اباجی


ٹائم اینڈ سپیس کی اس دنیا میں’ مٹی’ پانی اور ہوا کے اس عالم میں سبھی کچھ وافرہے اور مادے کی تینوں شکلیں بہ درجہ اُتم۔ سپیس بھی بہت ہے۔ قرآن نے تو خیر کب کا کہہ رکھا ہے’ اب تو سائنس بھی مان گئی کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ یہ وسیع و عریض لامتناہی خلا بڑھ رہا ہے، مسلسل و پیہم۔ مادہ بھی شکلیں بدلتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا۔ اس سارے منظر نامے میں تیزی سے کچھ اگر سمٹ رہا ہے’ کم ہورہا ہے تو وقت۔ پتہ نہیں ہم شاید آخری زمانے میں ہیں۔ سچے پیام بر نے فرمایا تھا کہ آخری زمانہ آئے گا تو وقت میں برکت نہ رہے گی۔ آج کچھ ایسا ہی عالم ہے۔ دن’ ہفتہ’ مہینہ’ سال چڑھتا ہے اور گویا پلک ہی جھپکی ہو’ ختم ہوجاتا ہے۔ کسی بلٹ ٹرین کا انجن لگا ہے وقت کو۔
 شب کا دوجا پہر تمام ہوچکنے کو ہے اور مجھے بڑی شدت سے احساس ہورہا ہے وقت کے گزرنے کا’ یا بہ قول آئن سٹائن وقت میں سے خود کے گزرنے کا۔ اور میرا دل بہ ضد ہے کہ میں آپ سے بھی کہوں۔ “دوستو! ہمارے حصے میں آیا وقت بڑا تھوڑا رہ گیا ہے’ اس کی رفتار کے تیور بتاتے ہیں کہ بس ختم ہوجانے کو ہے۔ کسی ساعت اچانک “سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا اور لاد چلے گا بنجارا” زندگی کے گھڑیال کی یہ ٹِک ٹِک رک جائے گی اور ہم ایسی دنیاﺅں کو سفر کرجائیں گے جہاں وقت نام کی کوئی شئے ہے اور نہ مکاں۔ وہاں کے باسیوں کو گھڑی اور اس پر ماپے جانے والے وقت کی اصطلاحوں سے کوئی آشنائی نہیں۔
شکرخورہ’ منہ بھر شکر کھائے بیٹھا ہے اور میٹھے کے مضر اثرات پر بھاشن دینے کو کاغذ پر قلم کا گھوڑا دوڑاتا ہے مگر مجبور ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اثر پذیری صفر ہوگی’ دل اکساتا ہے’ اصرار کرتا ہے کہ آپ سے کہوں بھلے لوگو! وقت تھوڑا رہ گیا ہے’ جتنا ہے اس کی قدر کرو’ اس سے کچھ کمالو۔ کمانے سے میری مراد مے فیئرفلیٹس یا آف شور کمپنیاں نہیں بلکہ دل کے سکون کی کمائی ہے۔ یہاں اطمینانِ قلب اور وہاں بے وقت دنیا کی آسودگی۔ میرا دل بھاری ہے اور بوجھل’ گویا تہہِ سنگ۔ ضمیر کی سنگ باری سے دل کی کشتی کا پیندا چھلنی ہوتا ہے اور اس میں ندامت کا پانی بھرا چلا آتا ہے۔
میرے تین بچے ہیں، زینب زہرا اور امامہ۔ ہر باپ کی طرح مجھے ان سے بڑی محبت ہے بلکہ دیومالائی کہانیوں میں وہ جو جادوگر ہوتا تھا جس کی جان توتے میں ہوا کرتی تھی’ اسی کی طرح ان تینوں میں میری جان ہے۔ خدا نہ کرے ان کو کوئی دکھ’ بیماری’ تکلیف ہو تو اپنی بساط اور حیثیت سے بڑھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کی ضروریات کا ہر طرح خیال رکھتا ہوں۔ دوپہر کو گھر کا چکر نہ لگاسکوں تو ان کے لئے اداس ہوجاتا ہوں۔ کبھی دو چار روز کے لئے یہ ننھیال چلی جائیں تو ان کے بغیر گھر میں رہنا محال ہوجاتا ہے کہ بے طرح یاد آتی ہیں۔ میرے تینوں زمانوں میں سے کوئی بھی ان کے خیال کے وجود سے خالی نہیں۔ میرے آنگن میں اترنے کے بعد سے لے کر آج تک جو وقت ان کے ساتھ گزرگیا’ وہ ماضی کا حصہ بن کر میری یادوں کا حسین اثاثہ ہے’ جو میری خلوتوں میں رنگ بھرتا ہے۔ حال کی یہ میری اولین ترجیح ہیں اور ان کے مستقبل کے لئے دعائیں لبوں پر رہا کرتی ہیں۔ یہ ہر باپ کی محسوسات ہیں اور معمولات۔ میرے لئے اباجی نے بھی یہی سب کچھ محسوس کیا ہوگا۔ کیا ہوگا مطلب؟؟ کیا’ مجھے بہت کچھ یاد ہے۔ پیر پیر چلنے سے لے کر اب تک۔
اب آپ کو اس مقام تک لے آیا ہوں جہاں میں نے سوال اٹھانا ہے۔ اپنے خلجان کا ذکر کرنا ہے۔ اس پتھر بارے بتانا ہے جو دل کو بوجھل کئے ہوئے ہے۔ یہ سوال یوں ذہن میں آیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں طلوع ہونے والی صبح اس دن کا پیش خیمہ ہے جسے دنیا فادرز ڈے کے طور پر منایا کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں ابا جی کو وہ محبت اور توجہ کیوں نہیں دے پاتا جو انہوں نے مجھے دی اور میں اپنے بچوں کو دیتا ہوں۔ توجہ اور محبت دے پانا تو خیر اگلا مرحلہ ہے’ میرے دل سے اس درجے کی محبت ابا جی کے لئے عنقا ہے جو اولاد کے لئے موجود ہے جب کہ مجھے ان کی ساری محبتیں’ شفقتیں’ مہربانیاں’ قربانیاں یاد ہیں اور اب خود ایک باپ ہونے کے ناطے سمجھ سکتا ہوں کہ انہوں نے مجھے پیدا ہونے سے لے کر اب اڑتالیس برس کا ہونے تک کیا کچھ نہیں کیا۔ پھر میں اب ان کو اس سب کا عشرِعشیر بھی کیوں نہیں لوٹاپارہا؟؟ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی میں خود کو نہیں سمجھاپاتا۔ سمجھاپانے کے بھی کیا معنی؟ اولاد کے ساتھ جو وارفتگی ہوتی ہے’ کیا انسان خود سے بحث کرکے سمجھاتا ہے کہ یہ میرا بچہ ہے اور مجھے اس کے لئے دل میں پیار رکھنا ہے؟ یہ تو سب بے اختیاری عمل ہے’ سرشت کا حصہ۔ کسی نے لکھا تھا کہ جنابِ آدمؑ کے والدین نہ تھے سو فطرت نے ان کو محبت کی جو متاع بخشی تھی’ وہ ساری کی ساری انہوں نے اولاد پر لٹائی۔ تب سے محبت کا یہ دریا نیچے( اولاد) کی طرف بہاﺅ میں تندی رکھتا ہے۔
آپ سے کیا چھپاﺅں اور ڈھلتی شب کیا جھوٹ کی چادر اوڑھوں’ سچی بات ہے مجھے ابا جی پر غصہ بھی بہت آتا ہے۔ ابا جی کے ہاتھوں کا مجھ سے جو تعارف ہے’ وہ ایک دست گیر کا ہے۔ان ہاتھوں نے مجھے استوار کیا’ جب کبھی میں لڑکھڑایا تو بڑھ کر مجھے تھاما اور جو کبھی گرگیا تو یہی وہ ہاتھ تھے جنہوں نے مجھے اٹھاکر پھر سے زندگی کی راہ پر چلنے کو ایستادہ کیا۔ کسی نے کبھی دھکا دیا تو آسرے کے لئے میں نے انہی ہاتھوں کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی بیمار پڑا تو انہی مضبوط ہاتھوں نے میری پنڈلیاں دبائیں۔ ابا جی کا آج بھی یہی ماننا ہے کہ ٹانگیں’ بازو دبانے سے بخار بھاگ جاتا ہے اور حرارت سے ٹوٹتے جسم کو قرار ملتا ہے۔
اب یہی ہاتھ گاڑی سے اترتے ہوئے’ بستر سے اٹھ کر باتھ روم تک جانے کے لئے میری طرف سہارا مانگنے کو بڑھتے ہیں۔ بتایئے! مجھے غصہ نہ آئے؟ میرا دست گیر’ میرا دست نگر کیوں کر ہوسکتا ہے؟ دستِ اَماں بخش کو دست گرفتہ کی صورت میں خود کی طرف بڑھتا دیکھ کر برداشت نہیں ہوتا۔
میں بیمار ہوا’ کسی تکلیف میں مبتلا ہوا تو اس پیکرِ شفقت نے مجھے سنبھالا’ میری خبر گیری کی۔ میرے تصورات میں اباجی کا کردار بیمار کو سنبھالنے والے مسیحا کا ہے۔ اب جو کبھی وہ گھٹنے کی درد کی شکایت کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے عارضے کی تو مجھے تب بھی یقین نہیں آتا۔ تیماردار بھلا کیسے اور کیوں کر بیمار ہوسکتا ہے۔ کبھی وہ کسی معاملے پر مجھ سے معلومات کے متقاضی ہوتے ہیں تو مجھے گراں گزرتا ہے۔ شیرخوارگی سے لے کر اب تک مجھے سکھانے والا بھلا میرے علم کا محتاج کیوں کر ہوسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میرا امتحان لیا جارہا ہے یا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ ابا جی کی یادداشت بہت اچھی رہی ہے۔ میری ضروریات کو بلکہ آسائشات کو بھی وہ کبھی نہیں بھولے۔ بہت چھوٹا تھا’ تب ملتان میں ہائی کورٹ نہیں ہوا کرتا تھا’ مقدمات کی پیروی کے لئے وہ لاہور جاتے’ واپسی پر کبھی خالی ہاتھ نہ آئے تھے۔ میں انہیں ہمیشہ یاد رہتا۔ اب وہ ایک واقعہ کو کئی کئی بار سناتے ہیں تو بھلا کیوں مجھے غصہ نہ آئے۔ وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ابھی رات ہی تو مجھے یہ بات پوری جزئیات کے ساتھ بتائی تھی۔ اب پھر سنانے پر مصر ہیں۔
ابھی جو پچھلا ویک اینڈ گزرا ہے تو ایک عرصے کے بعد ابا جی نے رات ہمارے ہاں قیام کیا۔ انہی باتوں پہ’ جن کا ذکر اوپر کے دو پیرا گرافس میں گزرا’ میں ان سے کتنی ہی مرتبہ غصہ ہوا۔ کبھی تو زبان سے بھی اس کا اظہار ہوگیا مگر اباجی کے اعصاب شاید واقعی کم زور ہوچکے ہیں، اب وہ میری بدزبانی کا بڑا بھی نہیں مانتے۔ ابھی رات گئے ختم ہونے والی ایک تقریب میں کسی نے کہا کل فادرز ڈے ہے تو واپسی پر گاڑی چلاتے ہوئے مجھے اپنا اباجی کے ساتھ اپنایا طرزِ عمل یاد آیا اور پتہ نہیں کون سا لاغر لمحہ تھا کہ ندامت کے جھکڑوں نے گھیر لیا جو ملال کی گرد اڑاتے تھے۔ پچھتاوے نے سانس لینا دوبھر کردیا تو مجھے احساس ہوا کہ وقت کی سرنگ میں بہت ساری مسافت طے ہوچکی ہے جو میرے قویٰ کو اب اضمحال سے آشنا کرنے لگی ہے’ ابا جی تو پھر مجھ سے بھی پینتیس چالیس برس پہلے سے اس سفر میں ہیں۔ پتہ اس لئے نہیں چلا کہ سیدالانبیاء کے فرمان کے بموجب وقت میں برکت ختم ہوگئی ہے۔ انہی کیفیات میں کاغذ قلم تھام کر بیٹھ گیا اور اب پڑھنے والوں سے کہتا ہوں کہ آئیے! وقت نام کے اس بھاگتے چور کو بڑھ کر تھام لیں۔ یہ جو اخلاق’ مروت’ بھائی چارا’ برداشت اور رشتوں کا احترام ہمارے دامن سے اچک کر بھاگا چلا جاتا ہے’ اس سے جتنی ممکن ہوسکے برامدگی کرلیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).