دادا جی کی محبت


میرے داداجی کا انتقال 1989 میں ہوا اور میں اس وقت کم و بیش  پانچ سال کا تھا ۔ مجھے انسانی رشتوں کی پہچان تھی مگر طفلانہ سوچ کے باعث احترام سے عاری  تھا سب چیزیں جو میری ضرورت تھیں اپنا حق سمجھتا تھا اور میری اس وقت کی فریاد صرف دادا جی تک پہنچتی تھی اور میری ہر خواہش کی تکمیل اور احترام گویا دادا جی فرض عین سمجھتے تھے۔ میں اس وقت گھر میں سب سے چھوٹا تھا دادا جی مجھ پر جان چھڑکتے تھے گویا میری سانسوں کا ان کے ساتھ ربط تھا۔ دادا جی جمعہ پڑھنے نزدیکی گاؤں جایا کرتے تھے اور میرے والد ان کو پانچ روپے دیتے تھے اور واپسی پر دادا جی ان کو میری خوشی پر خرچ کر کے آتے اور میں گھنٹوں سے ان کی واپسی کا منتظر ہوتا۔

ہمارے ایام  طفلی کی سب روایتیں آہستہ آہستہ دم توڑ گئ ہیں جن میں بستی سے باہر بے خوف و خطر رات کو دیر گئے تک کشتیاں لڑنا۔ ہڈی چاندن کھیلنا یعنی رات کی تاریکی میں کسی جانور کی ہڈی کا ایک ٹکڑا کوئ بچہ پورے زور سے پھینکتا اور پھر  بچوں کا غول بھاگ کر اس کوڈھونڈتا جس کے ہاتھ میں وہ  ہڈی کا ٹکڑا آتا وہ لے کر بھاگتا اور پورےزور سے چیختا “ہڈی چاندن” تو باقی بچے اس کو چھیننے کی کوشش کرتے اور بعض دفعہ اس کو پکڑ لیتے مگر وہ اپنی ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر لیتا۔ لڑکے اس کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیتے، چیخ وپکار ہوتی اور پھر اس سے کوئ چھین کر مطلوبہ مقام تک پہنچ کر بادشاہ بن جاتا اور حکم چلاتا۔ اسی طرح اس وقت شکار کا بھی خوب رواج تھا ہم چڑیوں،فاختاؤں اور کبوتروں کو پھندوں میں پھنساتے ان پھندوں کو مقامی زبان میں “کوڑکی” کہتے تھے اور اس وقت معیاری پھندہ پانچ روپے کا آتا تھاجو  لوہے کا بنا پورا جو آجکل چوہوں کے لئے بکتا ہے۔ دادا جی جمعہ پڑھنے گئے تو میں نے نئے پھندے لانے کی فرمائش کر فی ۔دادا جی لوٹے تو ان کے ہاتھ میں ایک نیا پھندہ تھا۔ میری امی جی ان کو رات کو دودھ میں روٹی بھگو کر شکر کے ساتھ میٹھا کر دیتی تو چپکے سے وہ اکثر پہلے مجھے بلا لیتے اور میری بچت دادا جی کھاتے اگر بچ جاتی تو۔ کبھی میں حریص بن کر  ساری روٹی کھا جاتا تو دادا جی چپکے سے سو جاتے۔

ایک دن ایک بچہ مجھے تھپڑ مارنے دوڑا تو میں دادا جی کی طرف بھاگا کیوں کہ وہ میری پناہ گاہ بھی تھے مگر دادا جی کی آغوش میں پہنچنے سے پہلے وہ لڑکا مجھے شدید تھپڑ مار کر بھاگ گیا۔ دادا جی اس وقت بہت بوڑھے اور بینائ سے بھی کچھ معذور تھے مگر بہت غصہ ہوئے اور اس لڑکے کو آواز دے کر کہہ رہے تھے کہ یہ تھپڑ میرے دل پر لگا ہے اور مجھے قبر تک نہیں بھولے گا۔ میری یادداشت میں بس وہ اسی دن غصہ ہوئے تھے۔ مجھے اگر کبھی ماں،باپ یا بڑے بھائیوں سے مار کا ڈر ہوتا تو دادا جی میرے محافظ ہوتے اور کئ دفعہ انہوں نے میرے ابا جی کو بھی اس انداز میں تنبیہ کی کہ خبر دار اگر تو نے میرے پوتے کو ہاتھ لگایا تو۔ وقت نے آہستہ آہستہ جدائی کا راگ گایا۔ داداجی بیمار پڑ گئے اور لاغر ہو کر صرف چارپائی کے ہو گئے۔ روزانہ ایک مقامی ڈاکٹر جو کہ اس وقت ڈسپنسر تھا ڈرپ لگانے آتا۔ مجھے احساس بھی نہ ہوتا کہ جدائی کا گھاؤ پڑنے والا ہے۔

مجھے میرے ابا نے مایوس دیکھ کر نانی اماں کے گھر بھیج دیا وہ دریائی علاقہ تھا دن رات رہٹ پر بیل جتے رہتے تھے میں بچوں کےساتھ گادھی پر دن بھر سیر کرتا۔ طرح طرح کی سبزیاں اور درخت و فصلات کے ساتھ جی بہلاتا۔ شام کو تھک کر بہت جلدی سوجاتا (ہمارے گاؤں میں پانی کی شدید قلت تھی وہاں نہ سبزیاں تھیں نہ رہٹ اور بیل) اس وقت ہماری آبائی بستی میں کوئی ایک دو موٹر سائیکل تھے۔ ایک رات نانا جی کنویں پر دیر تک بیل کو جوتتے رہے اور جب گھر داخل ہوئے تو میری نانی اماں سے گویا ہوئے کہ کوئی دور سے موٹر بائیک کی روشنی پگڈنڈی پر جیسے ہمارے گھر کو ڈھونڈھ رہی ہو میں بھی اس وقت بیدار ہوا۔ روشنی قریب آتے آتے دروازے تک آگئ اور وہ میرے چھوٹے ماموں تھے۔ خبر وہی تھی کہ شفقت کا دادا جی فوت ہو گیا۔۔۔

اور یہ وہ دادا اور عظیم باپ تھا جس نے اپنے اکلوتے بیٹے یعنی میرے باپ کو 1971 میں جب وہ راجن پور میں پی ٹی سی کرتے تھے پچاس روپے ایک عزیز سے ادھار لے کر پیادہ پا سفر کرکے پہنچائے (راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کی مسافت 71میل۔۔۔۔ڈیرہ غازی خان اور تونسہ 79 کلو میٹر۔۔۔۔تونسہ شریف اور میری آبائ بستی 46 کلو میٹر) کئی راتوں کی مسافری اور کئ دنوں کی شدت اور پیدل آنا جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا مگر ان پڑھ ہو کر راجن پور کے اسی سکول کے گیٹ پر پھٹے پرانے اور میلے کچیلے لباس میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس تھے کہ میرا صرف ایک بیٹا ہے یہ امانت ان تک پہنچا دو۔ گزشتہ دنوں میرا بیٹا جس کی عمر بمشکل3سال ہے میرے ابا جی کو تنگ کررہا تھا میں نے مذاق میں کہہ دیا ابا جی بچپن میں ہمیں تو ڈانٹ پڑتی تھی آپ اپنے اس پوتے کو نہیں ڈانٹتے۔ ابا جی نے کہا اس میں تو میری سانس اٹکی ہوئ ہےاور تم اتنی جلدی اپنے دادا کی محبت کو بھول گئے۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں ابلنے لگے میں نے دیکھا کہ ابا جی کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں اور ہم کچھ دیر آپس میں گفتگو نہ کر سکے

شفقت اللہ لغاری
Latest posts by شفقت اللہ لغاری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).