احتساب شریف


\"khawaja”کرپشن کو جڑ سے اکھاڑے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں، بلاامتیاز احتساب ہونا چاہیے، فوج حمایت کرے گی“۔ اخبار کے جس صفحے پر آرمی چیف کا یہ بیان شائع ہوا، اس صفحے پر موجودہ حالات کے تناظر میں اور پھر کیا شائع ہوسکتا ہے؟ صرف ایک اخبار کے صفحہ اول پر احتساب کی ضرورت اور آرمی چیف کے بیان کی تائید میں کم و بیش بیس بیانات موجود ہیں اور سوائے ایک، ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ قبلہ اعتزاز احسن تو شاید ذہنی خلجان کا شکار ہیں، وزیراعظم میاں نواز شریف یا مسلم لیگ ن سے متعلق حسن ظن کی رعایت کے بھی موصوف روادار نہیں ہیں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ ان کا اصل نشانہ چودھری نثار علی خان ہیں جن کے بارے میں وہ وزیراعظم نواز شریف کو بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف نے ایک تقریر بارہ اپریل منگل کے دن گوادر میں بھی کی تھی، لب لباب جس کا یہ تھا کہ” سب لوگ اچھے بچوں کی طرح محاذآرائی چھوڑیں اور باہمی تعاون پر توجہ دیں“۔ تب سابق وزیرداخلہ کی لن ترانیوں کی اٹھان بہت اونچی تھی، اسی دن انہوں نے فرمایا تھا کہ نواز شریف زرداری کے دربار میں حاضری دینے جا رہے ہیں۔ گویا وزیراعظم پر انہوں نے بہتان تراشا کہ وہ بیماری کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ ساری عمر کے تجربے کے بعد انسان میں اگر اتنا بھی رکھ رکھاؤ اور انسانیت نہ ہو کہ وہ بیماروں پر طعن و تشنیع کرے تو کیا حاصل؟ وزیراعظم پر تنقید کے لئے ہزار موضوع وہ تلاش کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ٹی وی سکرینوں اور اخبارات میں جگہ پانے کے لئے آسان نسخہ آزمایا، اور پھر اس ایک تیر سے قیادت کی خوشامد کا دوسرا شکار بھی انہوں نے آسانی سے فرما لیا۔ ایک ٹی وی اینکر نے جب ان سے آرمی چیف کے بیان پر تبصرہ چاہا تو فرمایا ”وہ کون ہوتے ہیں مجھے تنقید سے روکنے والے؟“ اینکر نے تو کسی کا نام نہ لیا تھا تو پھر چودھری اعتزاز کو اپنی داڑھی میں تنکا کیوں دکھائی دیا؟ آرمی چیف کا بیان وہ بیان کڑوا تھا، یہ میٹھا ہے جس کو بلاول زرداری سمیت ساری پیپلز پارٹی اور اپوزیشن ہپ ہپ کر رہی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوار پر نظر ڈالیں تو پیپلزپارٹی کی طرف سے احتساب کی باتوں پر ہنسی آتی ہے جس کے ایک وزیر شائد عبدالقیوم نے ببانگ دہل فرمایا تھا کہ کرپشن ہمارا حق ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی ایک سابق خاتون وزیر سے خاکسار نے سوال کیا ”اپنے گزشتہ دور حکومت کی کارکردگی پر آپ کیا فرمائیں گی؟“ احتیاط مگر سچائی کے ساتھ انہوں نے جوا ب دیا NOTHING SPECIAL ۔ پوچھا پیپلزپارٹی کا مستقبل کیا ہے؟ فرماتی ہیں ”پیپلزپارٹی کبھی نہیں مر سکتی، عرض کی ” کیا جماعت اسلامی، جے یو آئی یا اے این پی مر گئی؟ جواب میں ایک زوردار قہقہہ انہوں نے لگایا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ جماعتیں آج تک ذاتی پوزیشن میں وفاقی تو کیا صوبائی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں آئیں بلکہ اقتدار کی گلیوں میں کبھی انہوں نے حکمرانوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں بلیک میل کیا اور کبھی اتحاد کے نام پر سیاسی بھیک سے نوازی گئیں۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی سے ایسی توقع تو نہ تھی لیکن تحسین ضرور کی جانی چاہیے کہ انہوں نے سول قیادت کی بالادستی میں احتساب کی ضرورت پر زوردیا جو پوری مہذب دنیا میں رائج طریقہ ہے۔ میں نے پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستانی ریاست کا سیاسی بازو ابھی اس قدر طاقتور نہیں ہوا جتنا ایک حقیقی جمہوری ریاست میں ہونا چاہیے لیکن اس کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ سیاسی بازو کو بالکل ہی مفلوج کردیا جائے، دودھ کے دھلے چند ہی دانے ہوں گے ہمارے پاس۔ ظاہر ہے اس بیان پرحکومت کی طرف سے کس ردعمل کی توقع کی جا سکتی ہے! خود وزیراعظم بھی کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور اب تو عدالتی کمیشن کی تشکیل بھی ہو رہی ہے۔ گویا دونوں شریف احتساب کے معاملے پر اصولی طور پر متفق ہیں۔ بدعنوانی کے سرطان کے خاتمے کی کوششوں سے انکار کون کر سکتا ہے۔ لیکن ایک جھٹکے میں ساری کی ساری اپوزیشن یہ بھول گئی ہے کہ احتساب فوج کا کام نہیں، مولوی کینیڈوی کو تو میں قابل ذکر ہی نہیں سمجھتا لیکن کنٹینر پر چڑھ کر حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینے والے شیخ رشید صاحب کو تو دن میں ہی الیکشن کے تارے نظر آنے لگ گئے ہیں۔ اللہ ان کی نظر سلامت رکھے ان کو راتوں کے دھرنے میں ہونے والی شادی دوردور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ خدا کے بندو! احتساب سے اختلاف نہیں لیکن اپنا سول نظام حکومت بہتر کرو، حکومت پر تنقید کا شو ق ہے، ضرور کرو لیکن اس کی ٹانگیں مت کھینچو اور اگر یہی ڈرامہ کرنا ہے تو آمریت کا رونا بند کرو۔ اک ذرا سے چھوٹوکو سنبھالنے کے لئے اگر آرمی بلانی پڑے تواسے فوج کی کامیابی سمجھنے کی بجائے پورے ریاستی نظام کی کمزوری سمجھ کر اس کے استحکام پر توجہ دو۔

