چوہدری لال سنگھ کی دھمکیاں اور بھارت کا جنگی جنون


مقبوضہ کشمیر کے ایک سابق وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر چوہدری لال سنگھ نے پاکستان کے خلاف محدود جنگ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق انتہا پسند ہندو لیڈر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی حمایت بڑھتی جارہی ہے اور اس رجحان کو روکنے کے لئے پاکستان پر حملہ کرنے اور اسے شدید نقصان پہنچا کر علاقے کی سیاست پر اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لال سنگھ کا دعویٰ ہے کہ بھارتی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اس لئے حکومت اب پاکستان کے خلاف جنگی کارروائی کرنے کے مطالبہ کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کرسکتی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بھارت کی حکمران پارٹی کے ایک لیڈر کی طرف سے اس قسم کی اشتعال انگیز باتیں ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہیں جبکہ پاکستان کی طرف سے مفاہمت اور بات چیت کے ذریعے علاقے میں پائیدار امن قائم کرنے کے واضح اشارے دئیے گئے ہیں اور اس کے لئے متعدد کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اظہار خیال کر چکے ہیں اور پاک فوج کی پیش رفت کے بعد ہی حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی نافذ کرنے کا معاہدہ ممکن ہؤا تھا۔ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ایک سو سے زائد فوجی اور شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور دونوں طرف املاک کو شدید نقصان بھی پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ کے واقعات اور ہلاکتوں کی اطلاعات ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے درمیان غیر متوقع اور اچانک جنگ کے اندیشے میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ اس لحاظ سے جنگ بندی پر عمل کرنے کے معاہدے کی خبر کا دونوں ملکوں کے امن پسند حلقوں نے استقبال کیا تھا۔

چوہدری لال سنگھ کو اپنے انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے شہرت حاصل ہے ۔ وہ اس سال جنوری میں ایک 8 سالہ مسلمان بچی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے میں ملوث لوگوں کی حمایت کرنے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی کابینہ سے مستعفیٰ ہونے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس انسانیت سوز جرم کی حمایت بھی مذہب اور قومی غیرت کے نام پر کی جارہی تھی۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی بھی ملک میں ایسی نیچ ذہنیت رکھنے والے عناصر کو اہمیت دی جائے گی اور ان کی حرکتوں اور سیاسی رائے کو چیلنج کرنے والی آوازیں مستحکم نہیں ہو ں گی تو یہ ایک فرد کی رائے یا صوابدید کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ اس کی وجہ سے نفرت اور انتہا پسندی کا ایک ایسا طوفان برپا ہو سکتا ہے جس کی تباہ کاری صرف بر صغیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی تپش دنیا بھر میں محسوس کی جائے گی۔

یوں تو پاکستان کے مذہبی انتہا پسند لیڈر بھی بھارت کے خلاف جنگ کے دعوے کرنے اور لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا اعلان کرنے میں بھارت کے ہندو انتہا پسندوں سے پیچھے نہیں ہیں لیکن پاکستان کے ایسے عناصر نہ حکومت میں شامل ہیں اور نہ ہی ملک کی پالیسی سازی میں ان کا عمل دخل ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں گزشتہ چار پانچ برس کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے دور میں پاکستان دشمنی کے علاوہ پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے جو نعرے بلند ہوئے ہیں وہ بنیادی طور پر حکمران جماعت کے لیڈروں کی طرف سے ہی سننے کو ملے ہیں۔ ان عناصر کا سرغنہ خود وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی ہیں جو گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر فرقہ وارانہ فسادات اور مسلمانوں کی خوں ریزی میں ملوث تھے۔ انسانیت کے خلاف انہی جرائم کی وجہ سے بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے ان کا امریکہ میں داخلہ ممنوع تھا۔ ایک ایسے لیڈر کی قیادت میں چلنے والی جماعت اور حکومت علاقے کے امن و سلامتی کے لئے مسلسل خطرہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔

لال سنگھ جیسے لیڈروں کی دھمکیوں اور مشوروں سے پہلے بھارتی حکومت اپنی فوج کے ذریعے یہ دعوے کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ اس نے پاکستانی علاقے میں سرجیکل اسٹرائک کی ہے۔ پاکستان کی مسلسل تردید اور انتباہ کے باوجود بھارت کے فوجی اور سیاسی لیڈر کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ بھارتی لیڈروں کا خیال تھا کہ اس طرح کی دھمکیوں سے پاکستان کو دبا کر مقبوضہ کشمیر میں اپنے اہداف حاصل کئے جاسکیں گے۔ تاہم مقبوضہ وادی میں بگڑتی ہوئی سیاسی اور انتظامی صورت حال کے سبب ایک بار پھر بھارت کی طرف سے جنگ کی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔

یہ بات بھی حیرت کا سبب نہیں ہونی چاہئے کہ لال سنگھ کی طرف سے پاکستان کے خلاف محدود جنگ کرنے کا ’مطالبہ‘ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اپنی 49 صفحات کی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی طاقت کے استعمال کو ناجائز اور انسان دشمن قرار دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں گرشتہ ایک برس میں جو فوجی مارے گئے ہیں ، ان کے مقابلے میں بھارتی سیکورٹی اداروں کی کارروائیوں میں پانچ سے چھ گنا لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ صرف اسی ایک نکتہ سے یہ واضح ہو تا ہے کہ بھارتی حکومت اور فورسز غیر ضروری طور پر طاقت کا استعمال کرکے انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہورہی ہیں۔ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ان حالات کو اس قدر تشویشناک بتایا ہے کہ اس بارے میں کمیشن آف انکوائری قائم کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں عوام کی طرف سے حق خود اختیاری کے لئے بڑھتا ہؤا مطالبہ اور دنیا کی طرف سے اس تنازعہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے دباؤ بھارت کے لئے مسلسل درد سر بنا ہؤا ہے۔ لیکن بھارت کا حکمران طبقہ اس معاملہ کوسیاسی طور پر طے کرنے اور پاکستان اور کشمیری لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کوئی حل تلاش کرنے کی بجائے دھمکیاں دینے اور جنگ کرنے کی باتیں کرکے علاقے کے حالات کو کشیدہ اور تشویشناک بنانے کی کوشش کررہا ہے۔

اس حوالے سے یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بھارت میں 2019 میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ نریندر مودی ہر قیمت پر یہ انتخاب جیتنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ناکام اقتصادی پالیسیوں اور عوام کو سہولت فراہم کرنے میں ناکامی کے سبب بھارتی جنتا پارٹی کو پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ بھارت کا کارپوریٹ شعبہ جو 2014 کے انتخابات میں بی جے پی اور نریندر مودی کا بہت بڑا حامی تھا، اب مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہے۔ اس صورت میں انتخاب جیتنے کے لئے بی جے پی اور نریندر مودی ، لال سنگھ جیسے انتہا پسند لیڈروں اور پاکستان کے خلاف جنگ کے نعروں سے ہندو قومیت پسندی کو ہوا دے کر ہی کامیابی کی امید کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان کو اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں عوامی مطالبہ کو پاکستان کی سازش قرار دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ پاکستان دشمن فضا میں اضافہ کر کے بھارت کے انسان دوست اور امن کے خواہشمند حلقوں کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جارہا ہے جو علاقے کے امن کے لئے انتہائی تشویش اور پریشانی کا سبب ہو سکتا ہے۔

بھارت کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر صرف روایتی ہتھیاروں سے بھی جنگ ہوتی ہے تو بھی اسے محدود رکھنا کسی بھی فریق کے بس میں نہیں ہو گا۔ پاکستان چھوٹا ملک ہونے اور کم اسلحہ رکھنے کے باوجود ایسی عسکری اور فوجی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ بھارتی فوج اور انفرا اسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ دنیا کی معیشت میں تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے ملک کے لئے اس قسم کی جنگ شدید تباہی اور نقصان کا سبب ہوگی۔ اب کسی جنگ کا فیصلہ فتح اور جیت کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ اس کی ہلاکت و تباہ کاری کا اندازہ معیشت اور ترقی کی رفتار کو پہنچنے والے نقصان سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ متعدد عالمی محققین اور ادارے اس اندیشہ کا اظہار کرچکے ہیں کہ بر صغیر میں ایٹمی جنگ کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ جنگ کی صورت میں کوئی ایسا لمحہ رونما ہو سکتا ہے کہ غیر ارادی طور پر کوئی ایسا مہلک فیصلہ ہوجائے جس سے اس خطہ کے علاوہ دنیا کے بیشتر علاقوں میں انسانی زندگی کی نشو ونما کو شدید نقصان پہنچے۔ شمالی کوریا کے رہنما کے ساتھ امریکی صدر کی ملاقات اور جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوششوں کے آغاز کے بعد یہ امید کی جارہی ہے کہ پاکستان اور بھارت بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی ماحول کے حوالے سے ہوش کے ناخن لیں گے اور امن کی طرف پیش رفت کریں گے۔ تاہم لال سنگھ جیسے لیڈروں کے عاقبت نااندیشانہ بیانات ایسی کوششوں کے لئے مہلک ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا اور خیر سگالی کے جذبات ختم ہوتے ہیں۔

بھارتی قیادت اور دانشوروں کو جنگ کی بجائے امن اور انتشار و تباہ کاری کی بجائے مفاہمت اور صلح کی بات کرنی چاہئے۔ اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اور پاکستان اور بھارت اپنے غریب عوام کی ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے وسائل فراہم کرنے کے ضروری اور اہم منصوبہ کا آغاز کرسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali