ریحام خان پر میرے کالم پر اٹھا ئے گئے سوالوں کے جواب


جس طرح ایک کالم نگار کو کالم میں اپنی رائے دینے کا پورا حق ہوتا ہے، اس طرح قارئین کو بھی کالم پر تنقید کرنے یا تعریف کرنے کا پورا حق ہوتا ہے۔ کچھ روز پہلے میں نے ریحام خان کی کتاب اور اس کے اثرات کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا، جو سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم تھا۔

میں نے یہ کالم لکھنے سے پہلے ریحام خان کی زندگی کا کچھ مطالعہ کیا۔ ریحام خان کے انٹرویوز دیکھے، بی بی سی کے دنوں کے۔ عمران خان سے شادی سے پہلے کے۔ عمران خان سے شادی کے بعد کے اور پھر طلاق ہونے کے بعد کے انٹرویوز دیکھے۔ ریحام خان کو ان کے ’’قول“ سے جاننے کی کوشش کی۔ مجھے محسوس ہوا، کہ ان کی عمران خان سے شادی سے پہلے، نکاح کے بعد اور پھر طلاق کے بعد کی ریحام خان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ریحام خان نے بھی عمران خان کی طرح کئی یو ٹرن لیے۔ مانا کے برے حالات انسان کو بدل دیتے ہیں لیکن؛ چلیں! یہ لمبی بحث ہو جائے گی۔

میں اپنے کالم میں اپنی رائے بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے کالم سے اتفاق نہ کرنے والوں کو جواب دہ ہونا ضروری نہیں سمجھتی، تاہم اپنی سوچ کے مطابق ان کے سوالوں کے مناسب جواب دینے اور ان کی سوچ بدلنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے میرے کالم کے حوالے سے کوئی سوال کرے تو اس کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہوں۔

محترم بھائی افتخار عالم نے میرے ریحام خان کے اوپر لکھے گئے کالم ”ریحام خان: عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا“، پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اانھوں نے میرے کالم کو اتنے غور سے پڑھا کہ جوابا اس پر پورا بلاگ لکھ ڈالا۔ پھر جو سوالات انھوں نے اٹھائے وہ مجھے بہت معصوم سے لگے۔ میں ایسے سوالات کی امید ایک عام قاری سے تو کر سکتی تھی، ایک کالم نگار سے بالکل بھی نہیں۔

پہلا سوال انھوں نے یہ کیا کہ ریحام خان کو تو طلاق ہو گئی، لیکن اللہ نہ کرے اگر مقدس فاروق اعوان پر یہ مشکل وقت آ جائے تو کیا ریحام خان کو چپ چاپ بیٹھنے کا مشورہ دینے والی خود چپ چاپ بیٹھ جائیں گی؟ کیا وہ اپنے خاندان کے سامنے کچھ نہیں بولیں گی؟

میرے بھائی جس طرح شادی ایک خاندان کا معاملہ ہے اس طرح طلا ق بھی ایک خاندان کا معاملہ ہے۔ ریحام اپنی طلاق سے متعلق جذبات کا اظہا ر اپنے خاندان میں بے شک ہزار بار کرتی، بھلا ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے، کہ ایک طرف ایک عورت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ (خبروں کے مطابق) مجھے ایک مرد نے شادی سے پہلے گھر بلا کر جنسی طور پر ہراساں کیا اور پھر اسی مرد سے شادی کر لیتی ہے۔ شادی کے بعد میڈیا پر اس کی عزت کے قصیدے پڑھتی ہے، لیکن جیسے ہی طلاق ہو جاتی ہے، تو وہ دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ اس مرد سے برا اور گھٹیا شخص اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔

محترم افتخار عالم بھائی میں نے ریحام خان کو خاموش رہنے کا اس لیے مشورہ دیا، کہ جب سے ریحام خان کی کتاب کا چرچا شروع ہوا ہے، اس کے بعد سے ریحام خان کی ذاتی زندگی پر کئی نامور صحافیوں نے کالم لکھے۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا ریحام خان کی طلاق کے بعد کسی نے یہ بات کہی کہ ریحام خان شراب پیتی تھیں؟ وہ راتوں کو پارٹیوں میں جاتی تھیں؟ وہ دانیال عزیز کے گھر جاتی تھیں؟ ان کو نوکری کرنے کے لیے کون کون سے پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ برطانیہ سے پاکستان عمران خان کے علاوہ ایک اور معرو ف سیاست دان سے شادی کرنے کا سوچ کر آئیں تھیں (کہ جو بھی تکا لگ گیا)۔

یہ باتیں ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور یہ تمام باتیں میں خود سے نہیں لکھ رہی بلکہ ریحام خان سے متعلق یہ باتیں سینیئر کالم نگاروں نے اپنے کالم میں لکھیں۔

یہاں تک کہ مخالفین ریحام خان کی بیٹی سے متعلق بھی پراپگنڈا کرنے لگ گئے۔ بحثیت عورت یہ بات میرے لیے بھی تکلیف دہ ہے، کہ ایک بچی جس نے کل کو کسی اور گھر رخصت ہو کر جانا ہے، اس سے متعلق سوشل میڈیا پر یہ گند اچھالا جا رہا ہے۔ اس تمام صورت احوال کے بعد خود ہی اندازہ کر لیں کہ ریحام خان کا طلاق کے بعد واویلا کرنے کا نقصان اصل میں کس کو ہوا ہے۔

دوسرا سوال محترم افتخار عالم نے ’پٹھانوں‘ سے متعلق کیا تو سب سے پہلے میں اس بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ میں نے اپنے کالم میں پٹھانوں پر تنقید نہیں کی (غلط فہمی دور کرنے کے لیے ایک بار دوبارہ کالم ضرور پڑھیں)۔ مجھ سمیت تمام لوگ پٹھانوں کو ایک غیرت مند قوم کے طور پر جانتے ہیں۔ میں نے بطور تعریف یہ کلمات پٹھانوں کے لیے کہے۔ تاہم ساتھ ہی ریحام خان کا ذکر تھا اس لیے کچھ پڑھنے والوں نے اسے تنقید کے تناظر میں لیا۔

اب میں کالم میں لکھی اس سطر ”سنا ہے ریحام خان پٹھان ہیں اور پٹھان غیرت مند ہوتے ہیں۔ کاش ریحام خان بھی اس عشق میں غیرت جذبات کا کچھ خیال کرتی اور خود کو رونے سے بچا لیتی“، کی وضاحت کرتی چلوں۔ ممکن ہے آپ نے کالم کی آخری سطر پر غور نہیں کیا، ”کاش ریحام خان خود کو رونے سے بچا لیتی“۔

بحیثیت عورت میرے لیے یہ بات بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ ریحام خان کی متوقع کتاب کے بعد ان کو جس طرح کے نازیبا کلمات سے نوازا جا رہا ہے، وہ نا قابلِ بیان ہیں۔ یہاں تک کہ بات ان کی جوان بیٹیوں تک پہنچ گئی۔ آپ بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ صورت احوال سے واقف ہوں گے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ریحام خان نے طلاق کے بعد اپنے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ مستقبل میں ان کو ضرور رلائیں گے۔ اس ایک سطر میں پٹھانوں کو ہرگز غلط نہیں کہا۔

ہم پاکستانی قوم کا یہ المیہ ہے کہ ہم سو باتوں میں سے ایک کم زور سی غلط بات کو بنیاد بنا کر لڑائی جھگڑوں پر اتر آتے ہیں۔ ہم برادریوں کے مسئلوں میں الجھ جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی متحد نہیں ہو پائے۔ بحیثیت پاکستانی قوم ہم کسی بھی ملکی مسئلے پر ایک رائے نہیں رکھتے۔ ہم مثبت باتوں کو موضوع بنانے کی بجائے منفی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں اور انھیں اچھالتے ہیں۔ نفرت پیدا کرتے ہیں اور اپنا وقت ضایع کرتے ہیں۔

میں نے اپنے کالم میں یہی کہا تھا کہ ریحام خان کی کتاب چوبیس گھنٹے میڈیا پر ڈسکس ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈسکس ہونے والے کئی مسائل پچھے رہ گئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ میرے جوابات سے مطمئن ہو گئے ہوں گے، اور پٹھانوں کے حوالے سے لکھے گئے جملے سے متعلق آپ کی غلط فہمی بھی دور ہو گئی ہوگی۔ شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).