چرائے ہوئے بچوں سے معذرت کا فائدہ؟


یہ خبر مقامی پاکستانی چینلز پر خال خال ہی ملے گی کہ پچھلے چھ ہفتے کے دوران امریکا میں ایک سنگین انسانی مسئلے پر بحث نے کیسے پورے ملک کو اوپر سے نیچے تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہ بحث ان خبروں سے شروع ہوئی کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قوانین کا سو فیصد سختی سے نفاذکرتے ہوئے امریکا کے ہوم لینڈ سیکیورٹی محکمے نے میکسیکو سے لگنے والی سرحد عبور کرنے والے تارکینِ وطن کو حراست میں لے کر ان کے بچے چھین لیے۔

ان بچوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہے۔ان میں شیر خوار اور نوعمر بھی شامل ہیں جنھیں کچھ نہیں معلوم کہ انھیں اپنے والدین سے کیوں الگ کیا گیا ، انھیں پنجروں میں کیوں رکھا گیا اور اب انھیں ٹیکساس کے چالیس سنٹی گریڈ تپتے صحرا میں قائم ایک کیمپ میں اجنبی شکلوں والے امریکی محکمہ صحت کے اہل کاروں اور مسلح ہوم لینڈ گارڈز کی نگرانی میں کیوں پابند کر دیا گیا ہے؟ ان بچوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے والدین کہاں نظربند ہیں یا پھر انھیں سرحد پار میکسیکو دھکیل دیا گیا ہے۔کیا وہ دوبارہ والدین کی شکلیں دیکھ پائیں گے یا بقول امریکی اٹارنی جنرل ان بچوں کو یا تو کیمپوں میں رکھا جائے گا یا پھر بے اولاد امریکی والدین کے حوالے کر دیا جائے گا۔

اٹارنی جنرل بضد ہیں کہ بچوں کو غیرقانونی تارکینِ وطن سے چھیننے کی پالیسی امریکی قوانین و ضوابط کے عین مطابق ہے۔اٹارنی جنرل نے اپنی پالیسی کے دفاع میں مسیحی ولی سینٹ پال کے پونے دو ہزار برس پرانے ایک خط کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں سلطنتِ روم کے شہریوں کو ریاستی قوانین کے احترام کی ہدایت کی گئی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ وہ امیگریشن قوانین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔حالانکہ خود ان کی اہلیہ میلانیا نے بچوں کو ماؤں سے جدا کرنے والی پالیسی کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیںایک ایسا ملک چاہیے جہاں قوانین کی پاسداری کے ساتھ ساتھ دل کی بھی حکومت ہو اور رحم دلی بھی قوانین کا حصہ ہو۔

اقوامِ متحدہ نے بھی پالیسی کے اندھا دھند نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور خود امریکی کانگریس کے ارکان کی اکثریت نے بھلے ڈیموکریٹ ہے یا ریپبلیکن ایک متبادل قانونی مسودے پر مشترکہ غور شروع کردیا ہے جس کے تحت غیرقانونی تارکینِ وطن کو گرفتاری کے بعد بچوں سمیت نظربند کیا جا سکے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اس مجوزہ قانون کو بھی مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی انجمنوں نے اس پالیسی پر کیسے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔امریکا کے کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔مگر ایک بھی مظاہرہ بچوں کو ماؤں سے جدا کرنے کی ٹرمپ پالیسی کے حق میں نہیں ہوا۔

جو لوگ نسلی امتیاز اور سامراجی ذہنیت کی تاریخ سے واقف ہیں، انھیں ٹرمپ کی اس غیر انسانی پالیسی کے بارے میں کوئی حیرت نہیں۔چار سو برس پہلے سفید فام یورپی جہاز رانوں نے مغربی افریقہ کے ساحل سے اغوا شدہ افریقی بچوں کو پکڑ پکڑ کے جہازوں میں بھرا اور غلام بنا کر براعظم امریکا میں لا کے بیچ دیا۔ آج کے سیاہ فام ان ہی بچوں کی اولاد ہیں۔

ایک امریکی صدر گذرے ہیں فرینکلن ڈی روز ویلٹ۔ان سے زیادہ مقبول صدر اب تک امریکا نے نہیں دیکھا۔چار بار صدارتی انتخاب جیتا (اس کے بعد ہی صدارت کو دو مدت تک محدود رکھنے کا قانون بنا )۔

جب انیس سو چالیس میں جنگِ عظیم کے دوران جاپانی فضائیہ نے اچانک حملہ کر کے پرل ہاربر پر لنگرانداز امریکی بحری بیڑے کو تہس نہس کر کے امریکا کو باضابطہ طور پر جنگ میں گھسیٹ لیا تو روز ویلٹ انتظامیہ نے امریکا میں بسے جاپانی نژاد شہریوں کو مشکوک قرار دیتے ہوئے انھیں نظربندی کیمپوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ایک لاکھ ستائیس ہزار میں سے لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار جاپانیوں کو ملک کی وسطی ریاستوں میں فوجی نگرانی میں قائم کیمپوں میں برس ہا برس رکھا گیا۔

