جو چیز جیسی ہے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے؟


بھارتی فلم  ’وِیرے دی ویڈنگ‘ کو فحاشی پر مبنی فلم قرار دے کر مرکزی سنسر بورڈ نے پاکستان میں ریلیز پر پابندی عائد کی۔ پابندی صرف اس لئے نہیں لگائی گئی کہ وہ بھارتی فلم ہے یا اس میں کچھ پاکستانی مخالف ہے بلکہ اس لئے لگائی گئی کہ وہ فلم ہمارے ملک اور معاشرے میں دکھانے کے قابل نہیں۔ اس میں کامیڈی کا تڑکا لگانے کے لئے اخلاقیات سے گرے ہوئے ڈائیلاگ اور مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ ایسی فلمیں اکیلے یا یار لوگوں کے ساتھ دیکھنے والی ہیں، سنیما سکرین پر دیکھنے والی نہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ کسی کتاب، فلم یا ڈرامہ پہ فحاشی کا الزام لگا کر اس کہ اشاعت پہ پابندی لگا دی گئی۔ فرانس کے معروف ناول نگار کی کہانی مادم پر فحاشی کا الزام لگایا گیا۔ آئرن کے رائٹر کو بھی اپنی کتاب پہ فحاشی کا الزام سامنا کرنا پڑا۔

مراکش میں جسم فروشی کے موضوع پر بنائی جانے والی فلم پرپابندی عائدکی گئی اور فلم ساز عیوش کو سزائے موت دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مراکش میں فلم پر پابندی کے خلاف خواتین نے موقف اختیار کیا کہ فلم میں دکھائی جانے والی محفلیں، رقص و موسیقی اور بے ہودگی سب کچھ حقیقت ہے۔ اس کے بقول اسے سمجھ نہیں آتا کہ معاشرہ اِس فلم کو تسلیم کیوں نہیں کر رہا؟ سنٹرل بورڈ آف فلم سنسرز کے چیئرمین دانیال گیلانی کے مطابق بورڈ کے اراکین نے فلم سنسر شپ کوڈ 1980 کے تحت متفقہ طور پر  ’وِیرے دی ویڈنگ‘ پاکستان میں عام ریلیز کے لیے اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا اوراس فلم کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ یہ پاکستانی ناظرین کے لیے موزوں نہیں۔

بالی ووڈ اداکارہ سوارا بھاسکر نے اپنی فلم ویرے دی ویڈنگ کے پاکستان میں ریلیز نہ ہونے پر پاکستان کو غیر سیکولر ریاست قرار دیا ہے۔ ان کے بیان کے بعد نہ صرف پاکستانیوں بلکہ بھارتی لوگوں نے بھی انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلم دہلی سے تعلق رکھنے والی 4 سہیلیوں کے گرد گھومتی جنہیں شادی کی تیاریوں کے دوران نشیب و فراز کا سامنا ہوتا ہے۔ بالی وڈ اداکارہ سونم کپورنے اپنی فلم ’وِیرے دی ویڈنگ‘ کے بارے کہا کہ یہ ایک ترقی پسند اور حقائق پر مبنی فلم ہے ہم اصل زندگی میں سگریٹ اور شراب پیتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور سیکس بھی کرتے ہیں تو فلم میں وہ سب دکھایا گیا ہے جو حقیقت میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں منٹو کے تخلیق کردہ ادب کو بھی پابندی اور منٹو کو کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی لکھی گئی قابل اعتراض کہانیوں کے بارے کہا جو چیز جیسی ہے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے؟ ٹاٹ کو ریشم کیوں کہا جائے؟ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا میرے مقدموں میں پراسکیوٹر صاحب اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ  میری کہانی کے کچھ کرداروں کی زبان گالیوں سے بھری ہوئی ہے لیکن جو الفاظ میں نے ان کی منہ سے کہلوائے ہیں کیا وہ ہزاروں لوگ روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ میری کہانی ایک آئینہ ہے جس میں سماج اپنے آپ کو دیکھ سکے اگر آپ میری کہانی کو برداشت نہیں کرسکتے تو زمانہ ہی ناقابل برداشت ہے۔

ویری دی ویڈنگ فلم پر پابندی سے کیا ہم اپنی ثقافت اور معاشرہ میں موجود خرابیوں سے انکار کردیں گے؟ ہم نہ جانے کیوں سوال نہیں اٹھاتے، دو طرفہ بات چیت نہیں کرتے۔ سوال اٹھانے پر سپیس نہیں دیتے۔ کوئی بھی کہانی، فلم، ڈرامہ تخلیق کرنے والے موضوع کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ’ان مسائل پہ بات کی جائے جو معاشرے میں موجود ہیں لیکن کوئی ان پہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان میں ادب، تقریریں، فلمیں ہمیشہ سینسر کی گئی لیکن کیا حقیقت سے انکار ہمیں بہتر انسان بنائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).