عمران خان سے تو اب امید رہی ہے نہ شکوہ، آرمی چیف کے بیان کی مکمل حمایت کرتے ہوئے انہوں نے پوری قوم کو فوج کے پیچھے کھڑا کردیا ہے۔ لگتا ہے عمران خان نے ایک بار پھر کسی ان دیکھے ایمپائر سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ کاش کوئی سیاستدان کھل کر یہ بیان دیتا کہ احتسا ب ضروری ہے اور بلاامتیاز ہونا بھی چاہیے لیکن یہ کام فوج کا نہیں بلکہ سول اداروں کا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس بیان کے بعد تیسرے ہی دن فوج کے کئی اعلیٰ افسروں کو بدعنوانی ثابت کرنے پر گھر بھیج دیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی ثابت شدہ بدعنوانی کی یہ سزا کافی ہے؟چھوٹو گینگ کے سولہ بندے پکڑنے پر تو پوری پریس کانفرنس لیکن اس خبر کی رسمی تصدیق آئی ایس پی آر نے ابھی تک نہیں کی۔ پہلے گیارہ افسر تھے پھر رات گئے چھ رہ گئے؟اب سنا ہے کہ یہ تو پہلی قسط تھی۔

کسی بدعنوان سرکاری افسر کو کہا جائے کہ ہڑپ کی گئی رقم واپس دو اور پھر گھر جاؤ کیا یہ کافی ہے؟ ایسا احتساب کس کام کا؟ ابتدا بہرحال اچھی ہے کہ اس سے پہلے کسی کو یہ ہمت بھی نہ تھی اور اس جرات رندانہ پر سپہ سالار تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن اس عمل کو بتدریج جاری رہنا چاہیے۔ بدعنوانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دئیے بغیر معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں۔

لیکن اس صورتحال کو کچھ یار لوگ اس طرح جوڑ رہے ہیں کہ اب حکومت گئی کہ گئی۔ فیس بک پر بڑے ہی رقت آمیز انداز میں سپہ سالار سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دیں۔ کسی کا مقصد اگر میاں نواز شریف کی حکومت گرانا ہے تو اس خاکسار کا خیال تو یہ ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ سیاستدان، وکیل اور سب سے بڑھ کر عوام اب اس مہم جوئی کو بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ گو کچھ لوگ اب بھی ٹیکنو کریٹ حکومت کی تجویز کی آڑ میں اپنی خواہشات کو نظریہ ضرورت کے تحت بڑے مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ سیاسی قیادت گزشتہ آٹھ برس میں کم از کم اتنا تو کر ہی چکی ہے کہ اب ایسا ماحول پیدا نہ ہونے دے گی۔

پانامہ دستاویزات کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط کے بعد پانامہ دستاویزات کا طوفان اب بظاہر کچھ تھم رہا ہے لیکن عمران خان اب بھی خوش نہیں ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان فرشتوں کے نام بھی پانامہ دستاویزات سے ہی برآمد ہوں گے جنہیں آج دو سو پچاس کے قریب ناموں کی فہرست میں تنقید کے لئے صرف وزیراعظم میاں نواز شریف ہی کے اہل خانہ نظر آرہے ہیں۔ نہیں معلوم شفاف تحقیقات کے نام پر حشر بپا کر دینے والے تب کیا مؤقف اپنائیں گے لیکن بلا امتیاز احتساب اگر کوئی طاقت سول اداروں کے علاوہ کسی اور کے سپرد کرنے کی خواہش مند ہے تو پوری قوم کی خواہش ہے کہ وہ صرف ایک پرویز مشرف کا احتساب کرا دے، سیاستدانوں کا احتساب تو ایک شفاف انتخاب کی مار ہے جو اس ملک کے عوام خود ہی کر لیں گے، مجھے یقین ہے ان دو حسابوں کے بعد آنے والی حکومت بچ جانے والے بدعنوانوں سے خود حساب لے لے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments