اتفاقًا کچھ بھی نہیں ہوتا


اس نے میری تحریریں پڑھیں اور کہیں سے میرا نمبر لے کر فون کیا وہ انکساری اور شائستگی کے ساتھ اصرار کر رہا تھا،  کہ میں ان کے ساتھ چائے پی لوں بادل نخواستہ میں نے ان کی دعوت قبول کر لی اور دوسرے دن ان کے محل نما گھر میں اس کے سامنے بیٹھا تھا اس نے اپنی کہانی شروع کی سولہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے میرے ماں باپ دنیا چھوڑ گئے تھے دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی تھی اور میں اپنے دونوں چچاؤں کے رحم و کرم پر تھا جو طاقتور بھی تھے، حریص بھی اور ظالم بھی، مجھے محسوس ہوا کہ وہ زمین کی لالچ میں کسی بھی وقت میری جان لے سکتے ھیں اس لئے گاؤں چھوڑ دیا اور شہر چلا آیا۔ خوف اور محرومی کے ساتھ اب بھوک بھی میری زندگی کا حصہ بنے۔

کئی دنوں بعد ایک سٹور میں معمولی سی اجرت پر صفائی کرنے کا کام ملا۔ ایک دن ایک صا حب کی گاڑی آ کر رکی اور اس نے سٹور سے کچھ چیزیں خریدیں واپس ائے تو دیکھا کہ گاڑی کا ٹائر پنکچرتھا میں نے ان کی پریشانی کو بھانپا اور ٹائر خود تبدیل کر دیا۔ جاتے ہوئے مجھے پیسے دینے لگے تو میں  نے انکار کیا تو انھوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور کہا کہ کسی وقت میری فیکٹری آ جانا۔ کچھ عرصے بعد مالک نے سٹور بیچ دیا اور میں بے روزگار ہو گیا۔ میں روزگار کی تلاش میں تھا کہ اس گاڑی والے صاحب کے وزیٹنگ کارڈ پر نظر پڑی اور دوسرے دن فیکٹری چلا گیا تو وہ بہت محبت سے ملا اور مجھے میکینکل شعبے میں ملازم رکھا۔ اس کام میں میری دلچسپی تھی اس لئے جلد ہی کام سیکھ گیا۔ کام سے میری محبت اور ایمانداری دیکھ کر چھ ماہ بعد مالک نے مجھے مارکیٹنگ منیجر کا ہاتھ بٹانے کا بھی کہا۔ میں نے نئے کلائنٹس ڈھونڈے جس سے پروڈکشن اور سیل میں بہت اضافہ ہوا۔ کمیشن کی وجہ سے میری امدنی بھی بڑھ گئی اس دوران میری بہنوں نے مجھے گاؤں بلایا اور میری شادی کرا دی۔ میں نے چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا اور بیوی کو ساتھ لے آیا۔ زندگی میں ایک ٹھہراؤ اور سکون آتا گیا کہ اچانک فیکٹری مالک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے چل بسے۔ جب ان کے بیٹے نے کاروبار سنبھالا تو وہ ایک چڑ چڑا اور بد دماغ آدمی تھا جو ہر وقت کس کی بے عزتی کر نے کے لئے کوئی بہانا ڈھونڈتا تنگ اکر میں نے نوکری چھوڑ دی اور بے روزگار ہو گیا ۔  یہ ابتلا اور آزمائش کے دن تھے جسے میں  قناعت اور میری بیوی نے  صبر کے ساتھ گزارنے لگے۔ اس دوران میں بعض روحانی معاملات کو سمجھنے لگا (ایسا عموماً مشکل دنوں میں ہوتا ہے)

ایک دن دروازے پر دستک ہوئی میں باہر آیا تو میرے پرانے مالک کے ایک قریبی دوست کا ڈرائیور تھا جس نے اپنے صاحب کا پیغام دیا کہ کل دفتر اکر ان سے مل لوں میں دوسرے دن وہاں چلا گیا وہ بہت محبت سے ملے۔ وہ میرے کام اور مزاج سے بخوبی واقف تھے
انھوں نے ایک دلچسپ افر دی اور کہا کہ تم جانتے ہو میرے بزنس کا پھیلاؤ بہت ہے میں مزید پھیلاؤ نہیں سنبھال سکتا تم چاہو تو نئی فیکٹری لگالو سرمایہ میں فراہم کر دونگا جبکہ باقی سارا کام تمہارے ذمے ہو گا ستر فیصد منافع مجھے دو گے جبکہ تیس فیصد منافع تمھارا ہو گا۔ میں نے فورًا آفر قبول کر لی اور اسی دن لاہور اور گوجرانوالہ کا رُخ کیا اور وہاں مشینری خریدی۔ چند ماہ بعد فیکٹری سٹارٹ ہوئی تو حیرت انگیز کامیابیاں ملنے لگیں۔ اب میرے پاس سرمایہ آنے لگا۔ دو سال بعد میں نے اسی سرمائے سے اپنے لئے ایک الگ فیکٹری بھی بنا لی۔ یہ فیکٹری بھی کثیرالاولاد عورت کی طرح  بچے جننے لگی۔ اس وقت میری سات فیکٹریاں اور تین بزنس ادارے کامیابی کے ساتھ چل رہے ھیں۔ میرا بڑا بیٹا پاکستان اور چھوٹا بیٹا دبئی میں بزنس دیکھ رہے ہیں جبکہ بیٹی ایک کامیاب ڈاکٹر ہے۔

اب کہانی کے دوسرے رُخ کی طرف آئیں۔ میرے بڑے چچا اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے گئے۔ واپس آتے ہوئے پہاڑ کے عین اُوپر گاڑی کا ٹائی راڈ کھل گیا اور گاڑی چٹانوں سے لڑھکتی ہوئی گہری کھائی میں جا گری اور چچا اور ڈرائیور تو موقع پر چل بسے جبکہ بیٹا شدید زخمی تھا میرے اندر کا انسان ابھی زندہ تھا۔ اس لئے اسے فورًا شہر کے سب سے بڑے ہسپتال لے آیا اور بڑے بڑے ڈاکٹر کا بندوبست کیا لیکن نو دن بعد وہ بھی زندگی کی بازی ہار گیا۔ چھوٹے چچا کا بڑا بیٹا ایک ہونہار اور کابل نوجوان تھا لیکن اسے عین جوانی میں کینسر لاحق ہوا اویر صرف چھ مہینے زندہ رہا۔ دوسرا بیٹا خطرناک نشے کا عادی ہوا۔ باپ کے ساتھ لڑتا جھگڑتا  تھا۔ اس کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی پھر اچانک کہیں غائب ہو گیا۔ کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ چچا بہت بیمار ہوگئے اور ان کی بینائی چلی گئی۔ اس لئے سب کچھ بھول کر میں ان کو گھر لے آیا۔ آج کل میرے پاس ہیں۔ میری بیوی نوکروں کی بجائے خود ان کی دیکھ بھال اور خدمت کرتی ہے کیونکہ کسی اور سے خدمت کرانا وہ تکبّر سمجھتی ہے۔ اس لئے گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہ گھر سے نہیں نکلی۔

اس نے کہانی ختم کی تو آنکھیں بند کر لیں اور پھر ایک گھمبیر اداسی خاموشی پر چھائی رہی میں نے سکوت توڑتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ ایک اتفاق بھی ہو سکتا ہے ۔ نہیں نہیں یہ فطرت کے اٹل اصول ہیں، اٹل اصول! لیکن بعض اوقات ہم خود انتقام سے مغلوب ہو جاتے ہیں جس سے واقعات کی ترتیب ٹوٹ جاتی ہے (گو کہ وقتی طور پر) لیکن اگر ہم بے بسی کی حالت میں ظالم کے سامنے صبر، عجز اور قناعت کو مضبوطی کے ساتھ تھامیں تو ان واقعات کی ترتیب بہت تیز اور تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے۔ مظلوم اور ظالم کو اپنا اپنا حصہ بہت تیزی کے ساتھ ملنا شروع ہو جاتا ہے یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اتفاقًا یہ کام ہو گیا تو میں اس کونہں مانتا بلکہ پس منظر میں کوئی ہے جو واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا رہا ہے ۔اب دیکھیں نہ میں گاؤں سے بھاگ کر شہر نہ آتا، شہر میں سٹور میں ملازم نہ ہوتا، ایک امیر صنعت کار وہاں نہ آتا، اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر نہ ہوتا، تو میں انڈسٹری کی طرف کیسے آتا اور کیسے کامیاب ہوتا۔

یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جو آگے چل کر بڑے واقعات کو جنم دیتے ہیں ۔ لیکن ہم اس پر غور نہیں کرتے اس لئے سمجھ ہی نہی پاتے ۔اس نے اپنی بات ختم کی تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے گھپ اندھیرے سے نُور کی وادی میں نکل آیا ہوں ۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا تو اس کے وسیع و عریض اور عالیشان گھر میں پائن کے درختوں پر شام اُتر رہی تھی۔ آسمان کی وسعتوں کی طرف میں نے دیکھا تو اس کے کناروں پر ننھے ننھے ستارے نمودار ہوکر جھلمل جھلمل کرنے لگے تھے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).