ان ریزن ایبل


میں نکلا تو وہ سامنے کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کربولے یہ نیا ائیر پورٹ دیکھا ہے۔ میں نے جواب دیا بہت خوبصورت انٹرنیشنل لک دینے والا پاکستان کا پہلا ائیر پورٹ ہے۔ وہ چڑ گئے اور بولے ٹوائلٹ دیکھیں کتنے گندےاور بدبودار ہیں۔ میں نے عرض کیا اگر ہم کموڈ پر پاؤں رکھ کر بیٹھں فرش پر پانی گرائیں اور گیلے ہاتھ دیواروں پر لگائیں تو حکومت انہیں کتنا صاف رکھ سکے گی۔ چیزوں کو ٹھیک رکھنے کی ذمہ داری استعمال کرنے والوں پہ عائد ہوتی ہے۔ وہ اس دوران چڑ گئے اور چلانے لگے “ آپ تو حکومت کی چمچہ گیری کریں گے شریفوں کے پٹواری جو ہوئے آپ تقریباً ہر سرکاری وفد میں وزیراعظم کے ساتھ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ تو اس وفد میں بھی شامل تھے جو خفیہ  طور پر سعودیہ اور ایران کے درمیان مصا لحت کے لیے مصروف تھا آپ نے تو احد چیمہ اور عطا الحق قاسمی کی مبینہ کرپشن کے حق میں بھی لکھا “ میری ڈھیٹوں والی ہنسی نکل گئی۔ میں نے عرض کیا ”جناب یہ ائیر پورٹ نوازشریف نے نہیں بنایا یہ جگہ اور ڈیزائن تک شوکت عزیز نے سلیکٹ کیا۔ میاں نوازشریف صاحب نے بس اس کا ٹھیکہ اپنی نواسی کے سسر کو دیا جس نے مبینہ طور پر صرف چند کروڑ کی صرف، چند کروڑ کی کرپشن کی ہو گی۔

وہ صاحب چڑ گئے اور سرخ ہوکر بولے کیا میاں نوازشریف چور نہیں ہیں؟ میں نے عرض کیا ”دنیا کا ہر نقص نوازشریف، ہر کیڑا نوازشریف کی ذات میں نہ ڈالو۔ ہمیں سزا میں ان ریزن ایبل نہیں ہونا چاہیے“۔

ہم لوگ بدقسمتی سے محبت اور نفرت میں شدت پسند ہیں۔ ہم جب کسی کو پسند کرتے ہیں اسے معصوم عن الخطا گردانتے ہیں اور جب ناپسند کرتے ہیں تو اس کی چھوٹی سی کرپشن کو بھی برداشت نہیں کرتے چاہے وہ لندن کے چھوٹے سے فلیٹ ہی کیوں نہ ہوں ہم نے لندن کے جن فلیٹس کو سر پہ چڑھا رکھا ہے ان کا کل رقبہ چند ایکڑ بھی نہیں۔ پنجاب میں پچھلے دس سالوں میں حقیقتاً کام بھی ہوا ہے اور صوبے کی حالت بھی بدلی ہے سکول اور ہسپتالوں کا ایسا جال بچھا ہے کے ہر کسی کا پاؤں اس جال میں پھنس جاتا ہے۔ ہسپتالوں کا معیار اتنا بلند ہے کے کیا مثال دوں امریکہ،  لندن، ڈنمارک، امارات، سعودیہ اور باقی ترقی یافتہ ممالک سے لوگ جوق در جوق علاج کی غرض سے منہ اٹھائے چلے آرہے ہیں سب کا اصرار ہے ہمارا بھی وہاں علاج ہو جہاں محترمہ کلثوم نواز زیر علاج ہیں۔ بجلی اتنی وافر پیدا ہوگئی ہے کہ دنیا بھر کو دیں تو بھی کم نہ پڑے۔ سکول و کالج  اتنے زیادہ بنا ئے ہیں کہ اب اتنے طالب علم نہیں مل رہے سکولوں کی فراوانی کا یہ عالم ہے اکثر سکولوں میں طالب علموں کی جگہ بھینسوں بکریوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔

دو ممالک میں بڑے تواتر سے پراپیگنڈہ ہورہا ہے پاکستان کو دنیا کا مقروض ترین ملک بنا دیا۔ آپ کسی دن سی آئی اے کی دی ورلڈ فیکٹ بک اٹھا کر دیکھ لیں، نیوزی لینڈ، اسرائیل، قطر، سعودی عرب، ملائشیا، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، کینیڈا، چین، آسٹریلیا، اٹلی، سپین، جاپان، آئرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اور امریکہ سب مقروض ہیں۔ امریکہ اس وقت سب سے بڑا مقروض ملک ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے ان ممالک کا جی ڈی پی اور فی کس آمدن ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ ممالک بھی مقروض ہیں ہم بھی مقروض بس فرق اتنا ہے وہاں لوگوں کا معیار زندگی ہم سے بہت بہتر ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کا اخلاقی معیار اتنا گُرا نہیں۔ وہاں کسی سربراہ مملکت نے ناجائز دولت سے پاکستان میں محل تعمیر نہیں کیے وہاں کا امن وامان مثالی ہے۔ صحت وتعلیم قیام امن کی بعد حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

دنیا بھر کے محنت کش آج بھی ملازمت کے لیے ان ممالک کو ترجیح دیتے ہیں وہاں کی حکومتوں نے اگر قرضہ لیا ہے تو وہاں آڈٹ کا پورا نظام ہے جس میں سب کو پتہ پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں لگا وہاں کی کی خلائی مخلوق اصغر خان کیس کی طرح  سیاست دانوں کو پیسہ نہیں بانٹتی نہ وہاں کے سیاست دان اتنے بے حیا ہیں کہ اپنی فوج اور اداروں پہ کیچڑ اچھالیں ہم نے ابھی صرف ان کی تقلید میں قرض لیا ہے وہ دن دور نہیں جب ان ممالک کی طرح ہم بھی ترقی یافتہ ہوں گے چیزوں کو ٹائم لگتا ہے اور وہی ہم لگا رہے ہیں۔ امریکہ جب چاہے ڈالر چھاپ کے قرضے ادا کردے ہم بھی اسی وقت کا وقت کے منتظر ہیں جب ہمارے کاغذوں کی بھی ویسی ہی وقعت ہو۔

ہمیں قرضوں کے معاملے میں ریزن ایبل ہونا پڑے گا میاں صاحب کی صرف چند ارب کی کرپشن کو دن رات روتے رہنا کہاں کا انصاف ہے۔ میاں صاحب محسن پاکستان ہیں بلکہ قائد اعظم ثانی ہیں۔ جو کرپشن اصلی قائد اعظم نے نہیں کی اگر وہ قائد اعظم ثانی نے کرلی ہے تو کون سی قیامت آگئی۔ پیسہ تو ویسے ہی ہاتھ کی میل ہے اگر میاں صاحب نے ٹھوڑی سی میل اتار لی تو کچھ صفائی ہی کی ہے۔ عجیب لوگ ہیں ہم بھی اک طرف گندگی کا رونا بھی روتے ہیں دوسری طرف کسی کو صفائی بھی نہیں کرنے دیتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).