا ہے۔ شاہی خاندان اور اس کے حواریوں کے سر پر یہ آفت بیرونِ ملک سے اچانک آ پڑی ہے، ورنہ پاکستان میں تو  یہ ہر سچائی کا گلا بڑی بے دردی سے گھونٹ دیا کرتے ہیں۔

بادشاہ سلامت کو ننگا ثابت کرنے والے پانامہ پیپرز کی اس آواز پر ہمارے جلیل القدر بادشاہ سلامت کا ردِعمل حیران کن ہے، جو اس الم نشرح ذِلت آمیز صورتحال میں شرمندہ ہونے کی بجائے طمطراق سے پوری قوم کے سامنے اپنا بچا کچھا لباس بھی اتار کر الف برہنہ ہونے کے باوجود ابھی تک پورے کروفر کے ساتھ تخت شاہی پر باقاعدہ رونق افروز ہیں۔ بادشاہ کے قصیدہ گو خوشامدیوں کا ایک جمِ غفیر ہے، جو بادشاہ سلامت کے ہمراہ بے لباس ہو کر بادشاہ کی شان و شوکت اور پاکدامنی کے قصیدے پڑھ کر زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اِس جلوس میں بادشاہ کے وزیر، مشیر، خصوصی نمائیندے، حکومتی اداروں کے سربراہ اور میڈیائی بھونپوؤں کے ساتھ ساتھ منصف بھی شامل ہیں جو سبھی مِل کر عوام کے شعور کی مسلسل توہین کر رہے ہیں۔ مگر حیرت سی حیرت ہے کہ پاکستانی عوام بھی عزت مآب کے بارے میں پوری صورت حال جاننے کے باوجود وحشت انگیز سناٹے میں ہکا بکا کھڑے ہیں۔ زبان کو تالو سے چپکائے سہمے ہوئے بیس کروڑ عوام میں سے کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت نہیں ہو رہی کہ وہ اظہار کر سکے کہ بادشاہ سلامت تو الف ننگے ہیں۔ شاید عشروں سے توہینِ مسلسل کا اثر ہے جو عوام کو طوقِ غلامی کا پختہ اسیر بنا چکا ہے۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ پروقار غیبی طاقتوں نے اپنی ضروریات کے عین مطابق ایک طوطے جتنے عقل کے بغلول شخص کو تیسری بار پاکستان کی بادشاہت کا تاج پہنا دِیا ہے، جس کی سیاست کا نظام تنفس فقط سِلفی منشیوں کی تیار کردہ پریس ریلیزوں، پلانٹڈ اِنٹریوؤں اور فیڈڈ سوالات کے زور پر چل رہا ہے (اگر کسی کو شک ہے تو پھر طے شدہ پلانٹڈ اِنٹرویو کے بغیر بادشاہ سلامت کو بھلے کسی تھرڈ کلاس صحافی کے سامنے بٹھا دیں، پرخچے نہ اُڑ جائیں تو اور بات ہے)۔ بادشاہ سلامت کی اہلیت کا یہ عالم ہے کہ وہ متعلقہ فائلیں نہیں پڑھتے، اِن فائلوں پر ہدایات نہیں لِکھ سکتے، غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے، دو فقرے بولنے ہوں تو طوطے کی طرح کوئی بلواتا ہے یا پھر اگر بادشاہ سلامت اکیلے ہوں تو جیب سے پرچی نکال کر اپنے عظیم اور مدبر رہنما ہونے کا نقد ثبوت دیتے ہیں (اس صورتحال میں غیر ملکی سربراہ فوراً سمجھ جاتا ہو گا کہ جس قوم کا یہ گھامڑ رہنما ہے وہ یقینی طور پر عقل سے عاری، بصیرت سے نابلد، فراست سے محروم اور دانش سے بے بہری ہے)۔ بادشاہ سلامت مصروف اِتنے ہوتے ہیں کہ دن کا زیادہ وقت پانچ بار ڈائینگ ٹیبل پر تشریف لا کر انواع و اقسام کے کھانے تناول فرمانے اور لطیفہ گوئی کی مشقت برداشت کرتے ہیں۔ ویسے وطنِ عزیز کے بادشاہ کے انتخاب پر پروقار غیبی طاقتیں اپنی ڈھب کے بندے کے چناؤ پر یقینی طور داد کی مستحق ہیں، جن کا جب دل کرتا ہے ان کی خواہشات میں رکاوٹ بننے والے مخالفین پر مابدولت کے ذریعے بڑے سے بڑا بہتان لگوا دیا جاتا ہے (یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ وطنِ عزیر میں بادشاہ سلامت یا اس کے درباریوں نے مخالفین پر جو بھی بڑے بڑے بہتان لگائے ہیں، ان سے کئی گنا بڑے کرتوت یہ عملی طور پر بذاتِ خود فرما چکے ہیں)، جھوٹے مقدمات کی بھرمار کروا دی جاتی ہے، جیل میں پھینکوا دیا جاتا ہے، بدترین تشدد کروایا جاتا ہے، میڈیا میں کردار کشی کا طوفاں بپا کروا کر عوام کے ذہنوں میں راسخ کر دیا جاتا ہے کہ ان کے مخالفین دنیا کے بدترین رذِیل ہیں (یہ دوسری بات ہے کہ جب غیبی طاقتیں بھولے بادشاہ سے آنکھیں پھیرتی ہیں تو یہ بیچارے گلوگیر آواز کے ساتھ مخالفین سے گڑ گڑا کر معافیاں مانگتے ہیں بلکہ لکھ کر پوری دنیا کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ مخالفین پر جھوٹے مقدمات پریشر کی وجہ سے بنائے گئے تھے)۔ یہاں بادشاہ سلامت کے چاہنے والوں کو بھی نہ سراہنا بہت بڑی زیادتی ہو گی، جو پینتیس سال سے مابدولت کی اندھی محبت کے کھونڈے سے بندھے کھڑے ہیں۔

