ٹھنڈا ماحول، شدید انگریزی اور مہنگا ملک شیک


عید کا تیسرا روز تھا۔ صبح چھ بجے کا وقت تھا اور طلحہ میرے ساتھ تھا۔ موقع غنیمت جان کر دوست سے ملک شیک پلانے کی فرمائش کی جو کہ اس نے جھٹ سے مان لی۔ طلحہ نے ایک معروف غیر ملکی ریسٹورانٹ چلنے کا کہا اور ہم چل پڑے۔

یوں تو ولایتی ریسٹورانٹ مجھے زیادہ نہیں بھاتے۔ یہ ریسٹورانٹ مگر سمندر کے عین کنارے واقع ہے اور سمندر مجھے اتنا ہی عزیز ہے جتنی آپ کو آپ کی محبوبہ!

یہاں کھانا دیگر جگہوں سے مہنگا ملتا ہے اس بات سے میں واقف تھا اور اس ہی لئے آج تک یہاں کا رخ بھی نہ کیا تھا۔ طلحہ کے اصرار پر سوچا آج یہ تجربہ بھی کر ہی لوں اور جیب کو تسلی دی کہ فکر مت کرو عید ہے۔ ہم اس بڑے سے ایم والی جگہ پہنچے ہی تھے کہ ہمیں ہماری موٹر سائیکل کیساتھ باہر ہی روک دیا گیا۔ گاڑی تو اندر تک جاسکتی تھے مگر موٹرسائیکل نہیں۔ اس امتیازی سلوک سے ناگواری ہوئی۔ جس ملک میں اس ریسٹورینٹ کا جنم ہوا وہاں کا کلچر تو ایسا نہیں۔ وہاں تو موٹرسائیکل ہو یاگاڑی والے سب کو ایک برابر سمجھا جاتا ہے۔ خیر موٹرسائیکل ہم نے تھوڑی دور کھڑی کردی۔ اور پیدل روانہ ہوئے۔ حیران کن طور پر پانچ منٹ کی واک کے دوران بیسیوں گاڑیاں اندر داخل ہوئیں مگر پیدل صرف میں نے خود ہی کو پایا۔

جیسے ہی اندر داخل ہوا ایک نئی دنیا نے میرا استقبال کیا۔ گرم روشنیوں نے میرے دل کو بھی گرما دیا۔ اندر خاصا حجوم تھا کچھ تو پریاں بھی یہاں اتری ہوئی تھیں۔ آج عید کا تیسرا روز تھا مگر میرے علاوہ کسی نے بھی شلوار قمیض یا نیا لباس نہیں پہنا تھا۔ بلکہ یہاں سب نے نیکرز یا پجامے وغیرہ پہن رکھے تھے جو کہ موسم کے اعتبار سے انتہائی مناسب تھے۔ اور یہ سب ہی اس لباس میں انتہائی خوش شکل محسوس ہو رہے تھے۔ سب ہی کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔ زیادہ تر لوگ فر فر انگریزی بول رہے تھے۔ اس ماحول نے مجھ پر ایک جادو سا کردیا۔ میں نے اپنے اندر تک کچھ الگ ہی محسوس کیا ۔ اور یہ سب کچھ کسی منٹ کے چھوٹے سے حصے میں مجھ پر بیت گیا تھا یا پھر میرے لیے ایک لمحے کو وقت رک گیا تھا۔ طلحہ نے مجھے جھنجھوڑا۔ ہم یہاں کسی مقصد سے آئے تھے۔ بتائو کیا لینا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں خاصی مشقت لگی۔ کیونکہ یہاں ویٹر موجود نہیں تھے جنہیں میں بلاکر اپنے لئے کچھ طلب کرتا۔ لوگ ایک لمبی اور سیدھی قطار میں پرچیاں تھامے کھڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا اس قطار میں کھڑے ہوکر کھانا ملے گا اور ہم جھٹ سے قطار میں کھڑے ہوگئے۔ ابھی جگہ سنبھالی ہی تھی کہ ایک اور جگہ ہجوم کو پایا۔ یہ اے ٹی ایم نما مشین تھی جسے لوگوں نے گھیر رکھا تھا۔ اب کچھ سمجھ میں آئی۔ عوام پہلے اس مشین سے ایک پرچی حاصل کرتے تھے اور پھر آکر اس قطار کا حصہ بن جاتھے تھے جسکا ہم بھی حصہ تھے۔ چپ چاپ سے ہم بھی اس مشین کے ہولیے۔ کمیپوٹر سے تو ہمیں ویسے ہی خوف آتا ہے۔ اور یہاں تو معاملہ پیسوں کا بھی تھا تو ایک مرتبہ آیتہ الکرسی پڑھ کر کمپیوٹر کو چھوا۔ اس میں طرح طرح کے کھانوں کی تصاویر،تفصیل اور قیمتیں درج تھیں۔ یوں تو قیمتیں دیکھ کر مجھے خاصی گھبراہٹ ہوئی۔ مگر اصل مسئلہ اس وقت ہوا جب شدید انگریزی میں کافی، چائے اور آئسکریم وغیرہ کے نام پڑھے جو کہ خاصے مہنگے بھی تھے۔ واضح رہے شدید انگریزی میں ان الفاظ کو کہتا ہوں جنکی درست ادائیگی کیلئے مجھے لغت کا سہارا لینا پڑے۔ کافی وغیرہ کی ادائیگی تو مجھے نہیں آئی لہذا اس سے دور رہا۔ چاکلیٹ ملک شیک سب سےآسان اور عام فہم لگا قیمت مگر اسکی دو سو ستر روپے آسمان سے باتیں کررہی تھے۔ جی چاہا پوچھ لوں کمپیوٹر میاں اس قیمت میں کیا آپ بھی ہمیں ملیں گے؟ خیر ارادہ پکا تھا اور جیب کو میں نے عید ہے کہہ کر سمجھا دیا تھا ۔ لہذا دو عدد گلاس لیے اور ایک کونے میں بیٹھ کر پینے لگا۔ اس آدھے گھنٹے کی مشق میں مجھے ماحول اور لوگ ملک شیک سے کئی زیادہ لذیذ لگے اور شاید قیمت بھی میں نے اس ماحول ہی کی ادا کی تھی۔ وگرنہ پانچ سو روپے میں دو گلاس دودھ کون احمق پیتا ہے۔

ہم سب خوشیوں کو دولت میں تلاش کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں اور کچھ لوگ سکون پیسے ہی میں کیوں پاتے ہیں۔ مجھے سمجھ میں آگیا۔ آپ نہیں سمجھے ہیں تو آپ بھی پانچ سو روپے خرچیں اور دل کو گرماتے اس ٹھنڈے ماحول میں دوگلاس دودھ پی لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).