فاٹا اور پختونخوا کی خواتین سیاست میں سرگرم


60 سالہ علی بیگم سابق بیوروکریٹ ہیں اور ان کا تعلق کرّم ایجنسی سے ہے۔ وہ آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 46 سے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔

قبائلی علاقوں سے کسی خاتون کا براہِ راست انتخابات میں حصہ لینا کوئی انہونی نہیں اور یہ اعزاز سب سے پہلے باجوڑ کی 45 سالہ بادام زری نے حاصل کیا تھا جنھوں نے سنہ 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور ان پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے خواتین کے لیے سیاست میں قدم رکھنے کا جواز فراہم کیا۔

البتہ اس مرتبہ علی بیگم کا انداز مختلف اور دلیرانہ ہے۔ وہ باقاعدہ طور پر اپنی سیاسی مہم چلارہی ہیں۔ کارنر میٹنگز منعقد کر رہی ہیں اور اور گھر گھر جا کر لوگوں سے ووٹ بھی مانگ رہی ہیں۔

ہم نے جب علی بیگم سے پوچھا کہ ان کے انتخابی میدان میں اترنے کی وجہ کون سے عوامل بنے اور انھیں اب تک کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ان کا کہنا تھا ’میں چاہتی ہوں کہ عام لوگوں خصوصاً خواتین کے لیے ایسے مواقع پیدا کروں کہ وہ زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔ یہی مقصد لے کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرم میں گذشتہ الیکشن میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ شاندار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اور نوجوان طبقہ میری اولین ترجیح ہے۔ ‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرے لوگ میری بات سنتے ہیں اور میری انتخابی مہم بھی اچھی جا رہی ہے۔ البتہ دور دراز کے علاقوں تک رابطہ اور بجلی کا نہ ہونا ایسے چیلنجز ہیں جو مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ‘

پانچ سال پہلے صرف بادام زری انتخابی میدان میں تھی لیکن اس بار یہ دلیرانہ قدم علی بیگم تک محدود نہیں۔
خیبر پختوخوا کے ضلع دیر بالا سے بھی ایک خاتون حمیدہ شاہد اس بار براہ راست انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اتری ہیں۔ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے10 سے امیدوار ہیں۔
خیال رہے کہ دیر وہ علاقہ ہے جو ماضی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دیے جانے کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے۔

اب اس علاقے سے بطور امیدوار انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں حمیدہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ ہمارے پسماندہ علاقوں میں خواتین کے لیے انتخاب لڑنا ایک مشکل عمل ہے لیکن آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ کچھ ماہ قبل ضمنی انتخاب کے دوران یہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالا جو ایک مثبت قدم تھا۔ میں اس سے ایک قدم آگے جانا چاہتی ہوں اور دیر جیسے دور افتادہ ضلع سے براہ راست الیکشن لڑ کر خواتین کمیونٹی کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ بھی دوسرے علاقوں کے خواتین کی طرح ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ ‘

یاد رہے کہ رواں برس فروری میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں مقامی آبادی کے مطابق اپر اور لوئر دیر میں خواتین نے تقریباً چار دہائیوں کے بعد بڑی تعداد میں حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔

دیکھا جائے تو گذشتہ نصف دہائی میں خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کی خواتین نے اہم معاملات میں متاثر کن کردار ادا کیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور فاٹا کے انضمام میں بھی قبائلی نوجوانوں اور مشران کے ساتھ وہاں کی تعلیم یافتہ خواتین نے اپنا کردار ادا کیا۔

ان خواتین میں خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ناہید آفریدی بھی شامل ہیں۔ انضمام کے حوالے سے قبائلی علاقوں کی خواتین کے متحرک کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے 2005 میں جب ہم نے خواتین کی حقوق کی جنگ لڑنی شروع کی تو اس وقت کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جب 2012 میں ہم نے تکڑہ قبائلی خواندو (بہادر قبائلی بہنیں) کی تنظیم کی بنیاد ڈالی تو لوگوں کو اندازہ ہونے لگا کہ خواتین قبائلی علاقوں میں کتنا متحرک ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب فاٹا انضمام کی بات شروع ہوئی تو ہم خواتین سب سے آگے موجود تھیں۔ ‘

خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کی خواتین حال ہی میں ایک اور حوالے سے بھی خاصی متحرک نظر آئیں اور وہ تھی پشتون تحفظ مومنٹ۔ اس تحریک کے منفی یا مثبت پہلو سے قطع نظر اس میں بھی نوجوان اور تعلیم یافتہ خواتین کا کردار انتہائی نمایاں رہا۔

اس بار کسی مخصوص طبقے یا خاندان کا سہارا لیے بغیر خواتین کی خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کی سیاست میں شمولیت سے ایک مجموعی تبدیلی کا رجحان نظر آ رہا ہے۔ آنے والے الیکشن میں علی بیگم، حمیدہ بی بی اور ان جیسی کئی خواتین کا حصہ لینا اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے اور انتخابات میں چاہے خاتون امیدوار ہوں یا خاتون ووٹر دونوں اپنی اہمیت اور موجودگی کا بھرپور احساس دلائیں گی۔

الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مجموعی طور پر 76 لاکھ سے زیادہ خواتین ووٹر ہیں۔ تاہم کئی عشروں سے رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود خواتین کی پارلیمان میں براہ راست نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور انھیں اکثر مخصوص نشستوں کا سہارا لینا پڑتا ہیں۔

اس مرتبہ علی بیگم اور حمیدہ بی بی جیسے امیدواروں کا میدان میں آنا مرد سیاستدانوں کے لیے اگر خطرے کی گھنٹی نہیں تو ایک چیلنج ضرور ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مسقبل قریب میں صوبے اور ملک کے سیاسی میدان میں ان کا کلیدی کردار ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).