استور ایک گمشدہ جنت ہے


آج میں استور سےپاسو جا رہا ہوں لیکن استور والوں کی مہمان نوازی اور منی مرگ کا حسن شاید ہی کبھی بھلا سکوں۔ کسی نے لکھا کہ سیاح سفر کی صعوبت برداشت کرتا ہے تو قدرت اسے انعام کے طور پر حسین منظر سے نوازتی ہے۔ سیاحت اور تفریح میں فرق ہی یہ ہے کہ سیاح ایک منظر دیکھنے کیلئے بہت جوکھم کرتا ہے۔ برزل ٹاپ ، جو تیرہ ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہے، سے اترتے ہوئے جادوئی سی ایک وادی نظر آئی جہاں سبز پہاڑوں میں کالے بادل سٹیم انجن کے دھویں کی طرح فضا میں معلق دکھائی دیے۔ جوں جوں آ گے بڑھتے گئے سڑک کے دونوں اطراف سیکڑوں پھولوں سے لدی پہاڑی ڈھلانیں ایسی ترتیب اور شکل میں ہیں گویا کوئی پینٹگز ہوں۔ ہلکی ہلکی پھوار پورا راستہ پڑتی رہی۔ دور افق پار اکا دکا بھیڑیں چرتی نظر آ تیں ہیں تو کسی ذی روح کےموجود ہونے کا شائبہ ہوتا ہے۔ وادی میں گھنٹہ بھر جیپ بھاگتی رہی لیکن کوئی ذی روح نظر نہیں آ یا۔ کچھ ایسے پھول ہیں جو صرف منی مرگ میں ہی ملتے ہیں۔ فلم گلیڈیٹر میں جب بھی رسل کرو کو اپنی بیوی اور بچہ جنت میں اسے خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں تو انہیں بڑے ہی خوبصورت پھولوں میں خوشی سے سرشار پھرتے دکھایا گیا ہے۔ وہی پھول میں نے منی مرگ میں دیکھے ہیں۔ بہت تصویریں بھی بنائیں لیکن کوئی لینز حسن کی اس تجسیم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

استور والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کے علاقہ کو سی پیک کا حصہ ہونا چاہیے۔ سامان تجارت چلم چوکی اور برزل ٹاپ سے ہوتے ہوئے منی مرگ اور پھر منی مرگ سے داہنے ہاتھ شونٹر (آ زاد کشمیر) ، تاءو بٹ ، کیل، مظفرآباد سے ہوتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوں۔ یوں وقت اور پیسہ بھی بچے گا اور استور میں روزگار کے مواقع ملیں گے۔ میری بیوی کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے منی مرگ کا حسن برباد ہو جائے گا ، استور والے کمرشل ازم کا شکار ہو جائیں گے، بے غرض مہمان نوازی اور خلوص میں کمی آ جائے گی۔ سڑکیں بن جائیں گی اور ہر کوئی بغیر صعوبت برداشت کیے منی مرگ، دومیل، روپل اور دیوسائی کے پر فریب نظاروں سے لطف اندوز ہو سکے گا۔ مجھے سنیل گاواسکر یاد آ گیا جو کہتا تھا کہ اللہ کرے ٹیسٹ کرکٹ ختم ہو جائے تا کہ اس کے ریکارڑ محفوظ رہ سکیں۔

رقبہ کے اعتبار سے استور گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور فطری حسن سے مالا مال ہے۔ شاہراہ قراقرم سے قریب ترین ضلع بھی یہی ہے لیکن سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور عدم دستیابی کی وجہ سے سیاح اور ہوٹلنگ کا کاروبار کرنے والے ادھر کا رخ نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں خبرناک کے ایک سیگمنٹ سفرناک میں دیوسائی، منی مرگ، رٹو، بونجی، ترشنگ، دومیل اور روپل کے بارے میں ناظرین کو یہاں آ نے کی ترغیب دی گئی اور استور کے سینیر صحافی رفیع اللّٰہ آ فریدی کے مطابق عید کے بعد سیکڑوں گاڑیوں کے استور کا رخ کرنے کی وجہ خبرناک کے دو پروگرام ہیں۔ استور کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہنزہ نگر انفراسٹرکچر اور سی پیک میں شامل ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے جبکہ فطرت کی جو فسوں سامانیاں استور میں ہیں وہ کہیں نہیں۔

استور آنے والے سیاحوں کو یہ سوچ کر آ نا ہو گا کہ ابھی یہاں ہوٹلنگ کی وہ سہولتیں نہیں ہیں جو بڑے شیروں میں میسر ہوتی ہیں لہذا آنے سے پہلے تھوڑا سا ہوم ورک کر لیں اور منی مرگ کی سیاحت کے لیے ایف سی این اے (گلگت) سے اجازت لے لیں۔ استور میں زیادہ تر جیپ ٹریک ہیں لہذا اپنی گاڑی پر ہر جگہ مہم جوئی نہیں ہو سکتی۔ بہت اچھی بات یہ ہے کہ لوگ اپنے علاقہ کی ترقی چاہتے ہیں اور اپنی جدا گانہ تہذیبی و تاریخی اہمیت پر فخر کرتے ہیں۔ پولو اور کرکٹ کے دلدادہ ہیں بلکہ ایک کرکٹ سٹیڈیم بن بھی رہا ہے۔ پولو گراؤنڈ کی حالت کافی ناگفتہ بہ ہے گو کہ یہاں کے لوگ پولو کے کھیل کو اپنی جیب اور ہمت سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ دو سے تین لاکھ روپے کا گھوڑا خریدتے ہیں اور سالانہ ایک لاکھ روپے اس کے کھانے پینے پر لگاتے ہیں۔ ہر میچ سے پہلے نمک والے گرم پانی سے اسکے پائوں دھوتے ہیں اور میچ سے چار گھنٹے پہلے اسے دانہ کھلانا چھوڑ دیتے ہیں۔ میچ کے بعد دو گھنٹے لگا کر گھوڑے کے بدن سے مٹی سمیت تمام آ لائشیں گرم تولیے سے اتارتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی بہت بڑے کھلاڑی تھے لیکن میچ میں حادثہ کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے لیکن ہر ٹورنا منٹ اور میچ میں پیش پیش ہوتے ہیں۔

شیعہ اور سنی مل جل کر رہتے ہیں اور کبھی کوئی مذہبی رنجش پیدا نہیں ہوئی۔ مہمان کا احترام گویا ان کی گھٹی میں ہے۔ دھیما مزاج اور دوسرے کو اہمیت دینے کا رواج عام ہے۔ تعلیمی اعتبار سے بہت پڑھے لکھے بھی ہیں لیکن سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے محرومی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اگر استور کو سی پیک کا حصہ بنایا جائے تو علاقہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ چند دن بعد جیف سیکرٹری صاحب کا دورہ بھی ہے اور ڈر یہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی احتجاج نہ ہو جائے کیونکہ انہوں نے گانچھے میں ایک گائناکالوجسٹ مہیا کرنے کے مطالبے کے جواب میں ٹیکس ادا نہ کرنے کا طعنہ دیا تھا۔ بعد میں دو گائناکالوجسٹ کا انتظام کر بھی دیا گیا لیکن گلگت بلتستان کے لوگوں نے اسے اپنی عزت نفس پر حملہ سمجھا۔ بہر حال یہاں کے لوگ بہت کھلے دل اور ذہن کے ہیں اور چیف سیکرٹری صاحب کے ایک قدم پیچھے ہٹنے پر بہت محبت بھی جتانے لگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).