یہ حقیقت پوری طرح وا ہے کہ پانامہ پیپرز کے انکشافات کے بارے میں بھلے فورینزک آڈٹ ہو جائیں (اِس آڈٹ میں اِنٹرنیشنل قوانین بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ نیز، پیسے کون سے قانونی طریقے سے بھیجے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ترتیب وار ٹریل پڑیں ہوں گے؟)، درجنوں کمیشن بن جائیں اور وہ بھی بھلے اپوزیشن کی سو فیصد مرضی سے بنیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ہی آنا ہے کیونکہ بادشاہ سلامت نے ہر جگہ پر قطار در قطار اپنے حواری تعینات کیے ہوئے ہیں اور اگر اِتفاقیہ کسی جگہ پر حواری موجود نہ بھی ہوں تو بادشاہ سلامت کی جادوئی چمک میں اِتنی طاقت ہے کہ مامور شدہ اشخصاص کا گھائل ہونا یقینی ہوتا ہے۔

شاہی خاندان کے اعترافی بیانات سے بادشاہ سلامت کی ہمالیہ ایسی کرپشن روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے، لہذا اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں فضول قسم کے مطالبوں کی بجائے بادشاہ سلامت سے پہلا مطالبہ یہ کریں کہ رلا دینے والی پختہ اداکاری کے ساتھ الم ناک انداز میں اپنی خود ساختہ طویل داستانیں سنانے اور بودے قسم کے کمیشن بنانے کی بجائے سب سے پہلے لکھ کر فقط یہ بتائیں کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اربوں کھربوں ڈالرز کی مالیتی جائیداد اور درجنوں بڑی بڑی آف شور کمپنیوں کے لیے اتنا بڑا سرمایہ کہاں سے آیا، اس پیسے پر کب اور کتنا ٹیکس دیا گیا اور یہ پیسہ کس چینل کے ذریعے باہر بھیجا گیا؟ جب آن حضرت سے ان بنیادی سوالات کے جوابات آ جائیں، تب کمیشن، فورینزک آڈٹ اور انکوائری کمیٹیز وغیرہ بنائی جائیں، جس کی وجہ سے ہر کام سہل ہو جائے گا۔ اگر یہ ہو جاتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ ایسے ایسے انکشافات ہوں گے کہ عوام کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ عوام طوقِ غلامی اتار پھینکیں گے اور اپنی توہینِ مسلسل کا پورا پورا حساب لیں گے۔ حاشیہ بردار منشیوں اور تخیلاتی جاہ و حشم تخلیق کرنے والے بے ننگ میڈیائی بھونپوؤں کی ایک نہیں چلی گی۔ دولت، طاقت، دھونس اور کذب بیانی کا زور دم توڑ دے گا۔ جس کے نتیجے میں بے شرمی کے تاج اور ڈھٹائی کے تخت ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ اس صورت حال پر عوام کے ساتھ آںجناب کے اندھے عقیدت مند بھی وحشت انگیز سناٹے میں ہکا بکا ہونے اور سہمے ہوئے کھڑے رہنے کی بجائے یقینی طور پر اونچی آواز میں نعرہ زن ہو جائیں گے۔ \”بادشاہ ننگا ہے! ۔۔۔۔۔ بادشاہ ننگا ہے! ۔۔۔۔۔ بادشاہ ننگا ہے!\”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments