محبت کے مارے طالبعلم، انٹیگریشن پڑھاتا پیر اور اشفاق احمد


تیسرے دن شام کو ہم دونوں ماڈل ٹاون سی بلاک میں ان کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ گھر کے باہر داستان سرائے کی تختی لگی تھی، ایک داستان اُس سرائے سے اُس شام ہم بھی اٹھا لائے۔

 گھر کے ڈرائنگ روم میں اشفاق صاحب سے ایک مجنوں اور ایک تیماردارِ مجنوں کی نشست دو سے تین گھنٹے چلی۔ بانو قدسیہ نہ تھیں مگر باتوں میں اُن کا، قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی کا بھی ذکر رہا۔ ہمارے مسئلے کو سنا۔ اشفاق صاحب کہنے لگے کہ لاہور میں فورٹریس سٹیڈیم سے ایک سڑک دھرمپورہ کو جاتی ہے، اسے انفنٹری روڈ کہتے ہیں۔ اُس پر ایک بابا جی رہتے تھے، آج بھی اُنکا ڈیرا  بنام نور والوں کا ڈیرہ وہاں موجود ہے۔ اُن بابا جی سے میرا تعلق تھا اور میں اکثر اُن کے ڈیرے پر جاتا تھا۔بابا جی کے پاس بیٹھنا اور انکی باتیں سننا۔ ایک دفعہ میں انکے پاس اگست کی کسی تاریخ کو گیا۔ اگست کا موسم لاہور میں ایک بڑا سخت موسم ہوتا ہے۔ گرمی زیادہ نہیں ہوتی مگر حبس غضب کا ہوتا ہے، عجب طبیعیت اوازار  ہوتی ہے، پنکھے کےنیچے بھی بیٹھے ہوں تو پسینہ پانی کی طرح ٹپکتا ہے، پنکھے والے کولر کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں، سائے میں بھی سکون نہیں ملتا۔ اشفاق صاحب نے بابا جی کو کہا کہ یہ بھی کوئی موسم ہے، بیکار، کسی نہ کام کا، نری تکلیف ہی تکلیف۔ بابا جی نے جواب دیا،” پتر، ایسا نہیں کہتے، ہمیں علم نہیں کہ اِس طرح کے موسم میں کیا حکمت ہے، کس پودے کے بڑھنے کےلیے کیا موسم چاہیئے، پھل کو پکنے کے لیے کیا درجہ حرارت درکار ہے”۔

بابا جی کے اس جواب پر  اشفاق صاحب نے بابا جی سے لاڈ میں جپھی ڈال لی اور کہا، “بابا جی، آپ بھی بس ہم سے کبھی اتفاق نہیں کرتے”۔ بابا جی نے موسم کے لحاظ سے ایک سلوکہ، واسکٹ کی طرح کی بنیان جو آگے سے کھلی ہوتی ہے اور بڑی بڑی جیبیں ہوتی ہیں، پہن رکھا تھا۔ جیسے ہی اشفاق صاحب بغلگیر ہوئے تو اُنکا ہاتھ سلوکے میں چلا گیا، وہ سلوکہ اندر سے اتنا ٹھنڈا تھا جیسے ایر کنڈیشنر لگا ہو۔ اشفاق صاحب نےفوراً ہاتھ باہر نکالا اور بابا جی کو کہا کہ آپ تو سب سے الگ یہ ٹھنڈا سلوکہ پہنے بیٹھے ہیں، موسم نے آپ کو کیا کہنا ہے۔ بابا جی مسکرا کر خاموش رہے۔

اشفاق صاحب نے کہا کہ وہ اس معاملے پر سوچتے رہے کہ یہ ٹھنڈا سلوکہ کیسے ملتا ہے۔ پھر ایک دفعہ ایک سرائیکی علاقے سے ایک وکیل ملنے آئے تو یہ عقدہ کھلا۔ ان وکیل صاحب کے پیر کے ڈیرے پر صفیں بچھیں تھیں، جہاں پیر صاحب لوگوں سے ملتے تھے اور نماز کے وقت باجماعت نماز بھی ہوتی تھی۔ اُن پیر صاحب کے گردے میں پتھر تھے جن کی وجہ سے وہ شدید درد کا شکار ہوجاتے تھے۔ جب اُن کو تکلیف ہوتی تھی تو وہ ان بچھی صفوں پر لوٹنے لگتے تھے مگر اُس تکلیف کے وقت بھی اُن کی زبان پر ایک شٰعر رہتا تھا، “کرم تیرا ہر ویلے، تے تکلیف گاہ گاہ، ایں وی سجن واہ واہ، تے اُوں وی سجن واہ واہ “۔ اشفاق صاحب نے کہا کہ اُس دن سمجھ آئی کہ جب ایں وی سجن واہ واہ، تے اُوں وی سجن واہ واہ کے مقام سے گذر جایا جائے تو پھر دینے والا ایر کنڈیشنڈ سلوکہ عطا کر دیتا ہے۔

اُن کی اس بات پر مجھے بھی ایک سرائیکی علاقے کا پیر  یاد آ گیا۔ ایف ایس سی کے دوران میں بورڈنگ کالج میں رہتا تھا، انجینئرنگ کرنے کا شوق تھا۔ علم ہوا کہ انجینئرنگ کے لیے ریاضی میں انٹیگریشن اور ڈیفرنسییشن کے سبق آنے چاہیئں۔ کالج والوں نے پرچے میں چوائس کی ضمن میں ان اسباق کو چھوڑ دیا تھا کہ یہ مشکل سبق تھے۔ اس زمانے میں بوجہ روزگار  والدین رحیم یار خان میں رہائش پذیر تھے۔  گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آیا تو ٹیوشن کے لیے استاد ڈھونڈنا شروع کیا۔ پتہ لگا کہ ایک پیر صاحب ہیں، لیور برادرز کی رحیم یار خان کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں اور ریاضی کے ماہر ہیں۔ وہ گرمیوں کی چھٹیاں پیر صاحب کے ڈیرے پر زمیں پر بچھی صفوں پر انٹیگریشن اور ڈیفرنسییشن کے سوال کرتے گذریں۔ مرید آتے جاتے رہتے، وقت ہوتا تو انہیں چٹائیوں پر نماز پڑھتے، ریاضی سے مقابلے میں جب تھک جاتا تو وہیں لیٹ کر آرام کرتا۔ ایسا پیر پہلے نہ سنا تھا، وہ سبق جنہیں ریاضی کے استاد نہ پڑھا پائے، پیر صاحب نے ایسے واضح کیے کہ پوری انجینئرنگ کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ پیر گر کامل ہو تو مسئلے حل ہوجاتے ہیں چاہے ریاضی کے ہوں یا زندگی کے۔

اشفاق صاجب کہنے لگے کہ ہمارے گاوں میں ایک بھٹیارن تھی۔ جوانی میں بیوہ ہو گئی، ساری عمر پھر شادی نہ کی۔ مٹی کے چولہے پر لوہے کی پرات میں لوگوں کو چنے، مونجی وغیرہ بھون کر دیتی۔ خود زمین پر بیٹھ کر کام کرتی مگر اپنے ساتھ ایک رنگین خوبصورت بنی پیڑی ضرور رکھتی۔ اُس پیڑی پر نہ خود بیٹھتی نہ کسی اور کو بیٹھنے دیتی۔ میں نے ایک دن اُس سے پوچھا، “ماسی، تونے دوبارہ شادی کیوں نہ کی؟ “۔ کہنے لگی، میرا میاں فوت ہوا تو ایک دن ایک مولوی آیا اور اُس نے کہا کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ اچھی بات ہے، صبر کر لیتے ہیں کہ کسی بندے کے ساتھ سے بڑھ کر اللہ کا ساتھ ہو جائے گا، سو بس صبر کر لیا۔ میں نے پوچھا، ماسی یہ رنگدار پیڑی جو تو ساتھ لیے پھرتی ہے، یہ کس لیے ہے؟۔ کہنے لگی، اشفاق، میں تو غریب نمانی ہوں، اللہ آیا تو  اُس کو بٹھانے کے لیے میرے پاس کچھ اچھا تو ہونا چاہیئے۔ میں سوچتا ہوں کہ رب سوہنا بھی کبھی نہ کبھی ماسی کے پاس بیٹھتا ہو گا۔

وقت گذرنے کا پتہ نہ لگا، ان باتوں اور قصوں سے ہم پریشانوں کی کچھ ڈھارس بندھی۔ مجنون کو کہنے لگے کہ تمہاری مکمل بات سن کر اور تمھارے گھر کے حالات جان کر یہی کہتا ہوں کہ مان لو یا منا لو؛  یا تو تم مان لو یا اپنی ماں کو منا لو، یہی حل ہے۔ ہم داستان سرائے سے واپس آئے اور اب میں نے اپنی ماں کو آگے کیا۔ ماں جی نے دوست کی ماں کو اپنے لحاظ سے سمجھانا شروع کیا۔ کچھ وقت لگا  اور آخر وہ رشتے کے لیے تیار ہو گئیں۔

پرانے عاشقوں کی صحرا نوردی کی مثل اس شہر نوردی نے مجھے لاہور کے مزار دکھلا دیے اور داستان سرائے سے ایک داستان بھی سامانِ مسافر میں شامل ہوئی۔ اور علم ہوا کہ پیر گر کامل ہو تو مسئلے حل ہوجاتے ہیں چاہے ریاضی کے ہوں یا زندگی کے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor