پچھلے 5 برس میں صحت میں پختونخوا پنجاب سے آگے کیسے گیا؟ فیکٹ شیٹ


روزنامہ ڈان کے 16 جون 2018 کے ایک ارٹیکل کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز کے پاس اگلے جنرل الیکشن میں بتانے کے لئے ایک عظیم الشان کامیابی کی کہانی ہیں اور وہ ” صحت سہولت کارڈ ” ہے۔ اور حقیقت میں یہ ایک انقلابی قدام ہے جسکی تقلید باقی صوبوں کی بھی کرنی چاہئے ۔
ایسا نہیں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں باقی صوبوں نے صحت پر کم خرچ کیا ہیں بلکہ  تمام صوبوں نے کم و بیش ایک جتنا ہی خرچ کیا ہیں لیکن اس خرچ سے ایک غریب آدمی کو صحت کی سہولیات میں فائیدہ کتنا ہوا ہیں۔ یہ کامیاب کہانی صرف پختونخوا میں ہی نظر اتی ہیں ۔ جس کا برمال اظہار کے پی کے عوام نے ہیرلڈ ڈان کے 2018 ہیلتھ کئیر سروے میں بھی کیا جس کے مطابق صوبے کے 84 فیصد عوام صحت کی سہولیات سے مطمئین ہیں جبکہ پنجاب میں 73 فیصد عوام مطمئین ہیں پختونخواہ کے اس کامیاب سکیم اور وژن کے پیچھے ایک جدید،  کفایت شعار، منظم اور موثر نظام کر فرما ہے۔
” صحت سہولت کارڈ ” تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا فلیگ شیپ پروجیکٹ تھا اس پروجیکٹ کے ذرئعے تین سال کے اندر اندر صوبے کے 60 فیصد خاندانوں کو یہ کارڈ ایشو ہوا۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخواہ میں ٹوٹل رجسٹرڈ خاندان 34 لاکھ ہیں ۔ اس تناسب سے 20 لاکھ خاندانوان کو اس کارڈ کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہیں۔ چونکہ سلیکشن کے معیار پر وقت ضائع کئے بغیر بے نظیر انکم سپورٹ کے ڈیٹا بیس کو بنیاد بنایا گیا لہذا اس کی پہنچ کو مزید 40 فیصد خاندانوں یعنی مزید 14 لاکھ خاندانوں تک ممکن بنانا مشکل نہیں ہوگا۔
اس کارڈ کے تحت ایک خاندان کو سالانہ 532000 روپے کی انشورنس گارنٹی ملتی ہیں۔ اس انشورنس کی مد پر پریمئم کی رقم حکومت سٹیٹ لائف انشورنس کو ادا کرتی ہیں ۔ کارڈ رکھنے والا خاندان صوبے کے کسی بھی سرکاری یا نجی ہسپتال میں اپنی مقرر کردہ حد تک علاج کرو سکتا ہیں۔
اس سکیم کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ علاج کے دوران اپکی مزدوری نہ ہونے سے انشورنس کمپنی مریض کو روز مرہ کے اخراجات کے لیے رقم ادا کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر علاج صوبہ خیبر پختونخواہ میں ممکن نہیں تو مریض کو دوسرے کسی صوبے کو بھی ریفر کیا جا سکتا ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت انشورنس کمپنی کو سالانہ فی خاندان 1500 روپے ادا کرتا ہیں ۔ جو کہ سرکاری سطح پر انتہائی مناسب کارپوریٹ ٹرم کی ارنجمینٹ مانی جاتی ہیں ۔
اگر ریسرچ کرکے دیکھا جائے تو سرکاری ہسپتالوں میں معمول کے معائنے کے لئے انے والے مریض اس دن کسی نہ کسی طریقے سے ہستمتال سے فائیدہ اٹھا لیتے ہیں ۔ لیکن جنکو اپریشن کی ضرورت ہو یا وارڈ میں داخلہ کی ضرورت ہو تو اس صورتحال میں پہلے آئے پہلے پائے کی بنیاد پر سروس دی جاتی ہیں ۔
اسی کمزور پہلو کو بنیاد بناتے ہوئے او پی ڈی میں انے والے مریض اس کارڈ سے فائیدہ نہیں اٹھا سکتے بلکہ اس سکیم میں صرف اپریشن اور وارڈ داخلہ کے مستحق مریضوں کو ہی شامل کیا گیا ہیں۔ یعنی کہ صوبے کا ہیلتھ کئیر جس شعبے میں سب سے پیچھے ہیں اسی کمزوری کو ہی بہتری کے لئے ٹارگٹ کیا گیاہیں۔
 اس فلاحی اور غریب دوست پروجیکٹ کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگا لے کہ اب تک انشورنس کمپنی نے انشورنس کلیمز کی مد میں ادائیگی کا 60 فیصد نجی ہسپتالوں کو دیا ہیں جس سے یہ بات تو بہر حال ثابت ہوتی ہیں کہ یہ مریض کی مرضی ہے کہ وہ سرکاری ہسپتال سے رجوع کریں یا نجی ہسپتال سے ۔
صحت سہولت کارڈ فلاحی ریاست کی طرف ایک ایسا قدم ہے جہاں پر غریب کو اس بات کی فکر نہیں کہ جان بچانے کے لئے زندگی کو کس بھی رش والے ہسپتال میں رسک پر چھوڑا جائے بلکہ یہ نظام غریب مریض کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی بہترین نجی ہسپتال جا کر بر وقت علاج کرو لیں ۔
اس فلاحی منصوبے کا ایک اور بڑا فائیدہ یہ ہے کہ جب مریض اپریشن اور باقی تشخیص کے لئے سرکاری ہسپتالوں کی جگہ پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کرتا ہے تو سرکاری ہسپتالوں پر بھی بوجھ کم ہوجاتا ہیں اور مریض کو عزت نفس کے ساتھ بہترین پرائیویٹ ہسپتال میں علاج بھی میسر اجاتا ہیں ۔
اس نظام سے مارکیٹ میں نجی سطح پر علاج مہیا کرنے والے ہسپتالوں میں مقابلے کی فضا بڑھ گئی ہے۔ اب وہ لوگ جن کے پاس سرمایہ ہے وہ اس سرمایہ کو نجی ہیلتھ کئیر میں لگا رہے ہیں جس کا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ایک متبادل ذرائع وجود میں آ گئے  ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).