اکثریت ان جاپانیوں پر مشتمل تھی جو امریکا میں پیدا ہونے والی دوسری اور تیسری پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں سے باسٹھ فیصد باقاعدہ امریکی شہری تھے اور باقی طالبِ علم یا تارکینِ وطن۔حتی کہ جس کا دادا یا دادی جاپانی تھے مگر ماں یا باپ سفید امریکی ان تک کو حراست میں لے لیا گیا۔روز ویلٹ کی اس پالیسی سے یہ جاپانی نژاد امریکی نہ صرف سماجی اچھوت بن گئے بلکہ معاشی طور پر بھی تباہ ہوگئے۔

پہلی بار کارٹر انتظامیہ نے ان جاپانیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی چھان بین کے لیے کمیشن بنایا۔ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ جاپانیوں کو قید میں رکھنے کی پالیسی کی بنیاد نسل پرست زہنیت تھی۔کارٹر کے بعد آنے والے صدر رونالڈ ریگن نے ان جاپانیوں سے معافی مانگی اور زندہ رہ جانے والے جاپاینوں کو ہرجانہ دینے کے لیے تقریباً ڈیڑہ ارب ڈالر کی رقم مختص کی۔

یہ کام صرف امریکا میں ہی نہیں ہوا۔آسٹریلیا میں سفید فام آباد کاروں نے پہلے تو مقامی قبائلی عورتوں سے شادی یا بنا شادی جنسی تعلقات قائم کیے اور پھر ان سے پیدا ہونے والے ’’ہاف کاسٹ’’ بچوں کو قبائلی گنوار پن سے سفید تہذیب کی روشنی میں لانے اور مہذب بنانے کے لیے ان بچوں کو جبراً چھین کر چرچ اور ریاستی ویلفئیر اداروں کی تحویل میں دے دیا۔اس مقصد کے لیے انیس سو پانچ میں باقاعدہ ایک پارلیمانی ایکٹ منظور کیا گیا اور اس پر انیس سو بیاسی تک عمل درآمد ہوتا رہا۔

مورخین کا کہنا ہے کہ انیس سو چھ سے انیس سو انتیس تک کتنے مخلوط بچوں ماؤں سے چھینے گئے ان کے بارے میں پورا ریکارڈ دستیاب نہیں یا پھر یکجا نہیں۔مگر انیس سو تیس سے بیاسی تک سفید فام مردوں اور مقامی قبائلی عورتوں سے پیدا ہونے تقریباً ڈھائی لاکھ بچوں کو جبراً چھین کر انھیں ہاسٹلز اور کیمپوں میں رکھا گیا۔ ان کی زبان، شناخت،کلچر اور شجرہ تک چھین لیا گیا۔اب یہ ہاف کاسٹ ان کے بچے کہ جن کو تہذیب کی روشنی میں لانے کا وعدہ کیا گیا تھا ، شہروں میں ادنی درجے کی ملازمتیں کر کے ایک نسلی خلا میں معلق ہیں۔اس بچوں کو آسٹریلوی ناقدین چرائی ہوئی نسل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

مگر کچھ بھی کہیں گورا رحم دل بھی تو ہوتا ہے نا۔ انیس سو ننانونے میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ نے ایک قرار داد میں اس چرائی ہوئی نسل سے دل سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہمیں معاف کر دیجیے، ہماری پیشرو پارلیمانوں اور قانون سازوں نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔دو ہزار آٹھ میں پھر اس معافی کا پارلیمانی اعادہ کیا گیا۔مگر اس چرائی ہوئی نسل کے مالی ازالے کے بارے میں معافی مانگنے والے اب تک خاموش ہیں۔

ہو سکتا ہے ٹرمپ کے بعد آنے والا کوئی امریکی صدر یا کانگریس آج میکسیکو کی سرحد پر جبراًعلیحدہ کیے جا رہے بچوں سے معافی مانگ لے مگر ان بچوں کا مستقبل کیا اس معافی کو قبول کر لے گا ؟ کیا کوئی بھی معافی کسی بھی بچے کی زندگی کے ابتدائی قیمتی ترین برسوں کا ازالہ ہو سکتی ہے۔جانے دیجیِے۔ریاستیں ویسے بھی موٹے دماغ کی ہوتی ہیں، ان سے ایسے نازک سوالات نہیں کرنے چاہئیں کہ جن کا تعلق انسانی ضمیر سے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).