کنگ آف رومانس: یش چوپڑا


بالی وڈ کی ایک فلم مجھے بیحد پسند ہے،اس فلم کا نام ہے، جب تک ہے جاں،۔۔یہ فلم میں نے کئی بار دیکھی ہے، فلم کے گانے، رومانس،اور اسکرپٹ سب کا سب کمال ہے۔ شاہ رخ خان، کترینہ کیف اور انوشکا نےکمال اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے۔مزے کی بات ہے کہ مجھے کبھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس فلم کے ہدایت کار کون ہیں۔ یش چوپڑا کا جب ڈینگی وائرس کی وجہ سے انتقال ہو گیا، تو اس وقت مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ یہ فلم یش جی نے بنائی تھی۔ وہی اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھے۔ اس لئے آج یش چوپڑا کی زندگی کی کہانی کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بھی یش چوپڑا کا خیال دماغ میں آتا ہے تو ذہن میں کشمیر کی خوبصورت وادیاں رقص کرنے لگتی ہیں۔ کشمیر اور سوئیٹزلینڈ کی گہری نیلی جھیلوں کا ذکر جب بھی کوئی کرتا ہے تو سامنے یش جی کا چہرہ آجاتا ہے۔ یش جی کا ذکر آتے ہی گہرے نیلے آسمان کا خیال آجاتا ہے۔ جب بھی یش جی کا مسکراتا چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے دودھیہ بادل مسکرانا اور ناچنا شروع کردیتے ہیں۔ جب بھی عشق،محبت، خوبصورتی، رومانس کا ذکر آتا ہے، یش جی پروقار انداز میں قہقہے لگاتے ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ خوبصورت گیتوں اور خوبصورت ڈائیلاگز کا جب بھی ذکر آئے گا، یش چوپڑا کا چہرہ دنیا کے سامنے ہوگا۔ یہ تھے وہ یش جی جن کا آج ہم ذکر کر رہے ہیں۔

یش جی نے جھیلوں، وادیوں، نیلے پربت اور دودھیہ بادلوں کو ہمیشہ خوبصورت انداز میں اپنے فلموں میں نمایاں کرکے دیکھایا۔ یش چوپڑا انیس سو بتیس میں لاہور میں پیدا ہوئے، ان کے والد راج چوپڑا جی لاہور میں اکاونٹنٹ تھے، ان کو فلموں سے شدید چڑ اوت نفرت تھی۔وہ فلموں کے سخت خلاف تھے۔ راج چوپڑا فلموں کے اس قدر خلاف تھے کہ جب تک وہ زندہ رہے یش چوپڑا نے بالی وڈ کی ایک فلم تک نہ دیکھی تھی۔اسی دوران یش جی کے والد کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد یش چوپڑا نے فلمیں دیکھنا شروع کی۔ اب پندرہ برس کی عمر تھی، لاہور میں رہتے تھے۔ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی، اس لئے یش جی کو مہاجر بن کر لاہور سے جالندھر جانا پڑا۔ پندرہ برس کی عمر مین یش چوپڑا نے تقسیم کے درران کے خون ریز دنگے اپنی آنکھوں سے دیکھے، خون ریزی،تشدد اور بربادی کے تمام حادثات کے وہ آئینی شاہد تھے۔ اس انسان نے لاہور سے جالندھر اور پھر بھارت میں جاکر تقسیم کے دوران ہزاروں انسانوں کو ایک دوسرے کو قتل کرتے دیکھا۔ ۔لیکن ان میں کبی نفرت، تعصب اور زہر شامل نہ ہو سکا، شاید انہی حادثات کا اثر تھا کہ ان میں محبت، شانتی اور خوب صورتی تھی اور ہمیشہ وہ انہی ویلیوز کی تلاش میں رہے۔

والد نے زندگی بھر فلم نہ دیکھنے دی، اسی وجہ سے انہیں فلموں سے محبت ہوئی، پندرہ سال کی عمر میں تشدد اور نفرت دیکھی، شاید اسی وجہ سے محبت اور رومانس سے عشق تھا۔ کہتے ہیں یش چوپڑا بالی وڈ کے وہ عظیم ڈائریکٹر تھے جنہیں رومانس، محبت اور عشق سے گہری دلچسپی تھی، اسی لئے انہیں رومینٹک ڈائریکٹر کے طور پر ایک بہت بڑی اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔ ساری زندگی فلم بنائیں، فلموں کے ہدائتکار رہے اور ہمیشہ محبت اور رومانس کے متلاشی رہے، اسی وجہ سے یش جی کی زندگی میں محبت کی خوشبو آتی ہے، اور شاید اسی وجہ سے مجھے ان کی بطور ہدائیتکار جب تک ہے جاں فلم بہت اچھی لگتی ہے۔ بالی وڈ کی بڑی بڑی شخصیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ یش جی کی شخصیت میں رومانس جھلکتا تھا، انہیں خوبصورت اور حسین چہروں سے عشق تھا۔ ابھی پندرہ سال کی عمر میں جالندھر میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ بے چینی اور بے سکونی عروج پر تھی، تعلیم حاصل کرنے میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ اسی زمانے میں ان کے بڑے بھائی بی آر چوپڑا جو یش چوپڑا سے اٹھارہ سال بڑے تھے، ممبئی میں انگریزی اخبار میں لکھتے تھے، پھر آہستہ آہستہ کہانیاں لکھناشروع ہو گئے، فلموں کا اسکرپٹ لکھنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بالی وڈ فلم انڈسٹری کے مہان ڈائریکٹر بن گئے۔

دنیا انہیں دی بی آر کے چوپڑا کے طور پر جاننے لگی۔ اب یش چوپڑا بیس سال کے ہو گئے تھے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی فلموں کے ڈائریکٹر بنیں گے۔ فیصلہ کیا، سامان باندھا، اور پھر جالندھر سے ممبئی پہنچ گئے۔ بھائی نے کہا تم انجئینئر بنو، یس نے کہا، بھیا انجینئیر نہیں، میں تو فلم ڈائریکٹربنوں گا۔ اب بھائی کے ساتھ لگ گئے۔ بی آر چوپڑا کو رومانس، محبت اور عشق سے زیادہ دلچسپی نہ تھی، وہ سوشل ایشوز پر فلمیں بناتے تھے، ان کی فلمیں کامیاب بھی ہوتی تھی۔ اس لئے بی آر چوپڑا کی ہر فلم میں ایک سماجی پیغام ملتا ہے۔ آہستہ آہستہ یش جی کام کرتے رہے، پھر بھائی کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ بطور اسسٹنٹ ان کا کام یہ تھا کہ وہ اداکاروں کو ڈائیلاگ کے بارے میں بتاتے تھے۔ اب آرٹسٹوں کو ڈائیلاگ سکھانا ان کا کام بن گیا، ان میں سے کچھ آرٹسٹوں نے بی آر چوپڑا کو بتایا کہ آپ کا بھائی تو بہت بڑا آرٹسٹ بن سکتا ہے، وہ ایک عظیم اداکار بن سکتا ہے۔ بی آر چوپڑا کو اس پر شدید غصہ آیا، انہوں نے یش جی سے پوچھا، میاں تم اداکار بننا چاہتے ہو یا فلموں کے ڈائریکٹر۔ یش جی نے کہا، بھیا میں تو ہدائیتکار بننا چاہتا ہوں۔

انیس سو انسٹھ وہ پہلا سال تھا، جب یش جی کو پہلی فلم بطور ہدائیتکار مل گئی، یہ فلم ایک ناجائز بچے کی کہانی تھی، جی ہاں وہی فلم جس میں ساحر لدھیانوی کا مشہور گانا ہے، توں ہندو بنے گا، نہ مسلمان بنے گا،انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا۔ یہ فلم بہت کامیاب ہوئی۔ یش جی اس کے بعد ایک کامیاب ہدائیتکار بن گئے۔اس کے بعد ایک فلم بنائی جس میں تقسیم کا ذکر تھا، فلم ناکام ہو گئی، وجہ یہ تھی کہ بھارت کے لوگ تقسیم کے زخم کو بھولے نہ تھے، اس لئے وہ فلم فلاپ ہو گئی۔ اب یش جی نے فیصلہ کیا کہ انہیں اپنے اصل کی طرف آنا چاہیئے۔ یش جی نے اب ہلکی پھلکی انٹرٹینمنٹ فلمیں بنانا شروع کردیں، جن میں رومانس، محبت اور عشق کا تڑکا تھا۔ بطور ڈائریکٹر انہوں نے دوسری سپر ہٹ فلم دنیا کو دی جس کا نام وقت تھا۔ وقت اپنے زمانے کی کامیاب فلم تھی، اس فلم کے رومینٹک گانوں میں یش جی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس فلم کی کامیابی نے انہیں ایک کامیاب رومینٹک فلم ڈائریکٹر بنادیا۔

اس کے بعد ان کی کامیاب فلموں کی لائن لگ گئ، آدمی اور انسان، اتفاق، اس کے بعد تو انہیں بالی وڈ کے بہترین ڈائریکٹر کا خطاب مل گیا۔ اب یش جی عمر انتالیس سال ہو چکی تھی، ابھی تک غیر شادی شدہ تھے، دہلی میں ایک شادی کی تقریب میں انہوں نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کا نام پامیلا تھا، انہیں اس لڑکی سے محبت ہو گئی۔ پامیلا جی سے شادی کر لی۔ پامیلا صرف ان کی بیوی نہیں تھی، بلکہ ایک بہترین دوست اور ایڈوائزر بھی تھی۔ وہ ہر وقت یش جی کے ساتھ رہتی، یش جی بھی ہمیشہ انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے۔ اس موقع پر انہوں نے زندگی کا ایک اور اہم فیصلہ کیا۔ یش راج بینرز بنایا۔ اب وہ اسی بینر تلے فلمیں بنانے لگے، بھائی سے راہیں جدا ہو گئی۔ بھائی کی بجائے اب وہ اپنے لئے کام کرنے لگے، بھائی سوشل ایشوز پر فلمیں بنارہا تھا۔

یش جی کو رومینٹک فلموں کا جنون تھا۔ پھر کیا تھا، دی یش چوپڑا بن گئے۔ اب ان کی فلموں کی اپنی پہچان تھی، ان کی فلموں میں رومانس، خوبصورتی تھی۔ یش جی کو پھر سلیم جاوید جیسا جوڑا مل گیا، اب ان کی فلموں میں رومانس کے ساتھ ساتھ اینگری ینگ مین کا کردار بھی آگیا تھا۔اب دیوار،کبھی کبھی اور داغ جیسی فلمیں بناڈالی۔ اب یش جی نے فیصلہ کیا کہ وہ وہی فلمیں بنائیں گے جو انہیں پسند ہوں گی، اور پھر ایسا ہی ہوا یش جی نے ایسی فلمیں تخلیق کی جو وہ چاہتے تھے۔ سب نے کہا یش جی سوشل ایشوز پر آئیں، لیکن وہ کیسے اس طرف آتے، انہیں تو رومانس اور محبت سے عشق تھا۔ یش جی نے کبھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہ کیا، رومانس سے بھرپور فلمیں بناتے چلے گئے، کچھ فلمیں فلاپ بھی ہوئیں، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور بطور ایک رومینٹک ڈائریکٹر اپنا امیج برقرار رکھا۔

شاہ رخ خان کی ایک فلم ہے جس کا نام تھا ڈر، اس فلم کے ڈائریکٹر بھی یش چوپڑا تھے۔ دل تو پاگل ہے، نئے مزاج کی کمال مووی تھی، یہ بھی میری پسندیدہ فلموں میں ایک فلم ہے۔ اس کے بعد ان کی ایک اور بہترین فلم نے تہلکہ برپا کیا، اس فلم کا نام تھا، ویر زارا، اس فلم کے ہیرو بھی رومانس کے بادشاہ شاہ رخ خان تھے۔ بالی وڈ فلم انڈسٹری کے بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ یش جی کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ وہ رحم دل اور ہمدرد انسان تھے۔ ایک پروفیشنل ڈائریکٹر تھے، جنہیں آرٹسٹوں سے کام لینے کا فن آتا تھا، وہ آرٹسٹوں میں اتنا جذبہ بھردیتے تھے کہ آرٹسٹوں کے دماغ میں یہ آجاتا تھا کہ اس فلم میں وہ ایسی اداکاری دکھائیں گے کہ امر ہوجائیں گے۔ یش جی کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ سب کی عزت کرتے تھے۔ ایک شاندار فلمی لیڈر تھے۔ ہمیشہ مسکرا کر کام لیتے، اس لئے تو تمام فنکار آج بھی انہیں اپنا گرو مانتے ہیں۔

یش چوپڑا اس لئے کامیاب ہوا کہ اس کا زمین سے رشتہ بہت مضبوط تھا۔ پنجابی زبان سے ان کا رشتہ ہمیشہ خوبصورت رہا، وہ ایک ایسے پنجابی ہندو تھے جنہیں اردو شاعری اور اردو ادب سے گہری دلچسپی تھی، وہ تخلیقی انسان جنہیں فلم ڈائریکشن کا شوق ہے، جو فلم کو اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ یش چوپڑا جیسے تخلیقی انسانوں کی زندگی اور نظریات سے سیکھیں۔ امید ہے وہ نوجوان نسل جنہیں فلم کا شوق ہے وہ ضرور یش جی جیسی ماہان ہستی کی زندگی سے کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔
میرے خوابوں میں جو آئے، آکے مجھے چھیڑ جائے، اسے کہو کبھی سامنے تو آئے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے
چاندنی او میری چاندنی
میرے دل میں آج کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).