ایک آنسو کے نام جو اندر ہی کہیں  ٹپکا ۔۔۔


\"aqdas\"یکم مئی، محنت کشوں ، غریبوں، کسانوں کا دن۔آج کا دن اس مزدور کے نام جس کا بچہ اپنا بچپن ترستےہوئے گزار دیتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں روتا ہے مگر کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ غبارے کی خواہش کرنا بھی چاہے تو باپ کی آنکھوں اورجیب کے خالی پن کو بھانپ کر چپ ہو جاتا ہے۔للچائی ہوئی نظروں سے اس رنگین غبارے کو دیکھتا ہے مگر باپ سے خواہش کا اظہار نہیں کرتا۔ باپ بھی جان کر انجان بن جاتا ہے ۔۔۔اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے اس کے پاس۔آج کا دن

دہقان کے نام

جس کے ڈھوروں کوظالم ہنکا لے گئے

جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے

ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی

دوسری مالئے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی

جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے

دھجیاں ہو گئی ہے

اس بوڑھے کسان کے نام جس نے اپنی زندگی وڈیرے کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے گزار دی ، جیسے اس کے باپ دادا نے کاٹی اورشاید اب اس کے بچے اوراس کے بچوں کے بچے بھی ایسی ہی زندگی گزار دیں گے۔ ایک اچھے کل کی امید ، اب حسرت اورناکامی بن کر اس کی موتیا زدہ آنکھوں سے ٹپکتی ہے، جن کا علاج کروانے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ پیسے کہاں سے آئیں؟ یہاں تو روٹی ٹکر بڑی مشکل سے ملتا ہے،علاج کروانے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ کیا وہ علاج کے پیسے اس زمیندار سے نہیں مانگ سکتا ، جس کے ہاں وہ پشتوں سے کام کرتا چلا آرہا ہے؟ مانگ سکتا ہے ۔ مگر اس کے بدلے وہ اس کے حصے کی گندم کاٹ لے گا۔اور گندم کا حصہ کٹ گیا تو ساراسال کھائیں گے کیا۔اب گالیوں اور مار پر تو گزارا نہیں ہو سکتا نا!

 آج کا دن اس تیلی، مصلی ماچھی، مراثی  اورموچی کے نام ، جن کے نام کے ساتھ لگا یہ لیبل موت کے بعد اترے تو اترے ورنہ زندگی بھر یہ کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے پہ سجائے جئے جا رہے ہیں۔ میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے ، مجھے بچپن سے ایک بات سکھائی گئی ہے \”کمی ، کمی ہوتا ہے۔کمی کمین کو ہمیشہ اس کی حد میں رکھنا چاہیے\”۔ \”کمی پر کبھی یقین نہ کرو، یہ ہمیشہ وقت آنے پر ڈستا ہے\”۔ \”کمی کسے دا یار نہیں\”۔ اب وہ کمی بیچارہ آپ کاجرم اپنے سر لے لے، ساری زندگی آپ کے کیے ہوئے گناہ کی سزا میں جیل کاٹ لے، مگر آپ کے لیے وہ کمی ہی رہے گا۔ اس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے جائیں، یا کسی زمیندار کا لڑکا  ساری رات اسے گھر نہ آنےدے  ، آخر میں قصور اس لڑکی کا ہی ہو گا۔ کمی کی بیٹی جو ٹھہری ۔ آپ ان کی بیٹیوں کو سرعام برہنہ کریں، مگر آپ کی اپنی بیٹی پردے میں رہے گی۔۔۔آپ باعزت زمیندار جو ٹھہرے۔کسی کمی کی بیٹی کا آپ کی بیٹی سے کیا مقابلہ؟

آج کا دن ہمارے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے نام، جن کو خواہشات رکھنے کا حق اس لیے نہیں کہ وہ ان کو پورا کرنے کی استطاطت نہیں رکھتیں۔اور ہم ہر لحظہ ان کو یہ باور کرواتے ہیں کہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ۔ مگر یہ نہیں کر سکتے کہ اپنی لٹکتی ہوئی چادر کو کاٹ کر ان کی کم پڑتی چادر میں پیوند لگا دیں۔ہمارا تو یہ حال کہ اگر کوئی نوجوان کام والی اچھے کپڑے پہن لے یا تھوڑا بن سنور لے تو ہم اسے اس کی اوقات یاد دلوانے میں یک لحظہ تامل نہیں کرتے۔ہمارے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی مہنگی پرفیوم یا لپ اسٹک اگر کبھی آنکھ بچا کر لگا تی ہوئی  پکڑی جائے تو اس کی ایسی درگت بنتی ہے کہ الاامان۔۔۔کیونکہ ان سب پر تو صرف ہمارا حق ہے۔ اس غریب نوکرانی کی یہ اوقات کہاں؟ آج کوئی بیگم صاحبہ جب کسی سیمینار میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں،منرل واٹ پیتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کی بات کر رہی ہوں گی تو اس وقت ان کے اپنے گھر میں کوئی ننھی کلی اپنے سے کئی سال بڑی باجی کے کپڑے استری کر رہی ہو گی اور پیاس لگنےپر نل کو منہ لگا کر پانی پی لے گی۔ کیونکہ فریج کا ٹھنڈا پانی پینے کی اسے اجازت نہیں۔

آج کا دن سڑک کے کنارے سبزی بیچتے ہوئے ان بابا جی کے نام ، جن کی غربت انہیں اس تپتی ہوئی دھوپ میں بھی چین کی سانس نہیں لینے دیتی ۔ مگر ہم ان سے بھی پانچ،دس روپے کا بھاؤ تاؤ کر رہے ہوتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ان چند روپوں سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ،مگر ان کے لیے یہ بھی بہت اہم ہیں۔ آج کا دن اس بوڑھے کلی کے نام، جس کے کندھے ذمہ داری اور ہمارے سامان کے بوجھ تلے دبتے جا رہے ہیں۔ آج کادن اس مزدور کے نام جو اپنی فیکڑی کے مالک کو آج اسمبلی میں مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے سن رہاہے اور سوچ رہا ہے کہ کاش ان میں سے کوئی ایک کام یہ ہمارے لیے کر دیں۔ کاش یہ ہمیں پینے کے صاف پانی کا پلانٹ لگوا دیں، ہماری تنخواہ میں اضافہ کردیں، کوئی بونس ہی دے دیں، میری بیٹی کی شادی کا خر چہ ہی اٹھا دیں۔ آج کا دن اس بچے کے نام جس کا باپ گردہ بیچ کر اب ناکارہ ہو چکا ہے۔ اب اس کی جگہ اسے کام کرنا ہے۔ ہمارے مکانوں کے لیے پختہ اینٹیں تیار کرنی ہیں،جن کی پختگی میں اس کے ملائم ہاتھوں کی نرماہٹ کہیں کھو گئی ہےاس کی ہتھیلیاں بھی اس اینٹ جتنی کرخت ہیں۔

آج کا دن ہم جیسے بے حسوں کے نام،جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنے بیٹھے ہیں۔ ہر سال ایک تقریر ، ایک فوٹو، ایک تحریر یا پھر ایک دلاسہ دلوا کر اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں۔ کل سے پھر وہی ہو گا ، جیسا پہلے ہوتا چلا آیا ہے۔ہماری نسلیں انہی غریبوں کا خون پی کر، ان کے خواب چھین کر پروان چڑھیں گی۔مگروہ دن ضرور آئے گا جب

سب تخت گرائے جائیں گے، سب تاج اچھالے جائیں گے

اور راج کرے گی خلق خدا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments