عید اور ہمارے پردیسی


 

خدا معلوم ان عمررسیدہ ٹاہلیوں، بیریوں اورکچے رستوں کو ہمارے تارکین دیہات سے کیا نسبت ہے؟ ہمارے جذبات کو تو ماجدؔصدیقی نے خوب زبان دی :

 اس کے ملنے کی کیا وہ سج دھج تھی

مور کلرکہار کے جیسے

اپنے بچے جوان ہوئے تو لگا

سب پرندے تھے ڈار کے جیسے

ایسے بکھریں تمام دوستیاں

خواب تھے دور پار کے جیسے

 ہمارے جذبات توقابل فہم ہیں کہ ہم اپنے ان پیاروں کے ساتھ کھیتوں، کھلیانوں اورگلیوں میں کھیلتے پلے بڑھے یا ان میں سے کئی ہمارے ہاتھوں میں بڑے ہوئے، مگران پیڑوں اوررستوں کی سمجھ نہیں آتی، جو ہمارے عید مناکرواپس جاتے پردیسیوں کودیکھ کر اداس ہوجاتے ہیں۔ گوشت پوست سے بنے انسان کے سینے میں تو دل ہے، مگران ٹاہلیوں، بیریوں، شہتوتوں اورپگڈنڈیوں کو کون محبت کرنے پرمجبورکرتاہے؟شایدجمالِ ہم نشیں درمن اثر کردکے اصول کے تحت دل والوں کے ساتھ رہتے رہتے، انہیں بھی محبت کرنی آجاتی ہے۔ ہوسکتاہے کہ دیہات کے درختوں کی چھائوں اورکچے رستوںکی دھول بھی انسانوں کے ساتھ سال ہاسال کی رفاقت میں ان سے مانوس ہوجاتی ہوں۔ کیاعجب کہ گھنی چھائوں اورکچی مٹی کی بھی اپنے ہم نشینوں کی خوشبواورپائوں کے لمس سے جذباتی وابستگی ہوجاتی ہواوریہ جدائی ان سے سینے چیردیتی ہو۔ ان کی وارفتگی دیکھ کر تولگتاہے، ان کے جذبات بھی روزگارکی خاطرداغ جدائی دینے والے کے محبوب جیسے ہیں:

 مُل وِکدا سجن مِل جاوے تے

لَے لواں میں بُندے کناں دے ویچ کے

 ہجرت خوداختیاری کے تحت جانے والوں کوکوئی کیسے بتائے کہ گائوں کاپتھریلارستہ تکتے بوڑھے ماں باپ، متروں اورسکھیوں کی آنکھیں پتھراجاتی ہیں، تب جا کر کہیں کچی منڈیروں پر کوابولتاہے اورہماری اوران پیڑوںکی عید ہوتی ہے، جن کے ساتھ آپ نے برسوں ایسے بِتائے کہ جدائی کا تصوربھی محال تھا ۔ آپ کے وطن لوٹنے پروقت کاپہیہ الٹاگھومتاہے ، تو ہمارے چہرے ہی نہیں کھلتے، یہ ٹاہلیاں بھی جھوم جھوم جاتی ہیں، جن کی مہرباں چھائوںمیں بیٹھ کر کبھی آپ نے کسی سے عمربھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی تھیں۔ بیرکے یہ پرانے درخت اپنی ٹہنیاں آپ کے سامنے جھکادیتے ہیں۔ اپنے بچپن میں جن پرچڑھ کرآپ نے لاتعدادمرتبہ بیرکھائے تھے۔ بوڑھے برگدآپ کے اعزازمیں اپنی چھائوں اوربھی گھنی کردیتے ہیں۔ مبادہ کہیں شہرکی برق رفتاراورمشینی زندگی میں آپ کی روح جھلس گئی ہو۔ خوشی کے گیت گاتی چڑیاں اورفاختائیںٹہنی درٹہنی اورمنڈیردرمنڈیر پر پھدکتی پھرتی ہیں۔ دورتک بل کھاتی پکڈنڈیاں آپ کے سجل پائوں نصیب ہونے کی خوشی میںاپنے اوپرسبزے کی دبیزتہہ اوڑھ لیتی ہیں۔ انہیںمعلوم ہے کہ ماضی کے برعکس اب آپ کے پائوں نرم ونازک ہوچکے ہیں، ورنہ ماضی میں توآپ ان پر ننگے پائوں ہی دوڑتے پھرتے تھے۔ بخدا آپ کے جہازبراہ راست ہمارے دلوں پر لینڈکرتے ہیں۔ عیدسے ایک دن قبل جب آپ پختہ سڑک سے اپنے گائوں کے کچے رستے پرمڑتے ہیں، تواسے اپناوالہانہ استقبال کرنے کوبے قرار پاتے ہیں۔ ان کچے رستوں کی دھول جنونی وارفتگی کے ساتھ آپ کی لگژری گاڑیوں کے ٹائروں سے یوں لپٹتی چلی جاتی ہے کہ جیسے اس دفعہ توآپ کوواپس جانے ہی نہ دے گی۔

