اقبال مہدی، عظیم مصور جو نہ رہا



میرے مہمان خانے میں آتش دان کے عین اوپر دیوار پر ایک بہت ہی خوبصورت فن پارہ آویزاں ہے۔ پین ورک (Penwork) سے بنی ایک دلکش، الہڑ، معصوم سی لڑکی کا سراپا، اپنے علاقائی لباس اور زیور سے آراستہ، آنکھوں میں استعجاب کہ جس میں سفید و سیاہ رنگوں کے باوجود انسانی زندگی کا ہر رنگ بولتا نظر آتا ہے اور جو ہر آنے والے کی نظروں کو مقناطیس کی مانند کھینچ لیتا ہے، جب کوئی مصور کا نام پوچھتا ہے تو میں مسکرا کر اقبال مہدی اس طرح کہتی ہوں کہ جیسے اس باکمال فن میں میرا ہنر بھی شامل ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ میں اس بے حس قوم کی نمائندہ ہوں کہ جس پر تخلیقی جمود طاری ہے جو بآسانی اپنے فنکاروں کو بغیر کسی احساسِ شرمندگی کے قبل از وقت ان کی قبروں میں اتار دیتے ہیں، بغیر کسی احساسِ زیاں کے۔ تبھی تو آج سوا سال سے بھی زیادہ عرصہ اس کیموت کو گزر گیا، قوم نے اس عظیم مصور اقبال مہدی کا ڈھنگ سے ماتم بھی شروع نہیں کیا۔ نہ کوئی سڑک اس کے نام ہوئی نہ کسی آرٹ اسکول کا اجراء اس کی یاد میں کیا گیا، وہ کہ جو اپنی ذات میں ایک ”اسکول آف آرٹ‘‘ تھا۔

آج اپنی تحریر کے ذریعے میرا مقصد ان کے فن پر تبصرہ کرنا ہے کہ یہ میرا شعبہ نہیں اور نہ اس تعلق کا ذکر کرنا ہے جو زندگی میں قلیل مدت کے لئے پیدا ہوا بلکہ یہ تو وہ احساسِ جرم ہے جو میرے وجود سے جونک کی طرح چمٹ گیا ہے۔ میں اس اذیت سے فرار چاہتی ہوں اور کہنا چاہتی ہوں کہ اقبال بھائی ہمیں معاف کردیں کہ ہم نے آپ کا حق ادا نہیں کیا اور کرتے بھی کیسے کہ ہم تو خود دیوالیہ تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں سات آٹھ سال کی کم عمر لڑکی تھی تو ہمارے گھر میں ایک خوش شکل وجیہہ نوجوان اکثر آیا کرتے تھے جن کو میرے بھائی ”للن‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ سب سے بڑے بھائی کے دوست ہونے کے ناطے ان کا رویہ مجھ سے مشفقانہ تھا۔ اس وقت وہ ملک کے ”عظیم نامی گرامی آرٹسٹ‘‘ بھی نہیں بنے تھے اور کچھ باتیں تو یاد نہیں رہیں ہاں ایک بات ضرور یاد ہے کہ جب ایک دن میرے بھائی یوسف ضیغم نے مجھ سے کہا ”للن بہت اچھی تصویریں بناتا ہے اور ایک دن بہت بڑا اور مشہور آرٹسٹ ہوگا‘‘ جس پر اقبال بھائی نے لقمہ دیا ”پھر تمہارے بھائی کہیں گے یہ میرا دوست ہے‘‘ اس پر میں نے اپنے بھائی کی محبت میں کہ جو شاعر تھے، چمک کر کہا ”جی نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ایک دن میرے بھائی بہت مشہور شاعر ہوں گے اور آپ کہیں گے کہ ضیغم میرا دوست ہے‘‘۔ آج بھی وہ فلک شگاف قہقہے میرے کانوں میں گونجتے ہیں جو اس جملے پر لگے۔

وقت نے ثابت کیا کہ اقبال بھائی کا دعویٰ سچا تھا۔ وہ اپنی مسلسل محنت کے بل بوتے پر ملک اور ملک کے باہر بھی عظیم مصور کے طور پر پہچانے گئے۔ میرے بھائی نے بہن کی بات اس طرح رکھ لی کہ اس وقت کا انتظارکیے بغیر جلد ہی امریکہ کا راستہ ناپا کہ جب وہ للن کی دوستی کے حوالے سے اپنی شناخت کرواتے۔ امریکہ کی زندگی کی سختی اور کچھ وقت کی دوڑ میں ان کا ”للن‘‘ سے دوستی کا رشتہ بھی دھول بن کر اُڑ گیا۔ خود میں نے اس عمر کے بعد صرف اقبال بھائی کی بنائی ہوئی تصاویر سب رنگ اور اخبارِ جہاں میں دیکھیں اور یوں آہستہ آہستہ وہ بڑا نام بن گئے جن سے رسائی صرف خبروں کے حوالے سے رہ گئی۔

بچپن کی یاد کا ہلکا سا رشتہ اندر ہی کہیں دفن ہوگیا۔ پھر بھیا جب سالہاسال بعد پہلی بار پاکستان پلٹے تو پہلا فون اقبال بھائی کو کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”للن‘‘ انہوں نے ابھی یہی کہا تھا تو ادھر سے آواز آئی ”ضیغم کہاں ہو کیسے ہو؟ ‘‘ ایسا لگا جیسے یہ آواز ان کے پاس سے جدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ بھیا اور ان کے بیوی بچوں کی خاطرداری میں اقبال بھائی نے ثابت کردیا کہ نہ صرف وہ عظیم فنکار ہیں بلکہ پرخلوص اور بے غرض دوست بھی ہیں۔ اپنے فوٹوگرافر کو بھیج کر ان کی بیٹی کی تصویر لی اور پھر اس سے بہت بڑی شاہکار تصویر بنائی۔

اس کے علاوہ بھی اپنے عظیم فن پارے بطور تحفہ دیے جو آج بھی ایک عظیم سرمایہ کی صورت میرے بھائی کے گھر کی زینت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور لمبا وقفہ آیا، ان سے ملاقات کا یہ غالباً 1996ء کی بات ہوگی کہ جب پاکستان آرٹ کونسل میں ان کی تصاویر کی نمائش تھی۔ ایک بار پھر میں جھجکتے ہوئے ان کے پاس گئی، وہ دوستوں میں گھرے ہوئے تھے۔ میں نے بھائی کا حوالہ دیا، وہ خوشی بلکہ بے چینی سے گویا ہوئے ”کہاں ہے یوسف ضیغم وہ میرا بہت اچھا دوست تھا‘‘ پھر کچھ دیر ان کی علمیت اور قابلیت کا ذکر کرتے رہے اور میں خموشی سے سنتی رہی۔ ان کا اس طرح بھیا کو یاد کرنا مجھے دکھ اور خوشی دونوں ہی دے رہا تھا۔ ”کاش بھیا اپنے پاکستانی دوستوں سے رابطہ رکھتے اور کسی سے نہ سہی تو اقبال بھائی سے تو ضرور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں ان کی محبت اور فن پاروں کی عظمت کے بوجھ تلے دبی سوچ رہی تھی۔

پھر ایک بار میں عقیل عباس جعفری کے ساتھ (جو میرے میکے کے پڑوس میں رہتے تھے) اپنی نانی کی قدِ آدم تصویر لے کر اقبال بھائی کے پاس گئی کہ جس کو تقریباً 70 سال قبل انڈیا کے بہت مشہور آرٹسٹ نے بنایا تھا، مقصد غالباً پرانی ہوجانے کی وجہ سے کچھ تازگی دینی تھی۔ انہوں نے تصویر کو چھونے سے انکار کردیا ”یہ بہترین پورٹریٹ ہے، کوئی بھی ٹچ اس کو دو کوڑی کا کردے گا، اس وقت یہ بہت قیمتی ہے‘‘ پھر انہیں پتہ چلا کہ میں نے نیا گھر خریدا ہے تو تحفہ میں وہی خوبصورت تصویر جس کا ذکر ابتدا میں کیا تھا، مجھے اپنے دستخط کے ساتھ دی یہ کہہ کر کہ ”تم ضیغم کی بہن ہو تو میری بھی بہن ہو‘‘ یہ شاہکار اگر کوئی بھی خریدتا تو یقیناً بہت مہنگے داموں بکتی، مگر جس کا دل قیمتی ہو وہ چیزوں کے دام نہیں لگاتا۔ اقبال بھائی نے کسی سے لینے کے بجائے سادگی سے جو دے سکتے تھے وہ دے دیا۔ کم از کم میرا ان سے مختصر تجربہ تو یہی بتاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اور بھی بہت سے لوگوں پر ان کی محبتوں کا قرض رہا ہوگا جو انہوں نے اپنے فن پاروں کی شکل میں بانٹا۔

اقبال مہدی جو دوستوں میں للن کے نام سے پہچانے جاتے تھے، یکم اپریل 1946ء کو امروہہ انڈیا کے فن کے دلدادہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مصوری کا شوق انہیں اپنے والد سید امیر علی سے ملا۔ انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ پہلی تصویر انہوں نے سات آٹھ سال کی عمر میں کوئلے سے بنائی۔ یہ کوئلہ انہوں نے اپنی امی کے کوئلے کے چولہے سے چرایا تھا۔ اپنی اس حرکت پر انہیں ڈانٹ اور مار پڑی مگر بقول اقبال بھائی کہ ”مجھے پتہ تھا کہ مجھے بڑا ہو کر آرٹسٹ بننا ہے‘‘ زیادہ غضب تب ہوا کہ جب محرم کے زمانہ میں امروہہ کے امام بارگاہ کی نئی سفیدی کی ہوئی دیواروں کو کوئلہ سے بنی تصاویر سے بھر دیا۔ پھر ان کے ابا بے بسی اور غصے کے عالم میں مسجد میں نماز ادا کرنے سے پہلے مسجد کے ستون سے انہیں باندھ دیتے تاکہ اس فنکار بچے کے بے چین ہاتھوں سے مسجد کی دیواروں کو بچایا جاسکے لیکن فن کے دھاروں کو بھلا رسی سے کہاں باندھا جاسکتا ہے؟

اسی زمانہ میں ایک دن ایک قالین فروش نے ننھے اقبال مہدی کے ہاتھ میں ہرن بنی تصویر کو دو آنے میں خرید کر اس عظیم فنکار کے شاہکار کے پہلے خریدار ہونے کا شرف حاصل کیا۔ دو آنے کا ملنا تھا کہ اقبال مہدی بجلی کی سی پھرتی سے بازار کی سمت دوڑے اور ڈرائنگ کے کاغذات خریدے تاکہ اپنے فن کی پیاس کو ان صفحات پر ڈرائنگ بناکر سیراب کیا جاسکے کہ یہی وہ شوق تھا جس سے ان کو سکون ملتا تھا۔ 12 سال کی عمر میں وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2