 بے ثبات زندگی کے میلے میں یہ بہار دو چار روز تک خوب جوبن پر ہوتی ہے۔ آپ کے صاف ستھرے لباسوں اور جسموں کی خوشبوپاکرگائوں کی فضا معطرہوجاتی ہے۔ پسماندہ دھرتی کا انگ انگ اٹھلاتاپھرتاہے۔ ہم اورہمارے اشجارایک دوسرے سے اپنے خوشی کے آنسوچھپاتے پھرتے ہیں۔ قبرمیں پائوں لٹکائے ماں باپ خودکو جوان محسوس کرتے ہیں ۔ وہ اپنے پردیسیوں اوران کے بچوں کی سیوامیں کوئی کسراٹھانہیں رکھتے۔ آپ کے بچپن کے دوست یار وں کے پائوں زمین پرنہیں ٹکتے۔ سکھیوں سے ان کی خوشی سنبھالی نہیں جاتی۔ گائوں کی کھلی فضامیںایسی دلفریب محفلیں جمتی ہیںکہ…راتوں کو جوچھڑگئی ہیں باتیں/باتوں میں گزرگئی ہیں راتیں… یادیںتازہ ہوتی ہیں، دلوں کی باتیں ہوتی ہیں، رفتگان کی باتیں ہوتی ہیں، بچپن کی باتیں ہوتی ہیں، پینگوں، جھولوں کی باتیں ہوتی ہیں، پکوان پکتے ہیں، ملن کے گیت گائے جاتے ہیں، آپ اورآپ کے نفیس بچوں پر بے کراں محبتیں نچھاورہوتی ہیں۔

تب ہم آپ کے قیمتی وقت کاجی بھرکے استحصال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم آپ کی سلامتی کے لیے مانی گئی ، مَنتیں دینے ، اپنے بکرے کھولے اورآپ کوساتھ لیے دوردرازجنگلوں میں درباروں کی طرف چل نکلتے ہیں، جہاںنشیب میں بہتی نہریں ظلمت شب کے نغمے سناتی ہیں۔ وہاں کی شکردوپہروں میں، ہو کے عالم میں دور بہت دور آسماں جھک کر زمین سے گلے ملتاہے اوریہ دونوں خوب باتیں کرتے ہیں، جیسے ماضی کی فرصت میں ہم اورآپ پہروں کیا کرتے تھے۔ شایدزمین وآسمان تاقیامت ساتھ نبھانے کے وعدوں کی تجدیدکرتے ہیں۔ ضرورایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ سکھ بھی شیئرکرتے ہوں گے۔ کیاعجب کہ دھرتی اپنے اوپرارزاں ہونے والے انسانی خون کے دلخراش قصے سناتے آسمان کے گلے میںباہیں ڈال کرچیخ پڑتی ہواوریہ چیخیں آسمان کو لرزادیتی ہوں۔ ان درباروں پر مٹی کے برتنوں میں کھاناپکتاہے اورانہیںمیں کھایاجاتاہے۔ نہ پلیٹ، نہ چھری کانٹا، ، نہ چمچ، نہ نیپکین، نہ ڈائیننگ ٹیبل، مگرآپ ہمارادل رکھنے کی خاطرزمین پربیٹھ کرہمارے ساتھ کھاناکھاتے ہیں، توہم خودکو آسمانوں پراڑتامحسوس کرتے ہیں۔

 عیدکے یہ دلگدازلمحے پلک جھپکتے میں گزرجاتے ہیں۔ آپ ہمارے پیارے، ہمارے ساتھ یا ہمارے ہاتھوں میں پلے بڑھے تارکین ِ دیہات زندگی کی حرارتوں سے بھرپورعید منا کر اور ہم پسماندوں کی خوشیاں دوبالا کر کے واپس شہروں اور ملکوں کی طرف پلٹنے کا قصد کرتے ہیں۔ ہمارے دل آپ کو روکنے کے لیے مچلتے ہیں۔ پگڈنڈیاں آپ کے پائوں جکڑنے کی سعی کرتی ہیں۔ بوڑھے درختوں کی چھائوں آپ کو واپس بلاتی ہے۔ کچے رستوں کی دھول آپ کی گاڑیوں کے ٹائروںکوجام کرنے کی خاطران سے لپٹتی ہی چلی جاتی ہے ، مگرجانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی؟ بخدا ہمیں لگتا ہے کہ خوشبوئوں کو اڑا کر ہوا لے گئی۔ گائوں کی فضااداس ہوجاتی ہے۔ دلوں میں بسنے والے پھر سے پردیس میں جابستے ہیں، توہمارے قہقہوں میں جان نہیں رہتی، کوئل کی آوازمیں کھنک نہیں رہتی، فاختہ کے گیتوں میں مٹھاس نہیں رہتی ، چڑیوں کی چہچہاہٹ میں شوخی نہیں رہتی۔ وصل کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں۔ فرقت کی صدیاںپھرسے شروع ہوتی ہیں۔ ہم ، ہمارے شجر ، ہمارے پرندے، ہمارے چاند کی ٹھنڈی لَو، ہماری پکڈنڈیاںاورہمارے کچے رستے اکیلے رہ جاتے ہیں ۔ ہجرہم کو پھر سے لاحق ہو جاتا ہے۔ ہم سب دوبارہ انتظارکی سولی پر لٹک جاتے ہیں۔ تب ہم دیہاتی اگلے رمضان کا جان لیوا انتظار شروع کرتے ہیں۔ سال بھرآپ کومیسجزکرتے ہیں ” پِپلاں دی چھاں وے…کدی بہہ جاں وے، ، حتیٰ کہ اگلی عیدآجاتی ہے اورہم بے چینی سے آپ کودعوت دیتے ہیں :

اے اہل جنوں آئو کہ ویراں ہیں شب و روز

اجڑی ہوئی محفل کو پھر اک با ر سجا لیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).